0

عام انتخابات کی سائنس اور ٹیکنالوجی!

1926 ء میں علامہ محمد اقبال دوست احباب کے پیہم اصرار پر لاہور کی نششت سے پنجاب کونسل کے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ ہوئے۔تب اُس حلقے میں کل ووٹروں کی تعداد تقریباً بارہ ہزار کے قریب تھی۔ ان الیکشنز میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار رہی ۔ اقبال کو اس الیکشن میں پانچ ہزار چھ سو پچھتر ووٹ حاصل ہوئے تھے ،جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار ملک محمد دین کو دو ہزار چھ سو اٹھانوے ووٹ ملے ، یعنی اقبال تقریباً تین ہزار ووٹوں کی برتری سے یہ الیکشن جیت گئے تھے۔ علامہ اقبال نے نہ چاہتے ہوئے بھی الیکشن مہم میں بھی حصہ لیا ۔اسی الیکشن مہم کا ایک مزاحیہ واقعہ حفیظ جالندھری( جو اس وقت تقریباً پچیس سال کے نوجوان تھے) نے روایت کر رکھا ہے ۔جس کے مطابق ” ۔۔۔ ایک روز کسی جلسے کو خطاب کرنے کے بعد اقبال ان کے ساتھ اندرون شہر کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے پیدل واپس آ رہے تھے۔ چونکہ امیدوار تھے، اس لیے رستے میں جو کوئی بھی ملتا اسے سلام کرتے ۔ ایک شخص کو سلام کیا لیکن وہ شاید ملک محمد دین کا حمایتی تھا ، اس نے جواب میں اپنی دھوتی اٹھا دی اور ننگا ہو گیا ۔ اقبال جب موٹر کار میں بیٹھے تھکے ہارے گھر جا رہے تھے تو نہایت بجھے ہوئے لہجے میں حفیظ جالندھری سے کہنے لگے : اس قوم کے مصائب کے سبب میری راتوں کی نیند اچاٹ ہے، لیکن اس کے افراد اخلاق اور مروت کی دولت سے کیوں محروم ہیں؟ حفیظ جالندھری نے اپنے مخصوص انداز میں اقبال کو تسلی دیتے ہوئے جواب دیا : ڈاکٹر صاحب ! قوم کے پاس جو کچھ ہے ، وہ اس نے آپ کو دکھلا دیا۔ اس میں مغموم ہونے کی کیا بات ہے ۔ اس پر اقبال کھلکھلا کر ہنس دیے اور ساری کدورت دور ہو گئی” 1926ء میں پنجاب کونسل کے انتخابات میں اقبال کی شرکت اور جیت کا واقعہ موجودہ الیکشنز کے دوران بار بار ذہن میں تازہ ہو رہا تھا ۔یہ واقعہ تو شہر لاہور کا ہے ، لیکن اکیسویں صدی میں پورے پاکستان کی طرح لاہور کے عام ووٹرز کی طرف سے سرعام اپنی دھوتی اٹھا کر سب کچھ دکھا دینا ، گویا ہمارے خطے کی انتخابی سیاست اور روایت کا حصہ خیال کیا جا سکتا ہے۔ آج پاکستان کے انتخابی عمل کے حال اور مآل کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹیز کی نیت ، کارکردگی اور طریقۂ واردات کی تفصیلات جیسی بھی رہی ہوں ،مملکت کے لوگوں کے پاس جو کچھ بھی تھا ،انہوں نے انتخابی نتائج کی صورت میں سب کو اچھی طرح سے دکھا دیا ہے ۔اگرچہ اقبال کا یہ سوال اپنی جگہ آج بھی موجود ہے کہ اس قوم کے لوگ اخلاق اور مروت کی دولت سے کیوں محروم ہیں۔لیکن اخلاق و کردار اور مروت کی دولت سے محرومی کوئی ایسا معاملہ نہیں ، جس پر تشویش کا اظہار کیا جائے۔شاید عصر حاضر کی انتخابی سیاست کے رنگ و آہنگ کا یہ ایک لازمی نتیجہ ہو؟ کیا پتہ؟ میں ایسے نادان لوگوں کو محب وطن خیال نہیں کرتا، جو یہ وہم پالتے اور بوقت ضرورت پھیلاتے رہتے ہیں کہ پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔اور بطور ایک ملک اب اس کا کردار محض ایک صارف ملک کا رہ گیا ہے۔ ایسی باتیں کرنے والے بنیادی طور پر کم تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے پرانے وقتوں کے بی اے اور ایم اے یا ایم ایس سی کر کے ، اسی برتے پر خود کو پڑھا لکھا مشہور کر رکھا ہوتا ہے ۔یہ نادان جدید پاکستان کی پرائیویٹ سیکٹر کی ڈسکو دیوانی یونیورسٹیوں کے بی ایس پروگراموں کی افادیت اور ثمرات سے بالکل ناواقف بلکہ نابلد لوگ ہیں ۔حالیہ انتخابات کے پس منظر ، منظر اور پیش منظر ہی کو دیکھ لیں ۔اس طرح کے لوگ الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر ، اس پر چھائے آسیب کے سائے پر ، سیاسی جماعتوں کو مضحکہ خیز اور بعض صورتوں میں فحش انتخابی نشانات تفویض کرنے پر، ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں سے لے کر امیدواروں تک کو یکساں طاقت سے “کٹ” لگانے پر، الیکشن کمیشن کی طرف سے بھاری اخراجات کے عوض ووٹروں کی سہولت اور رہنمائی کے لیے تیار کرائی گئی موبائل فون ایپلیکیشن کی دستیابی اور عین انتخابی عمل کے دوران انٹرنیٹ سروسز بند کر کے اسے غیر موثر یا ساقط کر دینے پر اور الیکشنز کے دن سے اگلے روز تک پورے ملک میں ٹیلی فون سروسز مکمل طور پر بند رکھنے پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ حالانکہ مجاز حکام نے انٹرنیٹ سروسز اور ٹیلی فون سروسز کی بندش کی اصل وجہ بیان کردی ہے اور بتایا کہ اندرون ملک انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے یہ سروسز بند کی گئی تھیں۔ستم ظریف بات سمجھنے کی بجائے الٹا سوال پوچھ رہا ہے کہ ؛آخر پاکستان ہی کو کیوں ہمہ وقت اندرون ملک سیکیورٹی کے شدید خطرات لاحق رہتے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ کیا اس ہمہ وقت کے خطرے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کے اندر ایسے مسلح جتھے اور گروہ موجود ہیں ،جو اپنے اسلحے کی دھونس سے اس ملک کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔اور جن کے وجود سے ریاست کو اندر سے خطرات لاحق رہتے ہیں ؟ وہ حیرت سے ایک اور سوال کرتا ہے کہ یہ کون اور کہاں کے افلاطون ہیں جو ہر گندہ کام فون اور انٹرنیٹ سروسز بند کر کے کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں؟ دہشت گرد فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے تو رابطوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ان کے پاس تحفتاً دیئے گئے سٹیلائیٹ فون ہوتے ہیں ۔اب وقت آ گیا کہ نئی پارلیمنٹ ایک قانون پاس کرے کہ ملک میں فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل یا بند کرنا قومی جرم شمار ہو گا ۔اور جو بہادر ان ہتھیاروں کے بغیر ملک کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں ،وہ ریٹائرمنٹ لے کر باقی عمر آرام اور عبادت میں گزار دے ۔ایسی باتیں کوئی محب وطن اور بیک وقت باشعور انسان نہیں سوچ سکتا۔ پاکستان نے دیگر کسی میدان میں ترقی کی ہو یا نہ کی ہو ،لیکن الیکشن مینیجمینٹ کے میدان میں ہمارے سائنسدانوں کی ایجادات نے پوری دنیا کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔سب سے پہلی ایجاد یک جہتی اور یک جائی ہے۔ایک زیادہ سیانے ادارے نے عدلیہ اور انتظامیہ کو نہایت مہارت اور ذہانت سے اپنے زیر تصرف کر رکھا ہوتا ہے۔اس طرح کرنے سے ہمارے سائنسدانوں کو صرف “ہو جا” کی آواز لگانی پڑتی ہے اور وہ سب کچھ اسی طرح سے ہو جاتا ہے۔ہمارے سائنسدانوں نے پولنگ سے لے کر پولنگ اسٹیشن کے حتمی نتائج تک کی شفافیت کو نہیں چھیڑا، مگر پھر یہ سارے نتائج ریٹرننگ افسران کے حضور پہنچتے ہیں ۔یہ ریٹرننگ افسران مختلف انتظامی ، عدالتی اور پرچہ نویس محکموں کے اعلی عہدے داروں پر مشتمل ایک اشارہ ابرو سمجھنے والا گروہ سمجھنا چاہیئے۔حالیہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران کے دفاتر انتخابی نتائج میں فساد کاشت کرنے کے قلعے ثابت ہو رہے تھے۔ان کی بے مثال کارکردگی اور اشارہ فہمی نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی انتخابات میں ووٹ محض خام مال کی طرح سے ہوتے ہیں، کاریگر لوگ بعد میں ان سے وہ نتائج مرتب کرتے ہیں ، جن کا الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔ ان تمام ایجادات و فتوحات کے باوجود ہمارے سائنسدان اجتماعی شعور اور عوامی فراست کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کر سکے۔شعور اور فراست درست معلومات کی دستیابی اور باہم روابط سے مشروط رہتے ہیں۔بس اسی چیز کو قابو کرنے کے لیے ملک میں انٹرنیٹ سروسز اور ٹیلی فون سروسز کو معطل یا منقطع کر دیا جاتا ہے۔یہ گویا آنکھوں پر پٹی باندھنے اور کانوں میں روئی ٹھونسنے جیسی حرکت ہے ،جو ہماری ریاست کے سائنسدان ہمیشہ سے کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ عوام کو اس تعطل سے کتنی کوفت ہوتی ہے ،اسے چھوڑیئے ، لیکن اس حوالے سے سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہمارے سائنسدانوں نے اپنا یہ نظریہ دہشت گردوں کے علم میں لانے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ ؛انٹرنیٹ سروسز بند کرنے سے دہشت گردی ممکن نہیں رہتی.لہٰذا ہمارے ملک میں خدمات سر انجام دینے والے کم تعلیم یافتہ دہشتگرد انٹرنیٹ اور فون سروسز کے بند ہونے کے باوجود جہاں چاہتے ہیں ، کارروائی کر گزرتے ہیں۔ہمارے “الیکشن چوس” سائنسدانوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیئے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں