0

غزہ پر انکشافات اور کچھ پیش گوئیاں !

صاحبو، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے بالآخر قراداد پاس کر دی کہ سرائیل غزہ پر فوراً جنگ بندی کرے۔ یہ غالباً تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ نے اس قراداد کو ویٹو نہیں کیا۔ جس سے اسرائیل کے وزیر اعظم کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اپنا امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا۔ اب دیکھیں کہ یہودی لابی صدر بائیڈن کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ زائینسٹ میڈیا نے بائیڈن کا باجہ بجانا شروع کر دیا ہے۔ادھر نیتن یاہوہو نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ہمیشہ کی طرح جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔کوئی جنگ بندی نہیں ہو گی؟ لیکن گھبرانا نہیں۔بائیڈن نے نہ ان کی امداد روکی ہے اور نہ ہی ان کی حفاظت کرنے والا بحری بیڑہ ہٹایا ہے۔
الجزیرہ پر برطانوی پارلمیٹیرین جارج گیلاگھر کا بیان سنئیے: کہا کہ’’ خارجہ امور میں روز کوئی نئی اور رومانوی بات ہوتی ہے۔ مثلاً آج اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا کہ کہ غزا میں جو عمارتیں بمباری سے گرائیں گئیں ان کے ملبہ سے جس میں فلسطینیوں کی ہڈیاں موجود ہیں، ایک سڑک سمندر کے کنارے بنائی جائے گی جس سے ان لاکھوں فلسطینیوں کو جو اس وقت جمع ہیں ان کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اگر یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے۔‘‘
سوشل میڈیا پرایک وڈیوغزہ کی دکھائی گئی ہے جس میں فلسطینوں پر وحشیانہ ظلم ہو رہا ہے۔ ان کو قتل کیا جارہا ہے اور ان کی لاشیںگھسیٹی جارہی ہیں۔ ترجمہ میں لکھا ہے: اسرئیلیوں نے جب کہ فلسطینی جبلیہ گرلز سکول کے سامنے افطاری کر رہے تھے ، ان معصوموں کو وحشیانہ طریقے سے نشانہ بنایا۔اب یہ نسل کش وحشی دہشت گرد اسرائیلی حکام اس وڈیو کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک وڈیو جو غالباً ہٹا لی گئی ہے ، اس میں ایک یہودی ربائی نے کہا کہ نیتین یاہو نے حماس کو جان بوجھ کرپالا پوسا، اس کو 1.4بلین ڈالر کی امداد دی۔تا کہ وہ پھلیں پھولیں۔ اور پھر ان کی زندگی اتنی تنگ کر دی کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرسکیں۔ حملہ کروانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس کے جواب میں اسرائیل ان کا قلع قمع کر دے، اور غزا کو فلسطینیوں سے پاک کروا لے۔ اور اب یہی ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ہولناک کھیل میں امریکہ، برطانیہ، اور دوسری سپر پاورز سب شریک ہیں۔ کیونکہ سب دم سادھے بیٹھے ہیں جب کے کھلے عام فلسطینیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
امریکہ کی خارجہ حکمت عملی ایک عرصہ دراز سے اسرائیلی خواہشات پر بنائی جاتی ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ مدتوں سے دنیا کے یہودیوں کی انتھک کاوشوں اورمنصوبہ بندی کا ثمر ہے۔امریکہ میں اس کی کہانی ایران کے شہنشاہ کی زبانی سنیئے۔ آج سے تقریباًً ۴۶ سال پہلے ، سوشل میڈیا پر شائع ایک وڈیو میں شاہ ایران، رضا شاہ پہلوی کا امریکن صحافی نے 1976 میںانٹر ویو کیا ۔ وہ اگرتب سچ تھا تو وہ آج کے حالات کی غمازی بھی کرتا نظر آتا ہے۔ملاحظہ ہو: شاہ ایران نے کہا کہ ’’ وہ اسرائیل کی ریاست کی سلامتی اور بقا چاہتے ہیں۔لیکن اسرئیلیوں کو فلسطینیوں کو وہ علاقے واپس کر دینے چاہیئں جو انہوں نے ۱۹۶۷ کی جنگ میںلیے تھے۔ان کو یقین ہے کہ واشنگٹن میں موجود یہودی لابی جو کہتی ہے امریکن صدر اس پرفوری عمل کرتے ہیں۔یہودی لابی بہت با اثر ہے، کبھی زیادہ کبھی کم۔ اور کئی دفعہ وہ اسرائیل کا بھلا کرنے کے بجائے نقصان بھی کردیتے ہیں۔وہ بہت سے لوگوں کو زبردستی استعمال کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کہتے ہیں کہ امریکہ میں یہودیوں کا بہت اثر و نفوذ ہے ، وہ کیسے؟ شاہ نے کہا کہ یہودی لابی بہت طاقتور ہے اورصدر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شاہ نے بتایا اس لیے کہ ان کے پاس بہت سے وسائل جنہیں وہ کنٹرول کرتے ہیں۔مثلاً یہودی امریکہ کے اخبارات، میڈیا اور مالی اداروں جیسے بینک کی اہم نشستوں پر قابض ہیں۔ میڈیا میں سب نہیں لیکن ان میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں جو امریکی حکام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔لیکن ان کے خیال میں یہ صورت حال یہودیوں کے حق میں نہیں ہے‘‘۔اس انٹرویو میں صحافی نے شاہ سے بہت سخت سوال پوچھے اور شاہ نے بھی نپے تلے انداز میںان سوالوں کا جواب دیا۔ان سب جوابوں کا منتہی نظر یہی تھا، جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس کی تائید شکاگو یونیورسٹی کے دو امریکی پروفیسروں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کی ہے اور ابھی کچھ روز پہلے صدر جو بائیڈن نے بھی کی ، جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکی کانگریس مین کیوں نہیں اسرائیل کی مذمت کرتے کہ وہ غزا میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں تو بائیڈن نے کہا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تودوبارہ منتخب ہو کر اپنی نشست پر آ نہیں سکیں گے۔
ایک عرصہ پہلے،امریکہ میں اسرائیلی حکمت عملی، جذبات، اور خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نہایت معتبر، بااثر اور سیاسی سوجھ بوجھ والے یہودیوں پر مشتمل ایک گروہ بنایا گیا تھا جسے امریکن اسرئیلی پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کہا جاتا ہے۔ یہ کمیٹی اپنے احکامات کو منانے کے لیے امریکی حکومت کے پورے ڈھانچے میں،ہر محکمہ میں بیٹھے یہودی افسروں اور مشیروں کے ذریعے امریکن حکمت عملی اور منصوبوں پر نظر رکھتی ہے اور ان میں اسرائیلی ہدایات کے مطابق رد و بدل کرواتی رہتی ہے۔ زیادہ اہم،ان کے کارندے صدارتی دفاتر سے لیکر ہر وفاقی اور سٹیٹ کے اہم دفاتر کی اہم نشستوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ کانگریس اور سینیٹ میں منتخب ہو کر آنے والے یہودی ارکان وہاں اپنا اثر ونفوذ قائم کرتے ہیں اور جو بھی حکمت عملی بنتی ہے اس میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔اس کی ایک مثال وہ تمام جنگیں ہیں جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے کیں، جیسے لیبیا، عراق، اور افغانستان وغیرہ میں، وہ شامل ہیں۔ان سب ممالک کے صدور کسی نہ کسی طور اسرائیل کو نا پسند تھے۔پاکستان نے چونکہ ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں، وہ اسرائیل کو سخت نا پسند ہے۔اسرائیل کو ہمیشہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ پاکستان یہ ہتھیار کسی دہشت گرد گروہ کو نہ دے دے۔ اور یہ بھی کہ مسلمان ممالک میں اتحاد پیدا نہ ہو۔ کیونکہ اس صورت میں کبھی بھی سارا عالم اسلام اسرائیل پر بذریعہ طاقت حملہ کر سکتا ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکیں گے۔جب پاکستان میں عمران خان نے حکومت سنبھالی اور دنیا میں مسلمانوں کے لیے پیش رفت کی تو یہ خطرہ بڑھ گیا کہ اس میں عالم اسلام کو متحد کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس لیے اس کو اگر صفحہ ہستی سے نہ مٹایا تو کم از کم اس قابل نہ چھوڑا جائے کہ وہ پھر سے عالم اسلام کی قیا دت کرنے کے قابل ہو ۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس پر اسرائیل سختی سے کار بند ہے۔
دوسری طرف اسرائیل ایک عرصۂ دراز سے مسلمانوں کے مذہبی مرکز سعودی عرب پر اپنا اثر و نفوذ بڑھانے میں مصروف رہا ہے۔ یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ایک مغربی دانشور کا بیان سوشل میڈیا پر دیکھا گیا جس میں اس نے بتایاکہ کس طرح سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلیمان نے اسرائیل کی طرف نہایت محتاط لیکن دلیرانہ قدم بڑھائے۔ اس نے کہا کہ یہ ایم بی ایس کا خاموش اثر ہے کہ مسلمان ریاستیں غزا کے معاملے میںچپ سادھے کھڑی ہیں۔یہ کہاں تک درست ہے، اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں غزہ میں فلسطینیوں کو بمباری سے، انہیں بھوک اور پیاس سے شہید کرنے پر آوازتک نہیں اٹھانے دی جا رہی۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں جو فوج کو اجازت دی گئی ، بلکہ ہدایت دی گئی کہ کچھ بھی ہو، خان کو حکومت میں نہیں آنے دیا جائے، اور اس کی جماعت کو تتر بتر کیا جائے ،یہ سب اسی حکمت اعلی کے زیر اثر ہے۔اگر راقم کا تجزیہ صحیح ہے، تو اگر کچھ لوگ امریکی کانگریس میں ہونے والی حالیہ کاروائی سے کچھ امیدیں لگا بیٹھے ہیں تو ان کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ایک خبر پاکستان سے بھی۔ شیر افضل مروت کا ندیم ملک کے ساتھ وڈیو انٹرویو قابل غورہے۔ جن کو کچھ لوگ کہتے تھے کہ فوج کا گھس بیٹھیا ہے، اس نے ۹ مئی کے واقعات کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ایک وڈیو میں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے ، انہوں نے کہا ،’’ ۹ مئی ایک پی ڈی ایم کا کرا دھرا ڈھکوسلا ہے۔۹ مئی کے نام پر پر جو کہتے ہیں شہدا کے مجسمے گرائے گئے تھے، ایک مثال دکھادیں۔ جو مردان میں ایک مجسمہ لگا ہوا ہے وہ شیر خان کا تھا ہی نہیں۔اس سٹرک پر سینکڑوں کیمرے لگے ہوئے ہیں۔اور سارے آرمی کے کیمرے ہیں۔کور کمانڈر ہائوس پر بھی تا حد نگاہ کیمرے ہی کیمرے ہیں۔کور کمانڈر کا گھر ،کیمرے ہی کیمرے لگے ہیں، کنکریٹ کا بنا ہوا، کس چیز سے جلا دیا؟ کیمیکل کہاں سے آیا؟ ایک وقت آئے گا جب پتہ چلے گا ، ۹ مئی کا آرکیٹیکٹ کون ہے اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے؟ہمارے سو ورکرز کو گولیاں لگیں، ۲۵ شہید ہوئے اور ہمارے چار بندے اپا ہج ہو گئے۔کیا ایک فوجی زخمی ہوا ؟، ایک سپاہی کو گولی لگی ؟ ۹ مئی ، ۹ مئی کی رٹ لگائی ہوئی ہے ، ۹ مئی تو تحریک انصاف کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے ایک ڈھکوسلہ چھیڑا گیا تھا۔‘‘
راقم کی نظر میں، جو دو سال سے پاکستان میں ہو رہا ہے اور چار پانچ ماہ سے غزہ میں ہو رہا ہے، ان کے تانے بانے بالآخر وہیں جا کر ملتے ہیں۔ پاکستان میں بات فی الحال سیاسی بحران تک محدود ہے، یہاں پاکستان کی اپنی پیاری فوج ہی پولیس کے ساتھ ملکر وہ کام کر رہی ہے جو اسرائیلی غزہ میں کر رہے ہیں۔ ظلم اور تشدد۔ پاکستانی عوام مہنگائی کے ہاتھوں خود کشیاں کر رہے ہیں، اپنی اولادوں کو بیچ رہے ہیں۔ جس ملک میں عام حالات میں بچے غذائیت کی محرومی سے پستہ قد ہو رہے ہیں، کیاوہاں غذائیت کی کمی پوری آبادی پر اثر انداز نہیں ہو گی؟پاکستان کے دشمنوں کو معلوم ہے کہ خان اس ملک کی قسمت بدل سکتا ہے اور ساتھ میں عالم اسلام کی بھی، تو یہ ان کو منظور نہیں۔اس لیے پاکستان پر فوج حاکم ہو یا کالے چور، یعنی پی ڈی ایم والے، یا دونوں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
اور غزہ میں معاملہ نسل کشی تک جا پہنچا ہے۔ لاکھوں فلسطینی بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کی بمباری اور زمینی حملوں میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ کو فلسطینیوں سے پاک دیکھنا چاہتا ہے جسے وہ آخری فتح کا نام دیتا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ یہودی جو ہٹلر کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہوئے، وہ تو جبر و تشدد کی قیمت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ وہ کیسے وہی جبر و تشدد فلسطینیوں پر کر رہے ہیں؟ کیا ان کو نہیں معلوم کہ اس حرکت کا خمیازہ ہٹلر کو کیسے بھگتنا پڑا؟ کیا وہ مکافات عمل سے بچے رہیں گے؟ وہ تو فطرت کے تقاضے ہوتے ہیں، انسان کا عمل دخل کم ہی ہوتا ہے۔
اگر تو مندرجہ بالا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے یا اس کے قریب بھی ہے تو اس سے کچھ نتائج تو اخذ کیے جا سکتے ہیں خواہ کتنے ہی نا پسندیدہ ہوں۔ میرے منہ میں خاک۔ پاکستان میں عدالتیں تحریک انصاف کو انصاف سے محروم رکھیں گی۔ فروری کے انتخابات کے جھوٹے نتائج کو بدلا نہیں جائے گا۔ خان صاحب کو زچ کر کے ان سے سمجھوتا کیا جائے گا جس سے وہ سیاست سے توبہ کریں گے اور تمام قیدیوں کو رہائی مل جائے گی۔تحریک انصاف تتر بتر ہو جائے گی۔ادھر فلسطینی غزہ سے نکل جائیں گے۔جو بھوک اور پیاس سے سے بچ گئے انہیں یا سمندر میں غرق کر دیا جائے گا، یا مصر میں دھکیل دیا جائے گا۔ (ممکن ہے امریکہ مصریوں کو کچھ بلین ڈالر کا لالچ دیکر مہاجرین کو لینے پر راضی کر لے)۔ کسی بھی صورت غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروا لیا جائے گا۔دنیا نے ایسے مظالم ہوتے دیکھے ہیں اور اف تک نہیں کی۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔ لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ظالموں کو اسی دنیا میں حساب دینا پڑتا ہے جب ان سے بھی زیادہ ظالم اور طاقتور ان پر غالب آ جاتے ہیں۔ خیر دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں