ہفتہ وار کالمز

جنگ!

تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے مورخ حملہ آوروں اور فاتحین کو GLAMOURIZE بھی کرتا رہا ہے ، اور تاریخ کا طالب علم فاتحین سے INSPIRE بھی ہوتا رہا، سکندرِ اعظم سے لے کر چنگیز خان تک اور چنگیز خان سے جنرل منٹگمری تک ہزار داستانیں ہیں جو صفحہ ء قرطاس پر بکھری ہوئی ہیں اور یہ بھی ہوا کہ مورخ نے تاریخ میں اپنے ذہن کے مطابق رنگ بھی بھرے وہ رنگ بھی بھرے جو کبھی کچی تاریخ کے رنگ تھے ہی نہیں،جب NATIONALISM کو فراز ملا تب سے ہر ملک نے اپنی اپنی تاریخ لکھی اپنے اپنے ہیروز بنائے اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے، ہر چند کہ جدید دور میں تاریخ کی سچائی کو جانچنے کے اصول وضع ہو چکے ہیں مگر پھر بھی قوم پرستی کا نشہ ایسا تھا کہ مقامی مورخین نے حقائق کو نظر انداز کیا، اور تاریخ لکھنے میں EXAGERATION سے کام لیا، ہم نے بھی اپنی تاریخ اپنی مرضی سے لکھی اور اس کا مرکز مذہبی تعصب ہی رہا، اور اس وقت مطالعہء پاکستان کے سارے ہیر و ایرانی، افغانی، ترک اور عربی ہیں ہمارا مقامی ہیروکوئی ہے ہی نہیں یہ اعتراض اگر کیا جائے تو لوگ باگ یا تو دلا بھٹی کو اٹھا کر لے آتے ہیں یا ہندوستان والے بھگت سنگھ کے گیت گاتے ہیں مگر عالمی تاریخ میں یہ افراد جگہ نہیں پاتے مگر زیب داستاں کے لئے ان کا نام لیا جاتا ہے، ہمارے سندھ کے دوست راجہ داہر کا نام بھی لیتے ہیں، جدید تاریخ حملہ آوروں اور فاتحین کی فتوحات کو اس نظرسے دیکھتی ہے کہ کسی حملہ آور نے مفتوحہ علاقوں کی سیاست، معیشت، سماج اور معاشرت پر کتنا گہرا اثر چھوڑا، زبان اور فکر کو کتنا بدل دیا، اور یہ بھی کہ فاتحین کے اپنے ملک کو اس کی فتوحات سے کتنا فائدہ ہوا، اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو یہ بس شوق تلوار زنی ہی تھا اور کچھ نہیں اور ہوتا بھی یہی رہا کہ ایک بادشاہ یا کسی علاقے کا سردار جب طاقتور ہوا تو وہ ارد گرد کے علاقوں پر چڑھ دوڑا اور ملکوں پر قابض ہو گیا ان علاقوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا لوٹ مار کی ایسے حملہ آوروں سے تاریخ بھری پڑی ہے اور جدید تاریخ اس سورماؤں کو مسترد کرتی ہے، ہندوستان کی تاریخ اشوک اور چندر گپت موریہ کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور مسلم ہند میں ایک نام شیر شاہ سوری کا ہو سکتا ہے تاریخ میں کسی کا نام کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو مگر آخر میں کہا یہی جائیگا کہ جنگ کوئی اچھی بات نہیں ، جنگ تباہی اور خون ریزی کا دوسرا نام ہے، سترھویں اور اٹھارویں صدیوں کو کہا جاتا ہے نظریات کی صدیاں، یہ سارے نظریات انسان، انسان دوستی، اور انسان پرستی کے گرد گھومتے تھے اس وقت کی حکومتوں نے ان نظریات کے اثرات بھی قبول کئے مگر انیسویں صدی تک آتے آتے جب معیشت مرکز ِنگاہ بننے لگی تو اختلافات بڑھنے لگے مفادات نے اولیت حاصل کرلی جس کا نتیجہ جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم کی صورت میں نکلا، معیشت نے ہی سرمایہ دار اور کیمونسٹ بلاک بنا دئے ، اسی چپقلش نے افغان جہاد کی راہ نکالی اور امن پسندوں کو مایوس ہونا پڑا کہ عالمی طاقتوں نے سترھویں اور اٹھارویں صدی کے نظریات کو ماننے سے انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ اخلاقیات کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکتا ہے مفادات کی اسی جنگ نے USSR کو پاش پاش کیا اور دنیا UNI-POLAR WORLD ہو گئی اور اسی بنیاد پر آج امریکہ کے صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ میں دُنیا چلاتا ہوں، عراق، لبیا، شام اور افغانستان میں جو خون ریزی ہوئی تاریخ اس کی گواہ ہے،اسرائیل نے ایک سال کے دوران عالمی قوانین کو روندتے ہوئے جس طرح غزہ کو تباہ کیا وہ ایک ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دور شائد واپس آگیا ہے کہ حملہ آور آتے ملکوں کو روندتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے تھے اسرائیل نے طاقت کے نشے میں نہ صرف عالمی قوانین کو پس پشت ڈالا بلکہ عالمی عدالت انصاف کو بھی ٹھینگا دکھا دیا، اور اسرائیل کو امریکہ کی تائید ملتی رہی، جدید تاریخ میں ایک PRECEDENT بن گئی کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے غزہ کے معاملے پر دنیا بھر میں بے مثال مظاہرے ہوئے مگر عوام کے غم و غصہ کو مسترد کر دیا گیا اور یہ ثابت کیا گیا کہ یہ ہمارا ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کو ہر حال میں اپنے انجام تک لے جایا جائیگا ہم بار بار کہتے ہیں کہ اس ایجنڈے کو پورا کرنے میں حماس نے اسرائیل کی مدد کی اور فلسطینیوں کو یر غمال بنا کے رکھا، عالمی میڈیا نے اس جنگ کی آدھی تصویر دکھائی تو گویا SURVIVAL THE FITTESTہی ORDER OF THE DAYہے۔
مودی جب وزیر اعظم بنے تو اس وقت امریکہ میں انکے داخلے پر پابندی تھی، امریکہ اور مغرب ان کو BUTCHER OF GUJRAT کے نام سے یاد کرتے تھے ، اگر مودی پر یہ پابندی عائد رہتی تو نہ مغرب اور امریکہ بھارت کی منڈی سے فائدہ اٹھاتے اور نہ بھارت وہ فوائد حاصل کر پاتا جو بھارت کے لئے اہم تھے سو تمام اخلاق اور قوانین کو بالائے طاق رکھ کر مودی جی کا امریکہ میں سواگت ہوا اور پچھلے دس سالوں میں بھارت امریکہ کا STRATEGIC PARTNER بن گیا بات بہت صاف ہے کہ پاکستان کی نسبت بھارت امریکہ کو بہت محبوب ہے مودی وہ سیاست دان ہے جو اپنے سیاسی فائدے کے لئے پلواما کرا سکتا ہے اور اپنے چالیس فوجی مروا سکتا ہے 9/11 کے بعد سے عالمی سیاست کے آداب بدل چکے ہیں اور مفادات کے لئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، پاکستان کو چین کے قریب ہونے اور سی پیک کی سزا مل رہی ہے بھارت نے پہلگام کروا تو دیا جس کے ثبوت اس کے پاس نہیں مگر یہ بات اس کا نشہ دو آتشہ کرتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس کے ساتھ ہیں مگر بھارت کے لئے یہ بات پریشان کن ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ ہے اور اگر پاکستان پر کوئی برا وقت آتا ہے تو چین بھارت کے راستے میں ایک دیوار بن کر حائل ہو سکتا ہے ظاہر ہے کہ چین کی پاکستان میں بے انداز INVESTMENT ہے اور اس STRATEGIC INVESTMENT کو بچانا بھی اور اپنے مفادات کو بھی ،اس بات سے کون واقف نہیں دنیا بھر میں اس وقت چین کے دیر پا مفادات پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں مگر مودی جی چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا وہ حال کریں جو اسرائیل نے غزہ کا کیا ہے مودی کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی سو مودی جی پاکستان کا پانی کم کرنے اور پھر بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ پاکستان پانی کی کمی سے تنگ آکر بھارت پر حملہ کر دے کشمیر میں بھارت کے چند چھوٹے ڈیم توڑ دے اور اس کے بعد بھارت کو یہ بہانہ مل جائے کہ پاکستان نے پہلے حملہ کیا ہے، اور اس کو RETALIATE کرنے کا پورا حق ہے تکنیکی طور پر بھارت روایتی جنگ چاہتا ہے یعنی ٹینکوں جہازوں کی جنگ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان دیر تک روایتی جنگ کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا، مگر یہ بات بھارت کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جنگ اس کی خواہش پر تو نہیں لڑی جائے گی روایتی جنگ میں اگر پاکستان دباؤ میں آتا ہے تو اپنی بقا کے لئے جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے بھارت کے وسط کو نشانہ بنایا گیا تو بھارت میں ہی اس کے اثرات ہونگے جبکہ بھارتی نیوک کے اثرات ایران، افغانستان اور چین تک جا سکتے ہیں، ظاہر ہے ان ممالک کو اس بات سے پریشانی ہے عالمی طاقتیں بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں عالمی طاقتوں نے پلوامہ کے موقع پر در پردہ یہ کہا تھا کہ دونوں ممالک ایک ایک حملہ کر لیں اور پہلے کی پوزیشن پر چلی جائیں اس بار ایسا ممکن نہیں، امریکہ بہت احتیاط سے صورتِ حال کا مطالعہ کر رہا ہے اور اس کو معلوم ہے کہ اس مسئلے کی کنجی اسی کے پاس ہے بھارت نے پاکستان کو معاشی طور پر زک پہنچانے کے لئے IMF سے بھی کہا کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے اگر فوجوں کا STAND OFF طویل ہو جاتا ہے تو معاشی طور پر پاکستان کی معیشت کو نقصان ہوگا، حکومت پاکستان کو اس نقصان سے کیسے بچا سکتی ہے اس کو دیکھنا ہوگا، غالباً بھارت کا SOLE URPOSEپاکستانی معیشت کو تباہ کرنا ہے، جنگ اچھی چیز نہیں مگر ملکوں کے سامنے اپنی بقا کا سوال ہوتاہے THANKS TO DR QADEER ہم پاکستان کو تو بچا لیں گے مگر معاشی تباہی سے کیسے بچاجائے اس کا حل نکالنا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button