نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ اور یوکرین کی جنگیں بیس جنوری کو انکے حلف اٹھانے سے پہلے ختم ہو جائیں۔ پانچ نومبر کے الیکشن سے پہلے انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ وہ اگر صدر منتخب ہو گئے تو یوکرین جنگ انکے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔ اب ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔گذشتہ مہینے صدر بائیڈن کے بھیجے ہوئے Army Tactical Missile System جو 190 میل دور تک مار کرسکتے ہیں نے میدان جنگ کے نقشے کو بدل دیا ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے یہ میزائل ملتے ہی انہیں استعمال بھی کر لیا ۔ اسکے بعد صدر پیوٹن نے روس کی نیوکلیئر ڈاکٹرائن میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوے کہا کہ روس ہر اس ملک کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کر ے گا جو اسکے دشمنوں کو خطرناک اسلحہ مہیا کرے گا۔ بعض مبصرین کی رائے میں صدر بائیڈن نے یوکرین کو یہ میزائل سسٹم دیکر ایک طرف دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور دوسری طرف نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یوکرین جنگ کے خاتمے کو مشکل بنا دیا ہے۔ عالمی سیاست کی بساط پر اس بڑی تبدیلی کے بعد یوکرین جنگ ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے کئی ماہ بعد بھی ختم ہوتے نظر نہیں آ رہی۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر ہینڈلTruth Socialکی ایک پوسٹ میں لکھاہے کہ اگر حماس نے انکے صدر بننے سے پہلے اسرائیلی یرغمالی رہا نہ کیے تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بھگتنی ہو گی۔ اس دھمکی نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا نو منتخب صدر کو یہ معلوم نہیں کہ مشرق وسطیٰ گزشتہ چودہ ماہ سے اسرائیل کے ہاتھوں جہنم بھگت رہا ہے۔ اس سے بڑی جہنم کیا ہو سکتی ہے کہ چوالیس ہزار انسانوں کو زمین اور آسمان سے آگ برسا کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ غزہ کی پٹی کو 240 ملین ٹن ملبے کے ایسے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جسے ہٹا کر ایک نیا شہر آباد کرنے میں کئی سال اور اربوں ڈالر لگیں گے۔ جس جگہ جنازوں پر بمباری کی جا رہی ہو‘ لاکھوںزخمیوں کو ڈاکٹر اور اسپتال میسر نہ ہوں‘ لوگ روٹی اور پانی کو ترس رہے ہوں وہ اگر جہنم نہیں تو پھر کیا ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ نتن یاہو کی وحشیانہ بمباری نے غزہ کو ایسا جہنم بنا دیا ہے جہاں بچے بوڑھے ‘ عورتیں اور جوان دن رات اپنی جانیں بچانے کے لیے دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ نیا امریکی صدر ان زخم خوردہ اور خوفزدہ لوگوں سے اپنی زندگی بچانے کے حق کو بھی چھین لینا چاہتا ہے۔ اس سوال کا جواب اس لیے اثبات میں ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم غزہ کے اکیس لاکھ لوگوں کو مصر میں دھکیل کر بحیرہ روم کے کنارے پر آباد اس جزیرے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ نتن یاہو کے منہ سے ٹپکتی ہوئی رال اگر کسی کو نظر نہیں آرہی تو وہ غزہ میں ہونیوالی نسل کشی سے بے خبر ہے۔
پیر کے روز دئیے گئے اس بیان میں نو منتخب صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ It is all talk and no actionاس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایکشن کرنے کے لیے کتنا بیتاب ہے۔ اس بیان کے رد عمل میں امریکی ماہرین یہ پوچھ رہے ہیں کہ اس ایکشن کی نوعیت کیا ہوگی۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں امریکی فوج بھجوا کر یرغمالیوں کو رہا کروانا چاہتا ہے۔ اس سے بڑی شقادت قلبی کیا ہو گی کہ امریکہ اپنے بچوں کو کسی غیر ملکی جنگ میں نہیں بھیجنا چاہتا مگر غزہ کے بچوں کو نتن یاہو کے جہنم میں جلتا ہوا دیکھ کر اسے رحم نہیں آ رہا۔ ہر امریکی صدر نے اپنے ملک کی بے پناہ طاقت کو بڑی بیدردی سے استعمال کیا ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کرے تواسے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو صدر نہ ہوتے ہوے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بار بار چیلنج کر کے اپنے طاقتور ہونے کاثبوت دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ابھی وائٹ ہائوس میں جلوہ افروز نہیں ہوا مگر دنیا ابھی سے خوفزدہ ہے۔ چند روز پہلے نو منتخب صدر نے کہا کہ وہ حلف اٹھانے کے فوراًبعد کینیڈا اور میکسیکو کی درآمدات پر پچیس فیصد ٹیرف لگا دے گا۔ اس اعلان کے دو دن بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو فلوریڈا میں ٹرمپ کی قیام گاہ Mar-A- Lago میں ان سے مذاکرات کرتے ہوے نظر آئے۔ جسٹن ٹروڈو جانتے ہیں کہ یہ ٹیرف انکے ملک کی معیشت کے لیے کتنا تباہ کن ثابت ہو گا۔اسی لیے وہ بھاگتے ہوے ٹرمپ کے حضورجا پہنچے۔
ایران کل تک بائیڈن انتظامیہ کیساتھ اپنے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کے لیے نت نئی شرائط عائد کرتا تھا اب وہ بغیر کسی شرط کے ٹرمپ کیساتھ بات چیت پر آمادہ ہے۔ ایران کے نائب صدر جواد ظریف نے امریکہ اور مغربی ممالک کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ان کا ملک مغرب کیساتھ ایک ایسا نیوکلیئر معاہدہ کرنے پر آمادہ ہے جو ایران کے لیے معاشی فوائد کی ضمانت دے سکے۔ تہران کی قیادت نے بدھ کے روز ہونیوالے لبنان اسرائیل امن معاہدے میں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے شمالی حصے میں در اندازی نہیں کرے گا۔ حز ب اللہ نے چودہ ماہ پہلے اسرائیل پر حملہ کرتے وقت کہا تھا کہ جب تک غزہ کی جنگ بند نہیں ہوتی وہ اسرائیل پر حملے جاری رکھے گا۔اب اس امن معاہدے کے بعد حماس یکہ و تنہا اسرائیل کا مقابلہ کرے گا۔ دو روز پہلے کرد باغیوں نے شام کے ایک بڑے صوبے Aleppoپر اچانک حملہ کر کے اسکے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ حزب اللہ اب پہلے کی طرح بشار لاسد کی مدد نہیں کر سکتا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ ابھی وائٹ ہائوس نہیں پہنچے اور مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مشرق وسطیٰ کو کس طرح کی جہنم بھگتنی ہو گی۔
0