اسلام کا ذمہ دار

تمام، انبیاء کرام نے اللہ کے دین کی تبلیغ میں بیشمار تکالیف برداشت کرتے ہوئے دینی راہ پر چلتے ہوئے ثابت قدمی کا نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ عملی طور پر اللہ کے احکام پر عمل پیرا بھی رہے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰی ﷺنے تو پیٹ پر پتھر بھی باندھے اور کفار کی جانب سے اتنے پتھر کھائے کہ نعلین مبارک خون سے بھر گئیں مگر رحمت العالمین کے زبان ِمبارک سے بددعا تو دور کی بات سخت الفاظ تک نہ نکلے صبر و استقامت کی ایسی ذریں مثال اور کہیں نہیں ملتی اللہ ذوالجلال و اکرام نے دین ِ اسلام کو اپنے محبوب نبی محمد مصطفٰی ﷺکے ایام ِ حیات میں ہی اس انداز سے مکمل کیا کہ دین ِ اسلام ہر زمانے کا مکمل دین بن کر حق و سچ کی روشنی لئے جگمگا رہا ہے کفار پہلے بھی اللہ کے دین سے خائف تھے اور آج کی لادینی قوتیں بھی دین ِ اسلام کے پھیلنے سے خوف زدہ رہتی ہیںاس کی وجہ سیاسی یا کسی ملک کا ،کسی شخصیت کا دین ِ الہٰی میں فعال کردار ادا کرنا نہیں ہے مگر مبلغین جو دین ِ الہی کو پھیلانے اللہ تبارک و تعالی و نبی آخر الزماں کے احکامات و احادیث سے آگاہی دیتے چلے آرہے ہیں اُس سے کسی حد تک انسانوں کی مسلمانوں کی وابستگی دیکھی جا سکتی ہے پورا معاشرہ دین ِ الہٰی پر عمل پیرا ہوتا دکھائی نہیں دیتا جس سے عاقبت کی فکر کی بجائے دنیاوی محبت کے لئے جہدوجہد زیادہ نمایاں ملتی ہے اس نظر اندازی کے باوجود دین ِ اسلام کی سربلندی و موجودگی معاشرتی زندگی کی روح میں پیوست ہو کر انسان سے یہ اقرار کراتی ہے کہ اسلام کا ذمہ دار صرف اللہ ہے جو اسے تا قیامت مٹنے نہیں دے گا ہمارا اللہ جو بے نیاز ذات ہے اُس نے دین کی حفاظت ،اس کی تحریم و تکریم کا ذمہ خود لیا کیونکہ تمام طاقتوں کا مالک بھی اللہ ظاہر و باطن سے باخبر ہی صرف اللہ اور مشکل کشا بھی صرف اللہ ہی ہے یہ خاصیتیںکسی دوسرے کو نصیب نہیں بیشعوری کی یہ انتہا بھی بکثرت دیکھنے کو ملتی ہے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ پر کے رب العالمین ہونے کا دلی اعتراف بھی کرتے ہیں اُس کے سامنے سربسجود ہو کر اپنی مشکلات کی دوری کی درخواست در درخواست پانچوں پہر کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہی ہوگا جو اللہ چاہے گا مگر جلدبازی میں اپنی غرض کے لئے کسی مرتبے والے شخص (جو کہ خود اللہ کا محتاج ہوتا ہے )کے پائوں پکڑ لیتے ہیں اس اگلا قدم جو ضعیف الاعتقادی کی اور شرک کی انتہا ہے کہ ہم کسی اعلی معتبر بزرگ اولیاءکرام ،ولی اللہ کی زیارات پر جاکر چڑھاوے دینا شروع کر دیتے ہیں اُن سے منتیں مانگتے ہیں جن بزرگوں نے ساری زندگی دین ِ اسلام کے لئے گھر بار چھوڑ کر دین کو پھیلایا زمانے کی جاہلیت کو دور کرنے کے لئے احکام ِ الہٰی اور قرآن پاک کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کروائی اور صراط المستقیم کی راہ سے آشنائی دی تا کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں لوگ اپنی عاقبت کو سنوار سکیں اور اپنے واحد ویکتا اللہ کے سوا کسی کے در پر سجدہ ریز نہ ہو ں کیونکہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا شرک ہے جو گناہ ِ عظیم ہے ان اسلام کے داعیوں نے ،برزگان ِ دین نے کبھی بھی اپنی زندگی کسی کو یہ تبلیغ نہیں کہ ہمارے مزار پر آکر ہم سے مانگنا ہم توبہ نعوذ باللہ تمھاری منتیں پوری کریں گے اور نہ یہ ارشاد فرمایا کہ چادریں چڑھانا ،چڑھاوے دینا یا وہاں پر بیٹھے زیارت کے گدی نشین کو پیسے دے کر جانا یہ ساری باتیں اللہ کے ان پیارے بندوں میں ہر گز نہیں تھیںاور نہ ہی ان اللہ کے اعلی اوصاف رکھنے والے ان بزرگوں نے کبھی اپنی حیات میں ان لوگوں کو اس شرک والی عادات کی تلقین کی ہو اولیاء کرام نے تو صرف اللہ اور رسول ﷺ کے فرمودات کی تبلیغ کرتے ہوئے اپنے ساتھ دینی رستے پہ چلنے پر مائل کیا اسلام کو حتی الوسع پھیلاتے رہے زندگی کی آخری سانسوں تک اللہ کی واحدنیت اور نبی کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے کے یقین کی روشنی زمانوں میں پھیلاتے رہے اللہ سے شرک کی یہ اعلانیہ وارداتیں آج بھی رواں ہیں ان شرک کی وارداتوں کا مسلسل پھیلائو اسلام دشمن قوتوں کی کارروائی ہے جسے بیشعور لوگوں میں پیدا کر کے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے عملی انحراف کروانا مقصود تھا ان ساری سازشوں کے باوجود بھی دین ِ اسلام اپنا مضبوط وجود لئے قائم و دائم ہے گو کہ مسلمانوں کی نسل کشی کاعمل اس خیال سے کفار نے جاری رکھے ہوئے ہے کہ اسلام کا نام مٹا دیا جائے مگر یہ بچھڑے کو معبود بنانے والے پروردگار ِ عالم کی بے پناہ طاقت اور اُس کے عذاب کو بھلا بیٹھے ہیں روٹی کے لئے لائن میں کھڑے بے یارو مددگار بچے بوڑھے جوانوں پر بلاجواز فائرنگ پر اُن بے گناہوں کی شہادت پر اُمت ِ مسلمہ کے کسی ملک نے عملی جنبش نہیں دکھائی مگر دل کی ایمانی طاقتوں میں کوئی لرزش نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان جس کا اعتقاد اللہ پر ہو اُسے یقین ِ رہتا ہے کہ اسلام کا ذمہ دار صرف اللہ ہے اور وہی اس کا محافظ بھی ۔روح میںبسی یہی ایمان کی خوشبو کفار کی شکست کا سبب بنے گی وہ کشمیر کے مسلمان ہوں یا فلسطین کے سب کا مددگار اللہ ہو گا اور کسی پر بھروسہ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔