0

ریاست، عدالت اور صحافت کو فوج نے کوٹھے کی طوائف بنا دیا ہے تو پھر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!

اس ہفتے سنگجانی میں تحریک انصاف کی توقع سے زیادہ کامیاب جلسے نے ایک دفعہ پھر آٹھ کے ہندسے کو سنگ میل بنا دیا۔ پہلا سنگ میل آٹھ فروری 2024ء میں ثابت ہوا تھا جب پاکستانی قوم نے پولیس، رینجرز، فوج اور عدلیہ کی طرف سے عائد کردہ تمام تر پابندیوں کے باوجود غیر متوقع طور پر کروڑوں کی تعداد میں باہر نکل کر، ووٹ ڈال کر عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پر مہر ثبت کردی تھی کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی ہی ہے۔ اس آٹھ فروری کے بعد سے آٹھ فروری کے انتخابات کو پاکستان کا پہلا خاموش انقلاب کہاجارہا ہے۔ 9 مئی کا فوج کا جعلی بیانیہ وہیں دفن ہو گیا اور عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ اس جھوٹے بیانیے کو بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد میں اپنے جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جرنیلی ٹولے کی نیندیں اڑ گئیں اور آخری موقع پر اس جلسے کو منسوخ کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی عدالت میں پہنچی، عدالت نے 22 اگست کو این او سی جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ مجبوراً حکومت اور خوفزدہ فوجی ٹولے نے ایک مرتبہ پھر خوف زدہ ہو کر ایک دن پہلے اڈیالہ جیل کا علی الصبح دروازہ کھول کر عمران خان کو قائل کر کے ایک مرتبہ پھر جلسہ منسوخ کرادیا پھر اگلی اور آخری جلسہ کرنے کی آخری تاریخ آٹھ ستمبر کی دی گئی۔ آٹھ کا ہندسہ ایک مرتبہ پھر سنگ میل بن گیا اور پاکستان کے عوام نے کراچی سے لیکر کوئٹہ تک ایک بے مثال تعداد میں شریک ہو کر اس جلسے کو تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ بنا دیا جب کہ پارٹی کا سربراہ بھی جیل میں مقید تھا۔ اس جلسے کیلئے اسلام آباد میں اتنے بڑی تعداد میں جلسے کے شرکاء کو روکنے کیلئے کنٹینرز لگا دئیے کہ پنڈی اور اسلام آباد کے رہائشی حبس بےجاکا شکار ہو گئے۔ دوسری رکاوٹ بیالیس نکات پر مشتمل وہ معاہدہ حکومت سائن کروایا جس پر دراصل حرف بہ حرف عمل کرنا بالکل ناممکن تھا مگر آٹھ فروری کی طرح عوام نے وہ حربہ بھی ناکام بنا دیا۔ اس غیر معمولی کامیابی پر حکومت، ریاست، عدالت اور صحافت کے جعلی جغادری سر جوڑ کر بیٹھے کہ اب اس باعث شرمندگی جلسے کی کامیابی کا توڑ کیسے کیا جائے کیونکہ اگلے دن تو ان اداروں کی بڑی تھو تھو ہونا تھی۔ پھر سب نے مل بیٹھ کر یہ طے کیا کہ اس کامیابی اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کی سونامی کا اس طرح توڑ کیا جائے کہ کے پی کے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا لفافہ صحافت کرنے والوں اور لفافی اور لفافہ صحافیوں کے لئے دئیے گئے بیان کو اچھالا جائے۔ اس طرح سے جلسے کی کامیابی اور عمران خان کے لئے عوام کی فقید المثال حمایت سے موضوع گفتگو بھی پٹ جائے گا اور ایک پنتھ دوکاج کے تحت علی امین گنڈا پورکو بھی نشانہ تنقید بنایا جاسکے گا ۔ اگر آج بھی ریکارڈنگ سنی جائے اور دیکھی جائے تو علی امین گنڈا پور نے صرف ان صحافیوں کو نشانہ ملامت بنایا تھا جو ہر حکومت سے منتھلی لیتے ہیں اوراس کے اپوزیشن والوں کو نشانہ ہدف بناتے ہیں جن میں خواتین صحافی بھی شامل ہیں ،گنڈا پور نے اس قسم کے بے ضمیر مرد اور خواتین صحافیوں کے لئے ایک گانے کے بول بھی دہرائے،’’مینوں نوٹ وکھا،میرا موڈ بنے‘‘۔ جرنیلوں کے کنٹرولڈ33 ٹی وی چینلز اور 35 پرنٹ میڈیا نے اسے اچھالنے کی بہت کوشش کی مگر یہ چوبیس گھنٹوں سے زائد نہ چل سکی کیونکہ اگلے دن ہی آئی ایس آئی کے نقاب پوش اسلحہ بردار لوگ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کی تمام لائٹس گل کر کے اندر داخل ہوگئے اور رات کے اندھیروں میں پاکستان تحریک انصاف کے تمام ممبران اسمبلی کو مارپیٹ کر تشدد کرکے اغواء کر کے لے گئے ۔ میڈیا اور سارے پاکستانیوں کی توجہ ملک کے اس تاریخ ترین باب پر مبذول ہوگئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور کے ریمارکس کے جو نام نہاد صحافی مذمت کر رہے ہیں ان کو ساری دنیا لفافہ اور لفافی صحافی کی حیثیت سے جانتی ہے۔کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا، کسی بھی ایک صحافی نے جو لفافہ یا لفافی نہیں ہیں ان سینکڑوں صحافیوں میں سے کسی ایک نے بھی کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ تکلیف تو ان ہی لوٹا اور لفافہ صحافیوں کو ہوئی جن پر علی امین گنڈاپور نے طنز کیا تھا۔ ہم ان میں سے چند لفافہ اور لوٹا صحافیوں کی تفصیل بیان کئے دیتے ہیں چونکہ سب لفافہ صحافیوں کی تفصیلات بیان کرنا ممکن نہیں۔ پہلے مذمت کرنے والے لفافہ صحافی ہیں منیب فاروق جنہیں خود ان کے ساتھی منا وگ والا کے نام سے پکارتے ہیں۔ منیب منا وہ ہیں جنہیں فوج نے اغواء شدہ سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کا اقبالی بیان اور انٹرویو کیلئے منتخب کیا جس کی مذمت خود سارے صحافیوں نے بھی کی۔ دوسرے لفافہ صحافی سابق وزیر اطلاعات برائے نگران حکومت مرتضیٰ سولنگی ہیں جنہیں فوج نے نگران وزیر نامزد کیا تھا اور ان کی تنخواہ اس وقت بھی GHQسے آتی ہے اور آج بھی GHQکی نمائندگے کرنے پر لفافہ پیش کیا جاتا ہے۔ تیسری صحافی غریدہ فاروقی ہیں ان کو شہباز شریف کی رکھیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے خفیہ نکاح کیا ہوا ہے مگر اعلان نہیں کیا تو اس لئے انہیں اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ غریدہ فاروقی ظاہر ہے میاں صاحب کی راکھیل ہیں تو بات بالکل واضح ہے کہ وہ مکمل طریقے سے حق نمک ادا کرتی ہیں۔ ہر دوسرے دن اپنے ٹی وی شو کے علاوہ انٹرنیٹ پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف جعلی اور جھوٹے ٹیکسٹ کرتی ہیں۔ جھوٹی بھی ثابت ہو جاتی ہیں مگر بالکل شرمندہ نہیں ہوتیں یہاں تک کہ گھر کی نوکرانی پر تشدد کرنے کے الزام کو بھی کورٹ میں جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان میڈیا ہائوسز پر اور صحافیوں پر پیسے پھینکے جاتے ہیں اور سب ناچتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں