ہفتہ وار کالمز

انا للہ وانا الیہ راجعون

پیارے پاکستانیو۔ ہمیں بہت افسوس کے ساتھ اعلان کرنا پڑرہا ہے کہ گذشتہ روز، اس ترازو والی انصاف کی دیوی، جس کی آنکھوں پر پٹی پڑی ہوتی ہے، اس کی پٹی کھل گئی اور انصاف کا ترازو کا پلڑا جھک گیا۔ اور اس طرح ،پاکستان کا اکلوتا انصاف کا ادارہ، جسے انصاف کی آخری امید گاہ بھی کہہ سکتے ہیں، جو ابھی تک ہماری امیدوں کا مرکز تھا، قضائے الہٰی سے انتقال کر گیا۔ اللہ تعالیٰ 25کروڑ پسماندگان کو صبر دے۔ کہتے ہیں کہ مرحوم کو آئینی ترمیم 26کا عارضہ لاحق تھا۔ اس کو بڑی دعائوں کے ساتھ بچانے کی کوششیں کی گئیں مگر اللہ کی مرضی کے سامنے کس کی چلی ہے۔مرحوم نے اپنی وفات سے پہلے جو فیصلہ کیا وہ خود کُشی کے مترادف تھا۔ ہماری مراد وہ فیصلہ جس میں فوجی عدالتوں کو سویلین پر مقدمات سننے اور فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا فیصلہ ہے جسے سپریم کورٹ پہلے رد کر چکی تھی، لیکن عدالت عالیہ کے آئینی بینچ نے اکثریت کا ووٹ لے کر اس کو بدل دیا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ جو بات وزنی معلوم ہوتی ہے وہ ایک فوجی کرنل صاحب کی کاوش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ان کرنل صاحب نے ان جج حضرات کو باور کروا دیا تھا کہ اگر وہ یہ فیصلہ کریں گے تو انکی نہ صرف نوکریاں برقرار رہیں گی بلکہ ان کو وقت آنے پر تین تین سال کی توسیع بھی دی جائے گی۔ دوسری طرف اگر انہوں نے اس فیصلہ کے خلاف ووٹ ڈالا تو ان کے اور انکے بال بچوں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔لیکن یہ سب جھوٹ ہے ۔ افواہ ہے۔ ہم اس کو نہیں مانتے۔ ہماری فوج آج کل سرحدوں پر پاکستان کا دفاع کرنے میں مصروف ہے۔ اسے ایسے کام کرنے کا وقت کہاں۔قصہ مختصر، انصاف کی اب کوئی امید نہیں رہ گئی۔ اب وہی ہو گا جو بڑا صاحب کہے گا۔
26 ویں ترمیم تو ایڈز سے بھی زیادہ خطرناک بیماری نکلی۔ اچھے بھلے رستے بستے ادارے کو نگل لیا۔ اللہ اس کو غارت کرے۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ جس ملک کے انصاف کے ادارے ویسے ہی ٹکا ٹوکری بک رہے ہیں، ایک آخری امید سپریم کورٹ سے رہ گئی تھی اب وہ بھی گئی۔اللہ بس باقی ہوس۔یہ غالباً چرچل نے عالمی جنگ دوم سے پہلے سوال کیا تھا کہ کیا ہمارے ملک کی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں؟ اگر ہاں تو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اب پاکستان کو ہر طرف سے نقصان پہنچنے کی توقع کر لینی چاہیئے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان پر بالآخر بھارت نے حملہ کر ہی دیا۔ بڑے دنوں سے پاکستانی میڈیا، حکومتی کارندے وارننگ دے رہے تھے کہ بھارت نے حملہ کیا ہی کیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان بھارت کو للکار رہا ہے کہ حملہ کرو۔ بھارت بھی کب تک اس دعوت کو ٹھکراتا۔ اس نے رات کے پچھلے پہر، حسب عادت، ہوائی جہاز سے میزائیل کچھ شہری آبادی پر اور آزاد کشمیر میں پھینکے اور کچھ مرید کے اور دوسرے علاقوںمیں اور پاکستان کے بین الاقوامی سرحد کے اندر آ کر۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے اڈوں پر حملے کر رہے تھے۔بڑی عجیب بات ہے کہ ان کو ان اڈوں کا پتہ تھا اور پاکستانیوں کو نہیں۔عین ممکن ہے کہ ہمارے ہی کچھ بھائیوں نے اندر کے بھید بتائے ہوں کچھ انعام کی خاطر؟ یہ تو ہوتا ہی ہے۔پاکستان میں تین قسم کے لوگ بستے ہیں۔ ایک جو روپے یا ڈالر کے لیے ہر چیز بیچنے کو تیار رہتے ہیں۔دوسرے جو طاقت اور رتبہ کے لیے ایمان اور ضمیر سب کا سودا کر لیتے ہیں۔اور تیسرے وہ جو باقی سب ہیں، ان کو نہ تعلیم ہے، نہ شعور ہے اور نہ ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔ وہ تو صبح شام کی چکی پیس رہے ہوتے ہیں۔ ان کی بلا سے کون حکومت کر رہا ہے اور کون نہیں۔
بھارت غالباً پاکستان سے جنگ چاہتا نہیں تھا، لیکن اس کو شہہ دینے والے بڑے بڑے طاقتور ممالک تھے۔ امریکہ نے تو کھلم کھلا بھارت کو اشارہ دے دیا تھا کہ قدم بڑھائو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ انگلینڈ تو امریکہ کے ہر فیصلے میں پالتو کتے کی طرح، دم ہلاتا، ساتھ ہوتا ہے۔البتہ جو ملک بھارت سے بھی زیادہ مشتاق تھا وہ ہے اسرئیل۔ سنا ہے کہ سوشل میڈیا کے مطابق،اسرائیل جلد ہی غزہ کے فلسطینیوں کو مار مار کر در بدر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ایک لاکھ فوجی غزہ میں گھسنے والے ہیں۔لیکن اس کو اگر کسی ملک کا ڈر ہے تو وہ ہے پاکستان۔کیونکہ پاکستان کے پاس ایٹم بم بھی ہے اور اس کو دور مار کرنے والے راکٹ بھی۔ اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ جب اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کا صفایا کرے تو پاکستان پر کہیں سے سے ایسا دبائو پڑے کہ وہ اسرائیل پر حملے کا سوچ بھی نہ سکے۔ایسادبائو مودی مہاراج کے علاوہ کو ن دے سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ امریکہ بہادر کے اشارے پر یہ سارا پہلگام کا ڈرامہ رچایا گیا ہو کہ بھارت کو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا بہانہ مل جائے۔ وہی ہوا ۔ جنگ شروع بھی ہوئی اور چار روزہ جنگ ہو ئی اور پھر ختم بھی ہو گئی۔ لیکن پیشتر اس کے اسرائیل غزہ میں اپنی کاروائی شروع کر سکتا۔اب کیا ہو گا؟
اس تصویر میں، حقیقت ہو یا نہیں، اسرائیل کی یہ ازلی خواہش ہے کہ پاکستان کا وجود ختم ہو جائے۔وہ چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں میں ایٹمی ہتھیاروں سے جنگ ہو اور پاکستان بس ایک محتاجوں کا کھنڈربن جائے اور اس کے ایٹمی ہتھیار تباہ و برباد ہو جائیں۔ اس کام میں وہ بھارت کو ہر قسم کی مدد ے گا جیسے کہ انٹیلی جنس، خوفناک بم، اور ٹھکانوں کے پتے۔بھارت کو اور کیا چاہیئے۔ صرف ایک قباحت ہے کہ اگر پاکستان نے کسی خفیہ ٹھکانے سے دو تین ایٹم بم دہلی، بمبئی اور کلکتہ پر مار دیئے تو وہ ایسا نقصان ہے جو بھارت نہیں چاہتا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ا سرائیل کی بڑی پرانی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ حال سے بھی بد تر ہو جائے۔ اسے ہر وقت روٹی کے لالے پڑے رہیں۔ اس کا پانی بند ہو جائے، اور 25کروڑ پانی کی تلاش میں بلکتے پھریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی اہل اقتدار اپنی پوری سی کوشش کر رہے ہیں کہ اسرئیلیوں کی ہر خواہش پوری ہو جائے، اب دیکھیں کہ اللہ کیا کرتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بڑوں کو پانی کی فکر ہے لیکن وہ مجبور ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی واٹر ڈیم بنانے کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ کیونکہ جو منافع تیل سے چلنے والے کارخانوں سے بجلی بنانے میں ملتا ہے وہ آبی بند بنانے میں کہاں؟
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ حکومتی کارندے اور وزراء ایٹم بم کا ذکر ایسے کر رہے ہیں کہ جیسے آتش بازی کے انار چلیں گے۔ یہ اتنی خطرناک بات ہے کہ ان نادانوں کو ایٹمی جنگ کے مضمرات کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ غالباً حکام نے کبھی انکی اس معاملے میں تربیت ہی نہیں کی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ان عقل کے اندھوں کو کچھ سمجھایا جائے کہ نیو کلیر بم صرف ڈرانے کے لیے ہوتے ہیں، استعمال کے لیے نہیں، اسی لیے انہیں کہتے ہیں : Mutually assured Destruction (MAD) یعنی دونوں فریقوں کی مکمل تباہی۔ اس لیے اب جو ایٹمی طاقتیں ہیں وہ اپنے بم استعمال کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔ بھارتی اس معاملے میں ہم سے زیادہ عقلمند ہیں، اور وہ ایٹمی جنگ کی بات نہیں کرتے۔وہ بھی بس چھوٹی موٹی جھڑپ پر جنگ بندی قبول کر لیں گے۔اگر ان کے ذہن میں ایسی جنگ کا تصور بھی ہوا تو سب سے پہلے ملک سے فرار ہو جائیں گے۔یہی اس بات کی نشانی ہو گی کہ ایٹمی جنگ کا اندیشہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھارت کو کیوں یہ خیال آتا ہے کہ پہلگام میں پاکستانی دہشت گردوں نے ان کے ٹورسٹ کو ہلاک کیا۔؟ کیا اس لیے کہ خواجہ آصف نے کہہ دیا کہ ہم امریکہ کے کہنے پر تیس سال سے ان دہشت گردوں کو پال رہے تھے؟ یا اس لیے کہ بمبئی میں تاج ہوٹل پر جو دہشت گردی کاحملہ ہو ا تھا ، اس میں پاکستانی ملوث تھے؟یا یہ کہ بد اچھا بد نام بُرا؟ اگر تو کوئی ادارہ یا جنونی پاکستان سے ثابت ہوا کہ اس نے کروایا تو ایسے بندے کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ وطن سے غدا ری ہے۔خواہ اس میں پاکستان کا فائدہ ہوا یہ نقصان۔اپنے اتنے بڑے ہمسائے سے پنگا لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ یہاں پر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ بھارت کے ساتھ صلح کیوں نہیں ہوسکتی ۔ یہ ایساہی سوال ہے کہ امریکہ اور ر وس کیوں نہیں تعلقات ٹھیک کر لیتے اور ایک دوسرے کی دشمنی چھوڑ دیتے؟ ایک خیال ہے کہ امریکہ کی فوجی قیادت چاہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی دشمن سامنے رہے جس کا خوف دلا کر کانگریس سے ہر سال بجٹ بڑھوایا جا سکے۔ اگر روس سے دوستی ہو گئی تو کانگریس بجائے بجٹ بڑھانے کہ الٹا بجٹ کم بھی کر سکتی ہے۔ اب یہ اربوں ڈالر کا معاملہ ہے۔ اب اگر روس سے خطرہ نہیں تو یو کرائن کا نیا محاذ کھل گیا ہے۔امریکہ کہیں نہ کہیں ایک دو محاذ کھولے رکھے گا۔ کوئی مذاق نہیں ہے۔پاکستان کابھی غالباً کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب بھی کبھی پاکستان اور بھارت امن کی بات کرتے ہیں کوئی نہ کوی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جس سے معاملات بہتر ہونے کے بجائے اور بگڑ جاتے ہیں۔کوئی بڑی طاقت امن نہیں چاہتی۔
سچ تو یہ ہے کہ جنگ اتنی بری چیز بھی نہیں۔جب جنگ ہوتی ہے تو فوجی سامان بنانے والوں کی موج ہو جاتی ہے۔اسلحہ ہو یا جہاز، گولہ بارود ہو یا بندوقیں، یا وردی اور جوتے بنانے والے ہوں یا ٹینک اور گاڑیاں، سب ہی کو فائدہ ہوتا ہے۔فوجیوں کو خاص بھتہ ملتا ہے۔ نقصان تو ان کا ہوتا ہے جو اس جنگ کا نشانہ بنتے ہیں یا جن کے گھر بار گولہ باری کی زد میں آ جاتے ہیں۔ یا پھر عوام الناس کا جن کو مزید ٹیکس دینے پڑتے ہیں۔ آخر فوج کا نظام عوام کے ٹیکسوں سے ہی تو چلتا ہے۔اس لیے عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیئے کہ وہ جنگ کا فیصلہ وہ کریں، نہ کہ فوجی قیادت۔
اب ہند و پاکستان کی جنگ کو ہی دیکھ لیں۔ اگر تو پاکستان کی طرف سے پہل ہوئی تو اس میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیاسی قیادت کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ ہم نے سنا ہے کہ پہلگام پر حملہ سے پہلے نواز شریف کی صاحبزادی راولپنڈی سپہ سالار کے دفتر اپنی ذاتی گاڑی میں ملنے گئی تھیں۔ ان کو وہاں، ہمارا قیاس ہے، کہ پہلگام پر حملہ کا بتا دیا گیا ہو گا۔ انہوں نے واپس آ کر چچا جان اور ابا جان کو مطلع کر دیا ہو گا۔یہ سب قیاس کی باتیں ہیں۔ البتہ جب ہم نے پہلگام پر سیاحوں پر حملہ کا سن کر بیٹی کو، بڑے بھائی جان اور چھوٹے بھا ئی جان کو چپ سادھے دیکھا تو ہمارا قیاس یقین میں بدل گیا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شریفوں کا یہ کنبہ یہ سب کچھ کرتا آیا ہے۔ اور اگر انہوں نے سپہ سالار کو اس حرکت سے باز رہنے کا نہیں کہا تو ان کاقصور ہے۔
بلا وجہ بھارت سے جنگ چھیڑنا ، وہ بھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے ،ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ خواہ کسی نے بھی کیاہو۔ اب اس کا خمیازہ سارا ملک بھگتے گا۔ سپہ سالار کا ایک مفروضہ یہ تھا کہ جنگ ہو گی تو فوج کی ڈوبتی ہوئی ساکھ سنبھل جائے گی اور قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح اس کے پیچھے کھڑی ہو جائے گی۔ عوام پھر فوج پر جان چھڑکنے لگیں گے۔ مگر کیا ایسا ہوا؟ ایسا نہیں ہوا۔ کسی ایک شاعر نے ملی نغمہ نہیںلکھا اور نہ کسی نے گایا۔ ایک دو جو ٹی وی پر دکھائے گئے وہ فوج نے خود بنوائے۔ پاکستانی عوام جب بھارتی ڈرون کے حملے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ان کا کیا قصور تھاکہ ان کو یہ سزا مل رہی ہے؟
اب ایک بہت ضروری بات۔بھارت نے سارے پاکستان میں بہت سارے ڈرون بھیجے ہیں۔یہ ڈرون اسرائیل نے ان کو مہیا کیے ہیں۔ اس کا ایک ہی مطلب ہو گا کہ اسرائیل پاکستان کے وہ نقشے اور زیر زمین وسائل کی تصاویر لے رہا ہے جو اس کو سیٹلائٹ سے نہیں ملتے۔ جب تک پاکستانی اس کو گرا دیں وہ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسرائیل کے ڈرون در اصل پاکستان کے ایٹمی اثاثے تلاش کر رہے ہوں۔یہ بالکل یونانی دیو مالائی کہانیوں کے ٹروجن ہارس ہیں، جو بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ۔پاکستان کو ان سے بچنا ہی چاہیئے۔ اسرائیل نے بھارت کو ڈرون پاکستان کو ڈرانے کے لیے نہیں دیئے ہیں ان میں ضرور ٹیکنکل آلات ہیں جو پاکستان کی سر زمین کے نقشے بھارت اور اسرائیل دونوں کو سرحد کے اندر جاتے ہی پہنچانا شروع کر دیتے ہوں گے۔اس لیے پاکستان کو قابوآنے والے ڈرونز کا بغور مطالعہ کرنا چاہیئے۔اب جب کہ جنگ بندی ہو چکی ہے، بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button