0

یہ قائد کا پاکستان نہیں، فوجستان ہے !

بے حیائی اور بے شرمی کی سب حدیں یزیدی ٹولہ کے مقبوضہ پاکستان میں پار ہوچکی ہیں!انتہا ہے بے غیرتی اور منافقت کی۔ ایک طرف عوام کے پیمانہء صبر کے چھلک جانے کے خطرہ کو دیکھتے ہوئے قابض یزیدی ٹولہ عمران خان کی تحریکِ انصاف کو 8 ستمبر کواسلام آباد کے باہر ایک مقام، “سنگِ جانی” پر جلسہ کرنے کی اجازت بادلِ ناخواستہ دے دیتا ہے لیکن اسکے ساتھ ہی جن کٹھ پتلیوں اور سیاسی بونوں کو مسندِ اقتدار پہ بٹھایا ہوا ہے انہیں فرمان جاری کرتا ہے کہ جلسہ کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے!
جس طرح کی فسطائیت اس شیطانی ٹولہ نے عمران دشمنی میں پاکستان پر مسلط کی ہوئی ہے، اس وقت سے جب ڈھائی برس پہلے ملت فروش باجوہ نے اپنے سامراجی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے عمران حکومت کے خلاف سازش کی تھی ، اس دن سے پاکستان مکمل طور پہ ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے۔ قمر باجوہ کے قبیلہ کے یزیدی جرنیل تو نیم خواندہ ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن پنجاب کی پولیس تو اوپر سے نیچے تک جاہلوں کی آماجگاہ ہے۔
جہالت اور طاقت کا آمیزہ شاید دنیا کی بدترین شے ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے جہالت اور دولت کا یکجا ہونا گنجے کے ناخنوں کی طرح اپنا ہی سر کھجا کھجا کر مرجانے کا آزمودہ نسخہ ہے۔ تو پنجاب پولیس کے پاس جب سے یہ اختیار آیا ہے کہ وہ جس شریف انسان کو، بلا امتیازِ مرد و عورت، رسوا کرنے کیلئے، بے عزت کرنے کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرسکتی ہے، کسی کے گھر میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس بلا جھجک پامال کرسکتی ہے فوج کے مقبوضہ پاکستان میں کسی کمزور کی عزت، جان و مال محفوظ نہیں رہا ہے۔ پنجاب پولیس وہ شرمناک حرکتیں کررہی ہے کہ انسانیت شرمسار ہے۔ لیکن یزیدی ٹولہ کی طرف سے کوئی باز پرس، کوئی سرزنش نہیں اسلئے کہ انہیں مادر پدر آزاد وحشی درندوں کی مدد سے تو اس نے پاکستان کو اپنے جانکاہ شکنجہ میں کسا ہوا ہے!
سنگِ جانی کے مقام پر تحریکِ انصاف کے جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے کٹھ پتلی حکمرانوں نے وہی آزمودہ حربے آزمائے جو برسوں سے پاکستان کے سیاسی کلچر کا نقشہ بنے ہوئے ہیں۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں میں داخلے کے تمام کلیدی رستوں کو کنٹینر کھڑے کرکے مسدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ پولیس نے اپنی دانست میں مقامِ جلسہ تک جانے والی ہر شاہراہ کو بند کردیا تھا اور اسے کامل اطمینان تھا کہ اس کے وردی پوش آقاؤں نے جو فریضہ اسے سونپا تھا اس میں اس نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ نشہء اقتدار سے مغلوب آقاء کوئی اعتراض نہ کرسکیں، کوئی خامی تلاش نہ کرسکیں۔
لیکن جیسے عاصم منیر اور اس کا یزیدی ٹولہ آج بھی ذہنی طور پہ وہیں کھڑا ہے جہاں آج سے پچپن برس پہلے اس وقت کا یزید، رنگیلا جنرل یحیٰی تھا یا وہ ننگِ فوج بزدل چوہا جو اپنے آپ کو ٹائیگر کہا کرتا تھا، کہلواتا تھا جنرل نیازی۔ جبکہ جہاں تک پاکستانی قوم کی بات ہو تو وہ ذہنی طور پہ رجعت اور جہالت کے گرداب سے کب کی نکل چکی ہے اور اس نے اس پسماندہ ذہنیت کو ترک کردیا ہے جو کسی بھی قوم کیلئے ذہنی اور عملی محاذوں پر رکاوٹیں کھڑی کردیتی ہے۔
عمران خان کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہی ہے کہ اس نے پاکستانی عوام کو بیداری کا وہ شعورعطا کردیا ہے جس کو پانے کے بعد وہ اب کسی طالع آزما کے سحر میں مبتلا نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہ بزدل اور کائر جرنیلوں اور ان کے گماشتوں کی گیدڑ بھبھکیوں میں آسکتے ہیں۔
تو یزیدی ٹولہ نے اپنی جانب سے مکمل انتظام کرلیا تھا کہ عمران کے ماننے والے اور شیدائی جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے جس کی وجہ سے سرکاری بھانڈ، خواجہ آصف اور عطا تارڑ جیسے پھٹے ڈھول، بغلیں بجاکے اپنے آقاؤں کی زبان بول سکیں کہ جلسہ ناکام ہوگیا اسلئے کہ عوام اس میں شریک ہی نہیں ہوئے!
لیکن عمران کے چاہنے والے نہ شہباز شریف یا مریم نواز کی طرح ذہنی بالشتیوں کے قبیلے سے ہیں نہ عاصم منیر اور اس کے یزیدی جرنیلوں کی طرح بزدل اور ملت فروش۔ وہ اپنے قائد کے مشن کو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو اس یزیدی ٹولہ اور اس کے سیاسی گماشتوں کی غلامی سے آزاد کروانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کی ہمت رکھتا ہے اور قربانی دے رہا ہے۔
لہٰذا تحریکِ انصاف کے فدائیوں اور عمران کے چاہنے والے ان کنٹینروں سے مرعوب ہوئے نہ پولیس کے اس حصار سے خائف ہوئے جس نے دارالحکومت اسلام آباد اور پڑوسی شہر راولپنڈی کے شہریوں کیلئے اپنی فسطائیت سے بیشمار مشکلات پیدا کردی تھیں۔ تحریکِ انصاف کے چاہنے والے پاکستانی عوام نے اپنی ہمت اور جذبے کی طاقت سے ہر رکاوٹ کو پار کرلیا اور جلسہ کو مثالی کامیابی ان کی ہمت اور حوصلہ سے عطا ہوئی۔
سنگِ جانی کے جلسہ کا انعقاد اور وہ تمام تاریخ جو اس کے حوالے سے مرتب ہوئی کتنے ہی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ ان یزیدی جرنیلوں نے جن کی بزدلی اور شیطانیت نے آج سے 55 برس پہلے قائد کے پاکستان کو دو لخت کیا تھا باقی ماندہ پاکستان کو جس حال پہ پہنچادیا وہ اگر ایسے ہی رہا تو باقی ماندہ ، بچے کچھے ملک کا کیا مستقبل ہے، کیا ہوسکتا ہے؟
یہ جو جرنیل پاکستان کے مالک و مختار بنے ہوئے ہیں یہ جرنیل نہیں ساہوکار ہیں، کاروباری ادارہ بن گئی ہے پاکستانی فوج ان یزیدیوں کے ہاتھوں۔ یہ قائد کا پاکستان تو نہیں ہے بلکہ وہ ملک بن چکا ہے جسے بجا طور پر “فوجستان” کہا جاسکتا ہے۔
ہر ادارہ کا سربراہ فوج کا تین ستاروں یا دو ستاروں والا ریٹائرڈ یا حاضر سروس جرنیل بنا ہوا ہے۔ انتہا تو اب یہ ہوگئی کہ وہ ادارہ ، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، جو پاکستان کی اعلی ملازمتوں کیلئے افسروں کا انتخاب کرتا ہے انہیں امتحانات کے ایک طویل سلسلہ سے گذارنے کے بعد، اس کے سربراہ کا عہدہ ایک برس سے زیادہ ہوگیا خالی پڑا ہوا تھا۔ اب اچانک ایک حاضر سروس تین ستاروں والے جرنیل کو، جو تا حال ملتان کا کور کمانڈر ہے، اس موقر عہدے کیلئےنامزد کردیا گیا ہے ۔ موصوف نومبر میں ملتان کور کی جان چھوڑینگے اور چھوڑتے ہی، فیڈرل پبلک سروس کمیشن پر مسلط ہوجائینگے۔ آسیب کی طرح۔
یہ گنہگار، یہ آپ کا قلمکار، بھی آج سے بہت پہلے، 1966ء میں، امتحانات کے ایک صبر آزما سلسلے کو کامیابی سے عبور کرکے پاکستان فارن سروس کا رکن بنا تھا۔ مجھے فخر تھا کہ میں ایک صاف و شفاف عمل کے نتیجہ میں پاکستان کی اعلیٰ ترین سروس میں شامل ہوا تھا اور مجھے یہ بھی فخر تھا کہ جس فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے مجھے منتخب کیا تھا اس کے تمام اراکین قابل و باصلاحیت افراد تھے اور کمیشن کا سربراہ ایک بے داغ شہرت کاحامل تھا۔
اب سوچتا ہوں کہ ایک نیم خواندہ، نیم جاہل، جرنیل کی سربراہی میں اس ادارہ کا کیا حشر ہوگا؟ کس قسم کے افسران ایک جاہل کی سربراہی میں بھرتی کئے جائینگے ؟ اور پاکستان کی اعلا ملازمتوں پر کیا اسی طرح کے افراد منتخب ہونگے جیسے انہیں منتخب کرنے والے ہیں جن کے متعلق بلا شبہ یہ کہا جاسکتا ہے اور کہا جانا چاہیے کہ؎
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟
یہ ان کائرو بزدل جرنیلوں کا حال ہے جو عمران خان کے نام سے بھی خوف کھاتے ہیں اور خوف وہی کھاتے ہیں جو حق پہ نہیں ہوتے، جو باطل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہوتے ہیں۔
میں ان کو یزید کہتا ہوں اس لئے کہ یہ اسی یزید کی سنت پہ عمل کرنے والے ہیں جس نے نواسہء رسول سے بیعت چاہی تھی اور اس کے اصرارِ بیعت پر سید الشہداء کا قول کیا تھا؟ یہی کہ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا!
کیوں عاصم منیر ایک کے بعد ایک ایلچی عمران کے پاس بھیج رہا ہے اس پیغام کے ساتھ کہ تم مجھ سے سمجھوتہ کرلو ورنہ ۔۔۔؟عمران جواب میں پوچھتا ہے،ورنہ کیا؟ اور اس کا جواب یزیدِ عصر عاصم منیر کے پاس نہیں ہے، اسلئے نہیں ہے کہ باطل حق سے آنکھ ملاکر بات نہیں کرسکتا۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور یہ یزیدی تو اتنے بزدل ہیں کہ عمران کے نام سے ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ان کا دوغلا پن، ان کا منافقانہ رویہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیا جو ہتھکنڈے انہوں نے سنگِ جانی کے جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے استعمال کئے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ بزدل خوفزدہ ہوتا ہے۔ بزدل عاصم منیر اور اس کے حواری ہی ٹینکروں اور ٹینکوں کی پناہ لیتے ہیں عمران جیسا نڈر اور بے خوف انسان ان جیسی پناہیں نہیں تلاش کرتا۔ دیکھئے ہمارے یہ چار مصرعے اس حقیقت کو کیسے بیان کر رہے ہیں:
؎ٹینکروں کے پیچھے چھپتے ہیں کبھی یا ٹینک کے
کائر و بزدل ہیں یہ کتنے محافظ قوم کے
سامنے آتے نہیں ہیں قوم کے اس خوف سے
ہیں یزیدی نسل کے جتنے محافظ قوم کے!
لیکن بزدل اپنے سیاہ کرتوتوں سے ملک کو اسی ڈگر پہ لیجارہے ہیں جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان ملک سے الگ ہوا تھا۔بلوچستان کے حالات من و عن اسی طرز پہ بگڑ رہے ہیں جیسے مشرقی پاکستان میں بگڑے تھے۔
بلوچستان کے عوام کی محرومی پر حرفِ آخر سردار اختر مینگل کا وفاقی پارلیمان سے بحالِ مجبوری استعفیٰ بن گیا ہے۔ اختر مینگل بلوچستان کے اس خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اس صوبے کی سیاست میں پاکستان بننے کے بعد سے بھرپور حصہ لیا ہے۔ ان کے مرحوم والد سردار عطا اللہ مینگل بھی صوبے کے چیف منسٹررہے تھے اور ان کے بیٹے نے بھی باپ کی روایت کو زندہ رکھا۔
سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں اور انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو جو خط لکھا ہے وہ چشم کشا ہونا چاہئے۔ اس میں انہوں نے اس احساس محرومی کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے جو بلوچ عوام کے دلوں میں ویسے ہی گھرکرتی جارہی ہے جیسے مشرقی پاکستانیوں کے دلوں میں پیدا ہوگئی تھی اور جس نے آزاد بنگلہ دیش کو جنم دیا۔
پاکستان پر قابض یزیدی جرنیلوں کی آنکھیں سردار اخترمینگل کے خط سے کھل جانی چاہئیں لیکن کیا جائے کہ ان آنکھوں پر طاغوت اور ظلم کی چربی نے ایسی تہیں چڑھائی ہیں کہ عاصم منیر اور اس کے حواریوں کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کے سر پر تو صرف اور صرف عمران کو نیچا دکھانے کا بھوت ایسے ہی سوار ہے جیسے یحیٰی خان کے سر پر شیخ مجیب الرحمان کا سوار تھا۔
یہ بدبخت، ناعاقبت اندیش یزیدی ٹولہ عمران کو اپنے تابع فوجی عدالت میں گھسیٹنا چاہتا ہے اور دیکھا دیکھی اس کے کٹھ پتلی سیاسی گماشتوں، جیسے بھانڈ خواجہ آصف، نے بھی یہ راگنی الاپنی شروع کردی ہے کہ عمران کے “جرائم” ایسے ہیں کہ اس پہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
ملک ڈوب رہا ہے، معیشت تباہ حال اور برباد ہے، عوام بجلی کے بل بھرنے کیلئے بچے بیچنے کو آمادہ ہیں لیکن کٹھ پتلی حکمرانوں کے اللے تللے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔یزیدی ٹولہ بھی پاکستانی عوام کو اتنا ہی بیوقوف سمجھتا ہے جتنا سیاسی مسخرے۔ شہباز کی کٹھ پتلی حکومت عوام کو گمراہ کرنے کیلئے یہ فریبی نعرے لگا رہی ہے کہ حکومت کے اخراجات کم کئے جائینگے جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک مہینے میں، جولائی میں، اندرونِ ملک بنکوں سے حکومت نے مزید 537 ارب روپے قرض لئے ہیں اور یوں سرکار کا مجموعی پاکستانی قرضہ، غیر ملکی تو الگ ہے، ستر( 70) کھرب روپے کے لگ بھگ ہوگیا ہے۔
یہ پہاڑ جیسا قرض کون چکائے گا؟ عاصم منیر یا کٹھ پتلی مسخرہ شہباز تو نہیں چکائینگے۔یہ قرض آنے والی نسلوں کے سروں پر پہاڑ بن کر کھڑا ہوگا۔ یزید اور اس کے طالع آزماؤں پر آنے والی نسلیں لعنت بھیجیں گی اور وہ غلط نہیں ہونگی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں