ہفتہ وار کالمز

گندے پانی سے کیسے بچیں؟

ایک حدیث ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن جن لوگوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے، وہ کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں یا بالکل ان پڑھ۔ میں ان مردوں اور عورتوں کی بات کر رہا ہوں جو کھانا پکانے کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ہمارے گھروں میں ، یا گھر سے باہر ہوٹلوں میں،ریسٹورانٹوں میں، تندوروں پر،یا ڈھابوں پر۔یہ بے چارے لوگ، اس شدت کی گرمی میں آگ کے سامنے بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر یا روٹی پکاتے ہیں یا کھانا۔ ان بے چاروں کے سینوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں، لیکن انہیں کوئی آرام نہیں ملتا۔ یہ غالبا ً دنیا کے انتہائی مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ کاش یہ لو گ جانتے ہوتے کہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کر لیتے تو آج اس شدت کی گرمی میں چولہا تو نہ جھونک رہے ہوتے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2021 میں ہر لاکھ کی آبادی میں تقریباً ایک چوتھائی اموات صرف پیٹ کی بیماریوں سے ہوئیں۔ اس میں عورتوں اور مردوں کی شرح میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس کے مقابلے میں ، ملائشیا میں یہ وجہ فوتگی نہ ہونے کے برابر تھی۔اس لیے کہ ان کا پینے کا پانی آلودہ نہیں ہوتا۔
میں جس صفائی کی بات کر رہا ہوں وہ ہمارے کھانے اور پینے کی اشیاء کی ہے۔ اول تو ہمارا پانی ہی صاف نہیں ہوتا۔ شہروں میں جو پانی اور گندے پانی کے نکاس کے پائپ ساتھ ساتھ زیر زمین رکھے جاتے ہیں وہ کسی وقت آ کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب دونوں پائیپ ٹوٹ جائیں یا ان میں دڑاڑ پڑ جائے تو گندا پانی صاف پانی سے رل مل جاتا ہے۔ذرا غور کیجئے کہ آپ جس نل کے پانی کو صاف سمجھ کر نوش فرما رہے ہیں، یا اپنے کھانے پینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اس میں سیوریج کا گندا پانی مل چکا ہوسکتا ہے۔ اس میں طرح طرح کے زہریلے جراثیم پھیل چکے ہوتے ہیں جو بادی النظر دکھائی نہیں دیتے۔
ماہرین کے ایک تجزیئے کے مطابق،’’ترقی پذیر ممالک کے بڑے بڑے شہروںمیں، صاف پانی اور سینی ٹیشن کی سہولتیں، ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے تناسب میں ناکافی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صارفین اس کی دیکھ بھال، ترقی اور مرمت وغیرہ کا بوجھ برداشت نہیں کرتے اور وہ سارا بوجھ کارپوریشن اور میونسپلٹی پر لادا جاتا ہے جن کے وسائل اکثر ناکافی ہوتے ہیں‘‘۔ اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرپشن نے ہر سرکاری محکمے میں مکمل قبضہ جما رکھا ہے یہ چھپے ہوئے زیر زمین مسائل کسی کو نظر بھی نہیں آتے کہ کوئی اس پر انگلی اٹھائے۔اسی رپورٹ کے مطابق، ’’ان اخراجات پر ناکافی توجہ ہونے سے، اور خصوصاً کچی آبادیوں،اور غریب علاقوں میںجہاں لوگوں کے لیے رفع حاجت کی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں، جیسا کہ سب بڑے شہروں میںصورت حال ہے، وہاں صفائی کی کمی صاف نظر آتی ہے۔وہاں پانی گھر کے استعمال کے لیے، پینے کے لیے نا کافی، اور گندگی سے بھرا ہوتا ہے۔ وہاں گندے پانی کا نکاس شاذ و نادر ہی صاف کیا جاتا ہے۔اور اسے ویسے ہی دریائوں، ندی نالوں میں بہنے دیا جاتا ہے۔جن سے ایسا پانی زہریلے اوربیماریوں کے جراثیم سے بھرا ہوتا ہے۔بچے خصوصاً پیٹ کی بیماریوں، جیسے اسہال، کا شکار ہوتے ہیں اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ‘‘
جن ملکوں میں، حکومتیں عوام کی صحت کو پیش نظر رکھتی ہیں، ان میںایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن سے صحت عامہ کی پاسداری ہوتی ہے۔ مثلاً جو لوگ خوراک کی صنعت سے وابستہ ہیں، مثلاً ہوٹل، ریسٹورانٹ، تندور اور ڈھابے، ان کے لیے ایک سرٹیفیکیٹ لینا ضروری ہو کسی ایسی کھانا کھلانے والوں (food handler) کی ٹریننگ کا جسمیں انہیں محفوظ پانی ،خوراک اور دوسری ضروری معلومات حاصل ہوں، اور یہ کہ باتھ روم سے فارغ ہونے کے بعد صابن سے ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہوتا ہے۔ صابن کیا کرتا ہے؟ اس سرٹیفیکیٹ کے بغیر کام کرنے والے کو سزا ملے گی۔اگر ایسا قانون بن جائے تو فوراً جگہ جگہ ایسے سکول کھل جائیں گے جہاں ایسی تربیت دی جا سکے۔ محکمہ صحت ایسی تربیت کانصاب بنا کر لاگو کر سکتا ہے۔لیکن کرنے کی نیت ہونا شرط ہے۔ ورنہ یہ رشوت لینے کا ایک اور ذریعہ بن جائے گا۔اسی طرح خوراک بیچنے والوں کے لیے بھی اس قسم کی تربیت لازمی بنائی جائے۔اس کے بغیر کوئی ہوٹل، ریسٹورانٹ، ڈھابہ اور تندور نہ چلایا جا سکے۔یہ کوئی بہت لمبی ٹریننگ نہیں ہو گی۔ ایک یا دو ہفتہ کی۔اس کے نصاب میں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں اور ان کا سد باب، غذائیت کے کچھ اصول، کھانے والی اشیا ء کی پہچان کہ وہ کب کھانے کے قابل ہوتی ہیں اور کب نہیں؟ اگر خراب اجزاء سے کھانا پکے گا تو اس کے اثرات مضر ہو ں گے۔قانون سازی میں صارفین کی حفاظت کے لیے بھی شقیں ہونی چاہئیں۔ خراب کھانا دینے والوں پر مقدمہ کیا جا سکے۔اگر رہنمائی کی ضرورت ہو تو کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے ایسے نصاب کو حاصل کر کے اس کو اپنے حالات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے رہائشی تو کسی حد تک گند کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان کو زیادہ ہی گندا پانی ملے یا خوراک تو انہیں بھی پیٹ کی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ان پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کا ہوتا ہے جو ہمیشہ صاف ستھرا کھانا اور صاف پانی پیتے آتے ہیں۔ ان میں کم عمر بچوں کے لیے تو حالات بہت خاصے سنگین ہو سکتے ہیں۔کیونکہ پاکستان جانے کے بعد سب کو ایک ہی شوق ہوتا ہے کہ مزیدار کھانے کھائے جائیں۔اس شوق میں کچھ نقصان دہ اشیاء بھی کھا لی جاتی ہیں۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے2030 دیرپا ترقی کے ایجنڈا پر دستخط کیے تھے لیکن اس پر کتنا کام کیا گیا ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔اس ایجنڈا کا ہدف 3.3ہے کہ سن 2030 تک ہیپاٹائٹس اور دوسری پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پا لیا جائے گا۔ہدف نمبر 9.3ہے کہ 2030 تک آلودہ پانی اور مٹی سے ہونے والی اموات اور بیماریوں میں خاطر خواہ کمی لائی جائے گی۔اسی ہدف میں مزیدوعدہ کیا گیا کہ پانی اور حفظان صحت سب کے لیے کے برقرار رہنے والے کام کیے جائیں گے۔ہدف 1.6ہے کہ سن 2030 تک ہمہ گیر اور برابری کے اصولوں پر سب کے لیے محفوظ اور مناسب نرخوں پر دستیاب پینے کا پانی دیا جائے گا۔ہدف نمبر 2.6ہے کہ 2030 تک مناسب اور مساوی حفظان صحت کی سہولتیں سب کو میسر ہونگی۔، جن میں لڑکیوں اور عورتوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے گا۔یہ تو ہیں وہ بلند و بالا اہدف جن کا حصول عالمی سطح پر یقینی بنایا گیا تھا۔ پاکستان میں تو ایسے کوئی ایسے آثار نظر نہیں آ رہے کہ آئندہ پانچ سالوں تک ان میں سے کوئی بھی ہدف حاصل کیا جا سکے گا؟ البتہ ہماری نظر کمزور ہے۔ہو سکتا ہے کہ حکومت پاکستان در پردہ ان اہداف پر کام کر رہی ہو؟
ہم نے ایسی بیماریوں کا ذکر کیا ہے جو پانی کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ ہم نے ٹائیفائڈ کا ذکر کیا تھا، لیکن اور بھی بہت سی بیماریاں پانی سے پھیلتی ہیں، جیسے آلودہ پانی کے پینے سے متعدد پیٹ کی بیماریاں، مثلاً پولیو اور لجئین کی بیماریاں، بخارات اور سانس کے ذریعے پھیھپڑوں میں داخل ہونے والی بیماریاں، اور تیسری قسم ان بیماریوں کی ہے جو انسانی جلد ، غدود، اور آنکھوں کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتی ہیں جب ہم سوئمنگ پول، یا اور ایسے تالاب میں داخل ہوتے ہیں۔ سب بیماریاں پانی پینے سے نہیں ہوتیں بلکہ کچھ پانی پر پلنے والے حشرات الارض جیسے مچھر سے بھی پھیلتی ہیں جن میں ملیریا، ڈنگی اور مغربی دریائے نیل کا بخار۔کچھ بیماریاں بیکٹیر یا سے ہوتی ہیں، کچھ وائرس سے جیسے
ہیپاٹا ئٹس اے، اور کچھ پروٹوزوا سے ۔
پینے کا پانی کئی مرحلوں سے گذرتا ہے۔ اگر دریا سے آئے تو پہلے پانی کے پلانٹ میں اسے نتھارا جاتا ہے۔ اگر اس میں جراثیم زیادہ ہوں تو اس میں جراثیم کش دوائی ڈالی جاتی ہے۔ پھر وہ مختلف قسموں کے چھوٹے پلانٹس میں جاتا ہے اور وہاں سے زیر زمین پائپ کے ذریعے گھروں میں آتا ہے۔
اگر پانی زیر زمین ذرائع سے لیا جاتا ہے تو اس میںجانوروں اور انسانوں کے بول براز کی شمولیت کا امکان ہوتا ہے۔اگر وہ پلانٹس سے آتا ہے تو اس میں سیلاب کے پانی کا دخول ممکن ہوتا ہے۔یا اگر پلانٹ صحیح طریقے سے کام نہ کر رہا ہو تو آلودہ پانی ہی پینے والا پانی بن جاتا ہے۔غرضیکہ پانی کے اصل منبہ سے آپ کے لبوں تک آتے آتے بیشمار مرحلے ہیں جن میں کہیں بھی آلودگی آ سکتی ہے۔یہ آلودگی انسانی اور حیوانی فضلہ سے ہوتی ہے۔اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ پانی کو ہر مرحلہ پر چیک کیا جائے پیشتر اس کے کہ وہ صارف کے منہ تک پہنچے۔
پاکستان میں بڑے شہروں میں عوام کسی حد تک خبردار ہیں کہ نلکہ کے پانی سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ عوام کے لیے کوئی ایسے وسائل نہیں جن سے وہ اپنے علاقے میں آنے والی پانی کی کثافت کا تعین کر سکیں۔ان کو تب ہی پتہ چلتا ہے جب بچے ، بوڑھے اور دوسرے لوگ پیٹ پکڑ کر بیٹھ جائیں۔ اس میں بھی ضروری نہیں کہ وہ ایسی پیٹ کی بیماری کو پانی سے منسلک کریں، بلکہ اکثر اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ اس مریض نے فلاں چیز کھائی اور اس کوپر پانی پی لیا۔ تو قصور اس چیز کا تھا، پانی تو ایسے ہی بدنام ہوا۔حالانکہ عین ممکن ہے کہ پانی ہی اس تکلیف کا ذ مہ وارتھا۔ لوگ اکثر و بیشتر پانی پر شبہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ دیکھیں کہ پانی گدلا آ رہا ہے۔اگر پانی صاف نظر آ رہا ہے تو اس پر شبہ نہیں کیا جاتا۔
جو مقامی ادارے گھروں میں پانی پہنچانے کے ذمہ وار ہیں، یہ ان کا فرض ہے کہ وہ پانی کی جانچ پڑتال کریں اور صارفین کو خبردار کریں جب پانی آلودہ ہو ۔ اور ان کو یہ بھی بتائیں کہ وہ ایسے پانی کو کیسے استعمال کریں؟ صارفین میں جب کسی کو پیٹ کا مسئلہ ہو جیسے اسہال ہیں یا مڑوڑ اٹھیںتو سب سے پہلے اس ذریعے سے آنے والے پانی کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ یا اس پانی کو اچھی طرح ابال کر ٹھنڈا کر کے پئیں۔ یا بازار سےکسی اچھی کمپنی کا بوتلوں کا پانی پئیں۔اگر پانی کو کم مدت کے لیے اُبالا جائے تو اس کے سب بُرے جراثیم نہیں مرتے۔ پانی کو فلٹر کرنا بھی چاہیئے کیونکہ بہت سے مضر ذرات ابالنے سے نہیں مرتے۔
سب سے بڑا مسئلہ حفظان صحت کے قوانین کا نہ ہونا،یا نہ نفاذ ہونا ہے۔ جتنے افراد خوراک کی صنعت سے وابستہ ہیں ان کا ان بیماریوں اور ان کے کردار کی سمجھ نہ ہونا ہے۔عوام الناس کو تو ویسے ہی کوئی خاص علم نہیں ہے۔کیونکہ اگر وہ سکول میں پڑھے بھی ہوں تو ضروری نہیں ان کو اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی گیا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button