ہفتہ وار کالمز

عام آدمی کی ابتری

حکومت کا بڑے وثوق سے یہ اعلان کہ ملک میں مہنگائی 60سال کی کم ترین سطح 0.28فیصد پر آچکی ہے اس کے ساتھ اشیائے برآمدات میں اضافہ بھی ممکن ہوا ہے اور افراط ِ زر کی شرح گزشتہ نو ماہ سے یک ہندسے کے دائروں میں گھوم رہی ہے اللہ کرے کہ یہ خبر بھی صحیح ہو کہ ہمارے معاشی ماہرین بتاتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی وجہ سے آئندہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح منفی میں بھی جا سکتی ہے ادارہ شماریات نے تو اپنے تئیں مہنگائی کے خاتمے کی خبر دے دی مگر اس کے عملی اثرات سے عوام ابھی تک محروم ہے جیسے پٹرول کی قیمتیں غیر ملکی سطح پر جس شرح سے کم ہوتیں ہیں اُس رفتار سےکبھی بھی ہمارے ملک میں تیل کی قیمتو ںکوکم نہیں کیا گیا کئی سال تو عوام بجلی کی بھاری قیمتیں اور اُن میں لگے بیجا ٹیکسز ادا کرتی آئی ہے اور یہ تسلسل ابھی جاری ہے جو کسی عاقل بالغ کی نظر میں رہزنی یا بھتہ خوری سے کم نہیںتھیں مگر حکمرانوں نے اربوں روپے ماہانہ کی بنیاد پر ہر شریف شہری سے وصول کئے حکومتوں کی ان مذموعا نہ حرکات کا نعم البدل بجلی کی قیمت فی یونٹ 7.41روپے کم کر نے سے نہیں ہوتا یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ رکھنے والی بات ہے اور مہنگائی کی کمی کی نوید میری نظر میں اسی اونٹ کو جانگیہ پہنانے والی بات لگتی ہے مجھے معاشی ماہرین کی اہلیت پہ ہمیشہ سے شک رہا ہے کہ ہماری ارض ، پاک کو سودی قرضوں کی لین دین کر کے احکام ِالہی کی نافرمانی ہی نہیں اللہ تبارک و تعالی سے جنگ کرنے سے بھی یہ نہیں ڈرتے ان معاشی ماہرین کو ملک میں موجود دستیاب وسائل کیوں نہیں نظر آتے ؟یہ طبقہ کس اشرافیہ کی ایماء پر اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے معاشی نظام کو غیر ملکی سودی قرضوں کے جال میں جکڑ دیتا ہے جسے عوام اپنے محدود وسائل سے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتی ہے تاکہ قرضوں کی قسطیں بمعہ سود ادا ہوں ٹیکسوں کی یہ جبری وصولی تو حکومت کر لیتی ہے مگر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ،خطِ غربت سے لٹکے اُس عام آدمی کی ابتری کو بہتری میں ڈھالنے کی سعی نہیں کرتی جو حکومتی احکامات کی چار و ناچار تعمیل کرنے میں دیر نہیں کرتا اس کے برعکس جو مل مالکان امپورٹرز ایکسپورٹرز ٹیکس چرانے یا ادا نہ کرنے کی نیت لئے کئی دہائیوں سے یہ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں انھیں حکومتیں بارہا رعایتیں دیتی رہتی ہے مگر پھر بھی یہ ٹیکسوں میں ہیرا پھیری کرنا والا مافیاجانے کیسے ارباب ِ اختیار کو اپنی مٹھی میں لے کر قومی خزانے کی رقوم میں کمی کر دیتا ہے اور اُنھیں کسی سزا کی بجائے رعایتیں مل جاتی ہیں جن اربوں روپوں کی چوری مذکورہ وارداتوں کے ذریعے عمل پذیر ہوتی ہے اس کمی کا بوجھ عام آدمی پر اضافی ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا ہے عام آدمی کی ابتری کو بہتری میں بدلنے کی ہر سیاسی جماعت کا پہلا ہدف ہوتا ہے جسے کبھی بھی پایہ تکمیل تک لیجانے کی کاوشیں نہیں کیں گئیں منصب مل جائے تو ذاتی مفادات آڑے آنے لگتے ہیں قائدین ہماریء کبھی اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی طاقت یا بصارت ہی نہیں رکھتے اس معاشرے کا فرد ہونے کے باوجود وہ عملی طور پر ایک عام آدمی مزدور ،محنت کش کے لئے کوئی ایسا جامع معاشی پروگرام لے کر کیوں نہیں آتے جو اُن کی آمدن و اخراجات میں توازن قائم رکھتے ہوئے انھیں بھی سکون کی نیند دے سکے میں جب گیارہ بارہ سال کے بچوں کو چائے کی ٹرے اٹھائے ، کسی درزی کی دکان پر یا کسی مستری خانے میں اُنھیں اپنے استاد سے گالیاں سنتے ہوئے دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ یہ نئی نسل جن سے بچپن کے لاڈوپیار کا سایہ بے رحم معاشی نظام نے چھین لیا ہو اور وہ اس دھتکارے ہوئے ماحول میں جواں ہو کر ملک کی کیا خدمت کر سکیں گے کیا وہ اپنی محرومیوں کا انتقام نہیں لیں گے ؟بھوک سے بلکتے بچے اور جائز ضروریات کی خواہشات سے عاری کئی طبقات وطن ِ عزیز کی زمین پر پڑے آسمان کو تکتے رہتے ہیں کیا کریں ڈکیتی کریں رہزنی کریں جیبیں کاٹیں !!!ان وارداتوں میں شامل جو لوگ ہیں اُن کاتعلق اک عام پسے ہوئے طبقے سے ہے جو ابتری کی انتہا پر پہنچنے سے پہلے اپنی زندگی کو بدلنے میں،ضروریات ِ زندگی کو بہتر کرنے کی خواہشات لئے منفی سرگرمیوں کا آلۂ کار بنتا ہے اور انسانی زندگی کو اپنے مفاد کے سامنے ہیچ سمجھتے ہوئے کئی گھرانے اُجاڑ دیتا ہے کاش کسی حکومت نے اس دہشت پھیلانے والی غریبی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی ہوتی تو وطن کی گلیاں و کوچے بیگناہ شہریوں کے خون سے نہ رنگے ہوتے معاشی حالات کی سنگینی سے عام آدمی کی ابتری بگڑنے لگے تو پھر ملک میں قانون و عدل کا راج نہیں رہتا اُن کا مذاق بن جاتا ہے جو ریاست کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے بہتر ہو گا کہ معاشی حالات کو مزید کشیدہ کرنے سے پہلے ہی حکومت اک عام آدمی کی ابتری پر توجہ دے دے تو ملک میں اجتماعی غربت میں کمی کی امید پیدا ہو سکتی ہے جس سے منفی سرگرمیوں کا حصہ بننے والی نوجوان نسل کو بچایا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ نفرتوں کے پھیلائو سے ریاست مستحکم نہیں کمزور ہوتی ہے بلوچستان کے حالات ان ہی نفرتوں و نظراندازی کے سبب ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button