0

تلاطم خیز موجیں

سیلاب سے تووطن ِ عزیزکبھی اتنا متاثر نہیں ہواجتنا حالیہ حالات کے تحت عدالتی فیصلوں سے ہوا ۔اس مرتبہ بیرونی قوتوں نے ایسی تیز آندھی ہماری جانب چلائی کہ ہمارے آئین کے صفحات ہی بدل گئے آئین میں لکھے قانون کے الفاظ ہی اُلٹے ہو گئے اور حیران کُن فیصلوں نے قانوں کی دنیا میں رہنے والے اہل ِ دانش کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال کر متحیر کر دیاعقل اس بات کے جواب کی متلاشی ہے کہ کیسے بن مانگے کو قانون سے بالا ہو کر سب کچھ مل گیا قانون کے رکھوالوں سے ایسی سنگین نظر اندازی کی توقع نہیں کی جا سکتی میری طرح کی عوام ابھی اس گو مگو میں ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کون ہے یہ بجھارت مجھ جیسے طفل ِ مکتب سے تو نہیں سلجھ رہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ماہر ِ قانون آنے والے دنوں میں حکومت اور عدلیہ کے مابین اُٹھی ان تلاطم خیز موجوں کو بحر ِ سکون کردے گو کہ آئین کے ساتھ یہ ظلم و جبر پہلی دفعہ رونما نہیں ہوا جسٹس منیر سے شروع ہونے والا یہ جانبداریوں ،ناانصافیوں کایہ سفرجسٹس ثاقب نثارسے ہوتا ہوا جسٹس بندیال تک پہنچ چکا ہے جسے ناانصافیوں کے ُجھرمٹ میں چھپی جانبداریوں کو بڑے وثوق سے حق و سچ کے نقاب میں پیش کیا جاتا رہا ہے جیسے ضیاء آمریت میں مولوی مشتاق مرحوم کا فیصلہ جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے حوالے تھا جسے ابھی ابھی موجودہ چیف جسٹس فائز عیسی نے انصاف کے میزان میں تولا تو ذوالفقار علی بھٹو شہید معصوم قرار پائے ایسے کئی معصومین ہیں جو عدلیہ کی تلاطم خیز موجوں کی نذر ہوکر زندگی کی جوانی،بڑھاپے کا سکون،مسرت کے دن سبھی ہار چکے ہیں لیکن ایسے کئی سانحات کے باوجود بھی ہمارے شبھ چنتکوں نے ابھی تک وہ قانون متعارف ہی نہیں کرائے جن سے عام آدمی کو بھی وقت کے ضیاع کے بغیر فوری انصاف مہیا ہو سکے اور نہ ہی ایسا کوئی قانون بنا جو فیصلہ دینے والے منصف کو کٹہرے میں کھڑا کر سکے اُسے جانب دار ٹہرا سکے میرے خیال میں موجودہ حکومت کو نا انصافی و جانبداری کی روش کا قانونی تدارک کرنا چائیے سیاسی بحران کا پیدا ہونا ملک کے لئے سود مند اس لئے نہیں ہوتا کہ کسی بھی حکومت کو اپنے اہداف کی تکمیل کر کے ملک میں بہتری لانی ہوتی ہے توجہ بٹ جائے تو ادھورے منصوبے ملک و قوم کی الجھنوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں پہ پابندی کی روایات قابل ِ رشک نہیں رہیں ہیں ماضی میں لگیں ایسی پابندیاں کبھی سبق آموز یا درست فیصلے کے طور سامنے نہیں آئیں بس مخالفین کو مشکلات سے دوچار کرنے کا بہانہ تراش کر عدلیہ کے ذریعے لمبی لمبی تاریخیں لے کر حوصلے پست کرنے کی سازشوں سے سیاسی بحران پیدا ہوئے ریاست کو ان ہتھکنڈوں سے کبھی استحکام نہیں ملا ۔عدلیہ نے اگر مخصوص نشستوں کے حوالے سے ناممکن کو ممکن بنانے والا فیصلہ دیا ہے تو تلخیاں پیدا کرنے کی بجائے نظر ثانی کی اپیل معزز چیف جسٹس کو کی جا سکتی ہے توہین آمیز الفاظ کی تلاطم خیز موجوں کو عدلیہ کے احترام پر برسانا کسی صورت تہذیبی اقدام نہیں ہیں اجتناب برتنا اور ادب و احترام کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا ریاستی استحکام کو تقویت بخشے گا اور نو مئی والے واقعات جیسی حرکات سرزد بھی نہیں ہوں گی میں قانون کی نازکیوں سے قطعی نا آشنا ہوں مگر مخصوص نشستوں کے حوالے سے تحریک ِ انصاف کو مستفید کرنا میرے نزدیک درست فیصلہ نہیں ہے لیکن حکومت کی جانب سے دہمکی آمیز جوابی کاروائیاں اور عدلیہ کی تحقیر بھی قابل ِ ستائش ہر گز نہیں ہے عدالتوں میں اپنے حق کے لئے لڑا جاتا ہے عدالتوں سے نہیں لڑا جاتا ۔پارلیمنٹ کو چائیے کہ وہ ہر فیصلے کے حل کے لئے عدالت میں کھڑا ہونے کی بجائے ایوان میں ہی اپنے مسائل کا حل ڈھونڈے یہ مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ پہلی کمزوری ایوان کی نشستوں پر براجمان عوامی نمائندگان کی بھی ہے کہ جن کی نااہلی کی وجہ سے 9مئی کی سنگین وارداتوں کو ،ریاستی دہشت گردی کو سیاست کا رنگ دے کر طویل تر کر دیا ہے نہیں سمجھ آتی کہ وہ کونسی چھپی طاقت ہے جس کے خوف سے کسی بھی منصافانہ اقدام پر پہل کرنے سے ہم یا ہمارے آئینی ادارے کترا رہے ہیں اور اب یہ عالم ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کی تلاطم خیز موجیں ریاست میں اپنی مذموم کاروائیاںپے در پے وار کر رہی ہیں اس کا سدباب کرنا اور ملک کو سود سے پاک کرتے ہوئے معیشت کو تمام طبقات کے لئے سہل کرنا تمام آئینی اداروں کے لئے ناگزیر ہے ترجیہی بنیادوں پر دہشت گردی کا خاتمہ اور ریاستی استحکام کے لئے اداروں کا آئین کی وضع کردہ حدود میں ادب و احترام کے ساتھ رہنا ہماری کوششوں میں شامل ہو گا تو تب کہیں ہمیں دشمنوں کی ،غیروں کی تلاطم خیز موجوں سے دفاع نصیب ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں