0

پاکستان کی سیاسی جماعتیں

پہرے
بندش و قید ِمسلسل کی گرفتاری کی
اک جھلک اور دکھا دیجیے تو اچھا ہو گا
سوچنے والے بہرحال یہاں سوچیں گے
سوچ پہ پہرے بٹھا دیجیے تو اچھا ہو گا!

قیام پاکستان کے بعد ملک میں متعدد سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں اور شخصے بوجوہ قائم کرائی گئیں۔ اس وقت بہت بڑی اور معروف جماعتوں میں مسلم لیگ ن ،جماعت اسلامی، پاکستان پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام شامل ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخواہ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان وغیرہ میں دیگر جماعتیں کسی حد تک محدود اثر رکھتی ہیں۔ ہر چند پاکستان کے ہر صوبے، ہر علاقے، ہر شہر، ہر قریے اور ہر گائوں میں ان چھوٹی جماعتوں کے اراکین اوران کے منشور سے اتفاق کرنے والے موجود ہیں پھر بھی ایک طرح سے ان میں وہ آفاقیت نہیں ہے جو پاکستان کی بڑی جماعتوں کو حاصل ہے۔ ایک قابل غور اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تین بڑی جماعتیں عوام کی کم اور خاندانوں کی نمائندگی زیادہ کرتی ہیں۔ یہ راویت بھارت میں کانگریس سے شروع ہوئی تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو ان کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی اور ان کے بعد اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی نے تخت حکومت سنبھالا، یہ طلسم راجیو گاندھی کی وفات کے بعد ختم ہوا۔ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تینوں بڑی جماعتیں اب تک اقتدار اور حکومت کو خاندانی ملکیت سمجھتی ہیں اور اس ملکیت کو طول دینے میں ہر طرح کوشاں ہیں ہم تمام بڑی جماعتوں کے متعلق تفصیل انشاء اللہ انہیں سطور میں پیش کرتے رہیں گے۔ اس وقت ہم پاکستان کی ایک ایسی جماعت کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں جو خاندان کے طلسم سے آزاد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کے سربراہ مرحوم ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کو مزید منظم کیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ کلمہ حق کہنے کی بناء پر اور قادیانیت کے آگے سینہ سپر ہونے کی پاداش میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی جو عوام کے بے انتہا احتجاج کے بعد واپس لے لی گئی تھی ہم اس وقت اسی جماعت یعنی جماعت اسلامی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔جماعت کا مرکز اچھرہ لاہور ہے جہاں دین کی اشاعت اور ’’حفاظت‘‘ کے لئے جماعت اسلامی اپنی پوری صلاحتیں صرف کررہی ہے۔ مودودی صاحب کی وفات کے بعد چونکہ امرائے جماعت اسلامی اچھرہ ہی میں کارہائے خیرمیں مصروف ہوتے تھے اس لئے ہم ان سے ملاقات سے محروم رہے۔ البتہ مرحوم مولانا منور حسین ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں چار سال تک زیر تعلیم رہے تو ہمیں جماعت اسلامی کے منشور کو سمجھنے میں مدد ملی۔ ہمارے زمانہ ٔطالب علمی میں کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر خورشید احمد سے ملاقاتوں میں جماعت کے منشور کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی کی سوچ کی بنیاد ایک صالح معاشرہ اور دینی احکامات اور روایات کی حفاظت ہے۔ موجودہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے گزشتہ کئی سال کی کوششوں سے جماعت اسلامی کو صحیح معنوں میں ایک عوامی جماعت کا روپ دیا ہے۔ ان کا تعلق علی گڑھ کے معروف خاندان سے ہے۔ حِلم، بردباری، بات کا پاس، مروت، شفقت، وضع داری، حق گوئی اور معاملات کی سمجھ ان کا طرہ ٔامتیاز ہے۔ سندھ کے عوام کے لئے خصوصاً اور پاکستان کے عوام کے لئے عموماً ان کے دل میں درد ہے۔ وہ ایسے سیاستدان ہیں جو دن رات اپنے پاکستانی بھائیوں کے مسائل کے حل کے لئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں۔ ان پر ’’مہاجر‘‘ کا تمغہ (TAG)لگا دیا گیا ہے لیکن وہ سندھ میں بسنے والے ہر سندھی کے حقوق کے لئے ہمہ وقت نبرد آزما ہیں۔ سندھ کا دارالحکومت کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اب قتل و غارت، ڈاکہ زنی، موبائل، کاریں، موٹر سائیکلیں اور نقدی چھیننے کا مرکز بن گیا ہے۔ کراچی پاکستان صغیر MINI PAKISTANجہاں نہ صرف سندھ بلکہ ملک کے ہر علاقے کے لوگ آ کر بس گئے ہیں۔ اب یہ شہر مسائل اور ’’مصائب‘‘ کی زد میں ہے ہم نے اس کرب کو اس طرح بیان کیا تھا؎
اب خون آلود تھے بام و در
سکون امن باردگر کھا گئی
یہ سایہ ہے اس پر کسی آسیب کا
کراچی کو کس کی نظر کھا گئی
حافظ نعیم الرحمن خود عوام سے ہیں ان کا خاندان پورا پاکستان ہے، وہ ایسے سیاستدان ہیں جو دوسرے سیاسی راہبروں سے ہمہ وقت بات کرنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں اور اپنی بات کہنے کے لئے نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، نہ موسم نہ مقام وہ ہر شہری اور ہر پاکستانی کے لئے امن و آشتی حفاظت اور مساوی مواقع کا خواب دیکھنے والوں میں سے ہیں ہم امیر جماعت اسلامی بننے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور معبود حقیقی سے دعا گو ہیں کہ وہ اس طرح عوام کی خدمت کرتے رہیں اور ’’کلمۂ حق‘‘ کہتے رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں