دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان بھی ایک اچھا ملک ہے ، جغرافیہ اچھا ہے،موسم اچھے ہیں ، اس ملک کی اپنی اصل تاریخ بھی توانائی سے بھرپور ہے، لوگ متنوع نسلی خصائص سے مالا مال ہیں ،پھر بھی یہاں خوشی ، اطمینان ، تحفظ اور ذہنی سکون کا شدید ترین بحران پایا جاتا ہے ۔چونکہ یہاں کے عافیت کوش لوگوں کی ذہنی و نفسیاتی تربیت تقدیر کے ناقص تصورات اور زمینی زندگی میں آسمان کی مسلسل مداخلت کے مفروضات پر کی گئی ہے ،اس لیے بدترین حالت میں بھی یہ لوگ مزید خرابی کے لیے ذہنی طور پر آمادہ و تیار رہتے ہیں۔کچھ یہی وجہ ہے کہ پچھتر سال سے ملک کی علمی ، انتظامی ، اخلاقی اور ادراکی کی حالت بہتری کے عوض ابتری کی طرف مائل ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت اسلام آباد یوں تو ایک کم عمر شہر نما ہے ، لیکن اس شہر کی ارضی تاریخ اور فضائی عمر بڑی پختہ ، متنوع اور پرشور ہے۔یہ شہر قدیم تمدن ٹیکسلا کا دالان سمجھیئے ۔اس کی مارگلہ پہاڑیاں وہ تکیہ ہیں جن سے خیبرپختونخوا ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ہے ۔دوسری طرف؛ ان پہاڑیوں اور راولپنڈی نام کے شہر کے بیچ کا علاقہ ہے ۔اس شہر کا تیسرا کنارا اور راستہ مری سے ہوتا ہوا کشمیر کی طرف جاتا ہے۔کشمیر کا حسین اور پرسکون شہر سرینگر یہاں سے صرف تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ،جبکہ اسلام آباد سے کراچی کا فاصلہ چودہ سو نو کلومیٹر کے اریب قریب بنتا ہے۔ یاد رہے کہ کراچی پاکستان کا پہلا اور بقول ستم ظریف اصلی دارالحکومت تھا ، پھر یوں ہوا کہ رائل برٹش آرمی کے نادرن ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کی کشش اتنی بڑھ گئی کہ اس نے ایک فوجی آمر کے اذن سے دارالحکومت کو کھینچ کر اپنی آغوش میں رکھ لیا۔ستم ظریف اسلام آباد کو راولپنڈی کا بیک یارڈ یعنی پچھلا صحن بھی قرار دیتا ہے ۔اس نئے شہر کو نظر بد سے بچانے اور پہلی قانون ساز اسمبلی کی آئین پاکستان کے عوض اختراع کردہ قرارداد مقاصد کی ایک مضبوط اور مادی جلد بندی کرنے کے لیے اس نئے شہر کا نام اسلام آباد رکھ دیا گیا۔یہ نام رکھتے ہی بڑی منصوبہ بندی سے سول بیوروکریسی کے دانشور ونگ نے اس شہر کو غیبی علوم کے ماہر بابوں کے حوالے کر دیا۔ان بابوں نے اقلیم ادب کو مابعدالطبیعیات سے آراستہ کرتے ہوئے،ملک میں طبیعیات کی ترقی اور رجحان کا راستہ قطع کر کے رکھ دیا۔ادب کسی بھی معاشرے کی بڑبڑاہٹ کو ریکارڈ کرتا ہے ،ادب خوابوں کی لفظی تجسیم کرتے معاشرتی بے ربطی کو مرتب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن بیوروکریسی کے دانشور ونگ نے اقلیم ادب میں ایسی ایسی بھنگ کاشت کی کہ ،آج بھی اسلام آباد میں سب سے زیادہ اگنے والی جڑی بوٹی کا نام بھنگ ہی ہے۔پر دانائے راز بتاتے ہیں کہ یہ بھنگ بے تاثیر اور بے توفیق ہے ۔گویا ادب کے ذریعے اجتماعی ذہن کو بھی جس نشے پر لگایا گیا ،وہ بے تاثیر نکلا ۔ ہاں مگر ایک الگ بات یہ ہوئی کہ اسلام آباد میں بے تاثیر بھنگ کے ان پودوں میں سے بعض انسانوں کی شکل اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔اور آج بھی نہ صرف حیات ہیں ،بلکہ ایک دوسرے کی عیب جوئی بھی کرتے رہتے ہیں اور سال میں دو تین بار منائی جانے والی ایک دوسرے کی سالگرہ پر پھولوں کے ریڈی میڈ اور سپانسرڈ گلدستے پکڑ کر تصویریں بھی بنواتے ہیں ۔یہ اسلام آباد کی علمی اور ادبی دانش پر جمی کائی کی مانند ہیں۔ستم ظریف کو امید ہے کہ جب یہ فرسودہ کائی ہٹ اور چھٹ جائے گی تو علم وادب کا شفاف پانی اپنے قدرتی بہاؤ میں واپس آ جائے گا۔ بات صرف اسلام آباد تک تو رہتی نہیں ، یہاں کے رجحانات پورے ملک میں پھیلتے اور سفر کرتے ہیں ۔اس لیے ستم ظریف کی پختہ رائے یہ ہے کہ اس شہر کو اپنے دارالحکومت ہونے کی لاج رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی کمزور حرکت یا ناواجب مثال پیش نہیں کرنی چاہیئے ۔لیکن یہاں کچھ نہ کچھ نیا ، الگ اور عجیب ہو ہی جاتا ہے ۔جیسا کہ حال ہی میں فروغ زبان اُردو کے وفاقی ادارے نے ، ملک کی بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلرز اور ایک کمرشل بینک کو ساتھ ملا کر ایک مقبول و مقتدر صحافی کی رسم مہندی کی ڈھولک بجانے کا اہتمام کیا ۔حیرت انگیز طور پر اس رسم حنا میں اس شہر کے دیگر علمی اداروں سے منسلک نفوس قدسیہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اس طور شرکت کی کہ انہیں اپنی اس شرکت و حرکت پر کوئی ندامت یا خجالت محسوس نہیں ہوئی۔دراصل درپردہ چاپلوسی ، منظم و مرتب اہداف پر مبنی دریوزہ گری کی کچی پکی کوششیں، متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنز کے سیکرٹری صاحبان اور وزراء کے روبرو فرشی سلام کی روایت تو ہمارے سرکاری علمی اداروں میں موجود و مستحکم رہی ہے ، مگر اب کی بار تو ہمارے فارسی زبان و ادب کے فاضل دوست نےادارہ فروغ اردو کے پلیٹ فارم سے فارسی شاعری کے مقبول رجحان شاہ پرستی سے ملتی جلتی لیکن قدرے گری ہوئی “صحافی پرستی” کی رسم سے اُردو دنیا کو روشناس کرا دیا ہے۔انہیں اپنے اس تازہ تصور پر اسلام آباد کے علمی اداروں کا بھرپور تعاون اور پرجوش شمولیت میسر رہی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے معتبر علمی اداروں کی طرف سے ملک کے مقتدر صحافی سہیل وڑائچ کے کام اور سوچ کو عنوان بنا کر ایک “رسم پرستش و فرشی سلام ” کو متعارف کرایا گیا ہے۔اس رسم میں معروف صحافی سہیل وڑائچ کے ساتھ ساتھ صحافی مجیب الرحمٰن شامی کی عظمت کی گواہی کے لیے ذرا سے کم پرانے صحافی حامد میر ، کاشف عباسی اور سلیم صافی کو بھی اس “رسم پرستش و فرشی سلام” کا حصہ بنایا گیا تھا۔علمی و تحقیقی اداروں کی اس اجتماعی ایجاد و اختراع کو چیئرمین ایچ ای سی ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی ، وائس چانسلر قاید اعظم یونیورسٹی ، وائس چانسلر کوہسار یونیورسٹی ، ڈائریکٹر ادارہ فروغ اردو ، ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات اسلامیہ اور وفاقی محتسب کے ایک اردو پنجابی جاننے والے رکن (جج ) کی مکمل تائید و حمایت حاصل رہی۔اب ایک علمی سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے ،یعنی یہ کہ؛ ملک بھر میں پھیلے دیگر علمی ادارے اگر مقتدر صحافیوں کے لیے “رسم پرستش و فرشی سلام” کا اہتمام نہیں کرتے ، تو کیا ان کی نجات ہو جائے گی؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسی تقریبات اداروں کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا کرتیں۔ہاں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ تقریبات اداروں کے سربراہان کی بارسوخ صحافتی حلقوں کے روبرو فرشی سلام کی حیثیت ضرور رکھتی ہیں۔تحقیق طلب امر تو یہ ہے کہ ؛ سہیل وڑائچ اور مجیب الرحمٰن شامی کی صحافتی خدمات اور درجات کتنے بھی بلند ہوں، مگر ان کی اُردو زبان کے فروغ میں کیا خدمات ہیں؟ تو کیا ستم ظریف کی اس قیاس آرائی پر کان دھرا جا سکتا ہے کہ ملک میں فارسی زبان کی تدریس کے مکمل خاتمے کے بعد اب اُردو زبان کو بھی اسی طرح سے غیر متعلق بنانے کی مہم کا آغاز ہوا چاہتا ہے؟ میں ذاتی طور پر اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتا ، ہاں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ان علمی اداروں کی سب سے بڑی خدمت اور افادیت ان ادروں کی سربراہی کی قمار بازی جیت لینے والے آزمودہ کھلاڑیوں کی مالی و سماجی آسودگی ہوتی ہے۔اچھا سربراہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو ادارے کے جسد خاکی میں جاں پیدا کرنے کی ذرا سی کوشش سے گریز کرتے ہوئے صرف اپنے پیکیج اور مراعات سے لطف اندوز ہونے پر مائل اور متوجہ رہے ، اور بس۔اسی طرح ایک حیرت کا مقام اور مشکل سوال یہ بھی ہے کہ ؛ قائد اعظم یونیورسٹی کو ان پیشہ ور اور آزمودہ و موثر صحافیوں سے کس طرح کے علمی سروکار ہو سکتے ہیں۔؟ جو یونیورسٹی نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو یاد کرنے سے معذور ہو ، کیا وہ اس کمزوری اور شرمندگی کی تلافی میدان صحافت کے معروف لوگوں کے کام اور سوچ کو نوک زباں سے چھو کر کر سکتی ہے؟ سچ صرف اتنا سا ہے کہ یہ وہاں کے وائس چانسلر صاحب کے تشہیری مقاصد میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ادارہ فروغ اُردو کے سربراہ اور قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کو ایک جگہ بٹھا کر پوچھنا چاہیئے کہ حضور ؛بلکہ حضرات ! یہ سب کیا ہے؟ علمی اداروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ بارسوخ صحافیوں کی بارات سجا کر اس کے آگے پیچھے جھومر ڈالی جائے؟ حیرت ہوتی ہے کہ بڑے اداروں یا یونیورسٹیوں کے سربراہ بن جانے والے بعض دوست اداروں کے وقار کا خیال رکھنے کی بجائے بات بے بات اور موقع بے موقع جھومر ڈالنے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں۔
0