0

کلاس روم اور ڈیجیٹل کلچر

موسم گرما کے اختتام پذیر ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھل جائیں گے اوروالدین جن کا رابطہ ہ دو تین ماہ تک سکول سے منقطع رہا وہ پھر ان جانی پچانی عمارتوں کا رخ کریں گے‘ کبھی بچوں کو Pick یا ڈراپ کرنے اور کبھی Parents Teachers Conference میں انکی کارکردگی کا جائزہ لینے۔ زندگی کتنی تیزی سے بدل رہی ہے اور چند سال بعد یہ دنیا کتنی مختلف ہوجائے گی اسکا اندازہ ان مباحث سے ہوتا ہے جو آجکل امریکہ کے تعلیمی اداروں اور میڈیا پر ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو بھی جلد یا بدیر ایک نئی ڈیجیٹل دنیا کی پراسراریت سے نبرد آزما ہونا پڑیگا۔ نظر یہ آ رہا ہے کہ لوگوں کو ہر جگہ نت نئی Digital Devices کی یلغار کا سامنا ہے۔ مغربی ممالک نے سیل فون اور Artificial Intelligence کو ایک بڑے چیلنج کے طور پرتسلیم کر لیا ہے۔ اسکا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی امریکی ریاستوں نے کلاس روم میں سمارٹ فون کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ ان میں نیو یارک، ورجینیا اور کیلی فورنیا سر فہرست ہیں۔ اس پالیسی کے خلاف جب سخت رد عمل سامنے آیا تو بعض ریاستوں نے اساتذہ کو یہ تلقین کرنے پر اکتفا کیا کہ وہ بچوں کو کلاس روم میں الیکٹرانک ڈیوائسز استعمال کر نے کی کھلی چھٹی نہ دیں۔ میڈیا پر ڈیجیٹل کلچر کے بارے میں ہونیوالے مباحث کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہواکہ سیل فون تعلیمی عمل میں خلل اندازی کا باعث بنتا ہے یا اسکے فوائد کی وجہ سے اسکے مضر اثرات کو قبول کر لینا بہتر ہے۔
ہر ملک کا کلچر اتنا منفرد ہوتا ہے کہ کسی ایک کے تجربات کا اطلاق دوسرے پرنہیں ہو سکتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر ریاست بلکہ ہر شہر کا ایک جدا کلچرہوتا ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں سر عام اسلحہ رکھنا حتیٰ کہ اسکی نمائش کرنے پر بھی پابندی نہیں ہے۔ ان ریاستوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سکول میں بچوں کے پاس سیل فون کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ کسی حملے کی صورت میں بچے فو راًوالدین کو اطلاع کر سکتے ہیں۔ اس طرز فکر سے اختلاف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کسی ایمرجنسی میں اگر والدین ایک بڑی تعداد میں سکول پہنچ جاتے ہیں تو انتظامیہ اور پولیس ایک گمبھیر صورتحال پر کیسے قابو پائے گی۔ اس نوعیت کے مباحث آجکل اس لیے اخبارات اور ٹیلی ویژن میں نظر آ رہے ہیں کہ گرمیوں کی چٹھیوں کے بعد سرکاری افسران نے احکامات جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ کے سرجن جنرل نے پالیسی سازوں‘ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہوں اور والدین سے کہا ہے کہ وہ بچوں کو سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے احتیاطی تدا بیر اختیار کریں۔ یہ تدابیر کیا ہو سکتی ہیں اسکی چند مثالیں بھی سرجن جنرل نے پیش کی ہیں۔
اس موضوع میں میری دلچسپی میں اسوقت اضافہ ہوا جب میرا پوتا بڑے مزے سے سیل فون دیکھ رہا تھا اور اسکی ماں بار بار اسکی سکرین چیک کر رہی تھی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ سکول میں والدین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بچوں کو غیر معینہ مدت کے لیے سیل فون نہ دیکھنے دیں‘ انکے سکرین ٹائم کو محدود کریں اور چیک کریں کہ بچہ کونسا کارٹون یا ویڈیو دیکھ رہا ہے۔ میرے پوتوں کی عمر تین اور چار سال ہے مگر وہ سیل فون پر کارٹون اور دیگر پروگرام بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب‘ آجکل یہ کم و بیش ہر گھر کا کلچر ہے۔ اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر سکولوں میں سیل فون کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے اور والدین سے بھی گھروں میں بچوں کی نگرانی کا کہا جائے تو کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کی ذہنی نشو نما پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مڈل کلاس گھروں میں سیل فون کے علاوہ ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ بھی ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے سکولوں میں اگر سیل فون کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے تو ان پر زیادہ فرق نہیں پڑیگا مگر غریب گھروں کے بچے نہ صرف جدید معلومات حاصل نہ کر سکیںگے بلکہ وہ اپنے دولتمند ہم عمروںسے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے سی ای اوRichard Culatta نے ان پابندیوں کے بارے میں کہا ہے کہ سکولوں میں سیل فون کے استعمال پر اس قسم کی پابندی عائد کرنا جو Open AI’s Chat GPTیا مصنوعی ذہانت کے Tools پر لگائی گئی ہے نہایت فرسودہ اور نقصان دہ پالیسی ہے۔ رچرڈ کولیٹا نے سمارٹ فون کے استعمال پر سکولوں میں پابندی کو ایک از کار رفتہ سوچ قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ ہمیں نئی ٹیکنالوجی کو ایک جدید اور بہتر ڈیجیٹل کلچر کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
امریکہ کے سرجن جنرل Vivek Murthy کے ناقدین نے کہا ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ ہم سکولوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کے بجائے اس پر پابندی لگا کر اپنے بچوں کو اسکے فوائد سے محروم کر دیں۔ اس کے برعکس سرجن جنرل کی حمایت کرنیوالے مبصرین کا کہنا ہے کہ کلاس روم میں سمارٹ فون کے استعمال کی اجازت اساتذہ کے کام میں مداخلت اورطالبعلموں کے وقت کا زیاں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں