0

پاکستان اور فلسطین، تباہی کے دہانے پر!

معزز قارئین، آج کسی بھی موضوع پر لکھنے کا حوصلہ نہیں پا رہا ہوں۔ ہر طرف جدھر دیکھتا ہوں، میرے مسلمان بھائیوں پر مصیبتیں ہی مصیبتیں نظر آ رہی یں۔ اپنے وطن عزیز سے شروع کریں تو لامتناہی داستانیں ہیں جن کا تانا ٹوٹتا نظر نہیں آ تا۔ تقریباً ہر روز ایک ایسی وڈیو دیکھنے کو ملتی ہے کہ دل ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ ملک جو اسلام کے نام پر ملا اس میں اسلام صرف ناموں میں دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے ادارے جن سے بھلائی کی کوئی توقع کی جا سکتی تھی وہ شیطانوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ شیطان بھی ایسے ویسے نہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پسے جارہے ہیں، حکومت جودھوکے بازی سے انتخابات میں دھاندلی کر کے بنوائی گئی ہے اسے صرف لوٹ مار سے غرض ہے۔ نہ مہنگائی کم کرنے سے اور نہ عوام کی مشکلات کم کرنے سے۔کڑوڑوں نوجوان بے ہنر ہیں اور بے روزگار ہیں۔ اگر ان کو ملازمت ملتی بھی ہے تو نا کافی آمدن والی۔ کروڑوں بچے جنہیں سکول میں ہونا چاہیے وہ سکول کے بجائے سستی مزدوری میں لگائے گئے ہیں۔شیر خوار اور ننھے بچے نا کافی خوراک کی وجہ سے پوری نشو ونما نہیں پا سکتے اور کئی پستہ قدی کا شکار ہیں۔مائیں بھوکی رہ کر محنت مزدوری بھی نہیں کر سکتیں۔نہ باپوں کو مناسب روزگار مل رہا ہے۔
پاکستان کو بالآخر ایک ایماندار اور مخلص رہبر ملا تھا جو نہ صرف پاکستان کی ترقی کا خواہاں تھا ، وہ تو دنیا کے مسلمانوں کی بہتری بھی چاہتا تھا۔ وہ کسی ملک کی دشمنی نہیں چاہتا تھا، نہ بھارت کی اور نہ امریکہ اور اسرائیل کی۔ لیکن ان ملکوں کو پاکستانیوں کی بھلائی منظور نہیں تھی۔وہ یہی چاہتے تھے کہ پاکستانی ہمیشہ تعلیم سے محروم رہیں۔ اگر انہیں تعلیم برائے نام بھی ملے تو کسی کام کی نہ ہو۔ وہ غریب رہیں اور بد عنوانیت کے شکنجے میں جکڑے رہیں۔ان میں نہ شعور پیدا ہو اور نہ ہی وطن کی محبت۔ نہ ظلم و جبر سے لڑنے کا خیال اور نہ ہی اپنی بہتری کا۔ اور اگر کبھی ایسا جذبہ بن بھی جائے تو اسے تھپکیاں دے کر سلا دیا جائے۔ایسے بے خبر، ان پڑھ اور مصیبتوں میں گھرے ہوئے عوام سے توقع کرنا کہ وہ انقلاب لے آئیں گے، ایک سہانا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔ اور ہمارے محافظ کیا اور دشمن کیا، وہ سب اچھی طرح سے جانتے ہیںکہ پاکستانی پرانے چینیوں سے زیادہ خواب غفلت میں ہیں۔ ان کو جھنجوڑنابھی مشکل اور انقلاب پر آمادہ کرنا بھی مشکل۔پاکستانی میڈیا جن اشرافیہ کے قبضہ میں ہے، وہ اس خواب غفلت کو برقرار کھنے میں ممد و معاون ہیں۔
تھوڑے سے پاکستانی جو دیار غیر میں بستے ہیں وہ سوائے کُڑھنے کے اور زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔محافظ بھی یہ جانتے ہیں اور اشرافیہ بھی اور پاکستان کے دشمن بھی۔
پاکستان جو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی مطلب پرست اور خون چوسنے والے با اثر افراد کی بھینٹ چڑھ گیا تھا، کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ لوگوں نے سمجھا کہ فوجی جرنیل ایوب خان ہمارا محسن ہے اور اس کے دور میں ترقی کی رفتار بڑھ گئی تھی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ تھاکہ اس کے ساتھ ساتھ فوجی افسروں کے اثاثے بھی تیزی سے بڑھ رہے تھے۔یہ سلسلہ یکے بعد دیگرے مختلف جرنیل چلاتے رہے اور فوجی بڑے امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔ عوام غربت کی چکی میں پستے رہے۔دنیا کا دستور ہی یہ ہے۔ آپ کس کو مورد الزام ٹہرائیں گے؟ پاکستان بہت ترقی کر سکتا تھا اگر اس کو مناسب قیادت ملتی۔ لیکن بد قسمتی سے قائدین کرپشن کے سامنے بے بس تھے۔ شاید اس لیے کہ انہیں خود بھی اس کا فائدہ تھا؟ جو اچھے لوگ پاکستانیوں کے لیے بھلائی کے کام کرنا چاہتے تھے، ان کو کہا جاتا تھا کہ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ آپ کیا کریں گے صرف اتنا بتا دیں کہ ہمیں اس میں سے کیا ملے گا؟ یہ سن کر خودار اور بے غرض لوگ چپکے سے راہ فرار اختیار کر لیتے تھے۔
75سالوں میں پاکستان ترقی کی شاہراہ پر چڑھنے میں نا کام رہا۔ نہ تعلیم میں کوئی ترقی کی، نہ صحت میں اور نہ حقوق نسواں کے شعبہ میں۔ یہی وہ معیار تھے جن کو پرکھ کر اقوام متحدہ کا ادارہ ملکوں کی فہرست بناتا تھا۔اور اس کو اپنی سالانہ انسانی حقوق کی ترقی کی رپورٹ میں ایک انڈکس سے ترتیب دیتا تھا۔ 2023-24 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نمبر 164تھا جب کہ کل ملک 194 تھے۔ اس فہرست کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ چوتھا حصہ میں وہ ممالک تھے جنہیں کم ترقی یافتہ گنا گیا تھا، اس حصہ میں ۳۳ ممالک تھے جن میں پاکستان کا نمبر افریقہ کے ممالک نائیجریا،رواندا، ٹوگو، اور ماری طانیہ کے بعد تھا۔ یعنی یہ افریقی ملک بھی پاکستان سے بہتر سمجھے گئے تھے۔اس سے اوپر کا درجہ درمیانہ ترقی والے ملکوں کا تھا جس میں نیپال، بھارت اور بنگلہ دیش شامل تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کیسے تیزی سے پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا چلا گیا۔انڈکس میں کم پوزیشن کی وجوہات میں شامل تھیں: کتنے سال تعلیم حاصل کی؟ پاکستان میں لڑکیوں نے اوسطاً 3.9اور 4.8سال لڑکوں نے حاصل کی۔ ۲۵ سال اور اس سے زیادہ کی عمر کے26.9 فیصد مردوں نے اور 22 فیصد عورتوں نے ثانوی تعلیم کے مدرسوں میں کچھ دیر تعلیم حاصل کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی تین چوتھا ئی آبادی سے زیادہ ثانوی تعلیم بھی نہیں حاصل کر سکی۔جہاں تک افرادی قوت میں شمولیت کا تعلق ہے ، اسی فیصد مرد اور صرف ایک چوتھائی عورتیں افرادی قوت میں شامل تھیں۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی آمدنی ایک چوتھائی تھی۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں عورتوں کی اقتصادی معاملات میں شرکت کی نا ہمواریوں کا نقشہ دکھاتے ہیں۔ اس کی وجوہات سماجی ہیں یا معاشرتی ، ایک ہی بات ہے۔ اس میں جب تک ہمارے مذہبی رہنمائوں کے اعتقادات میں تبدیلی نہیں آئے گی، کوئی اہم تبدیلی نہیں ہو گی۔
پاکستان دنیا کی ، آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑی مملکت ہے۔ اور مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سےدوسرے نمبر پر۔ اور ایک اسلامی ریاست کے لحاظ سے جو ایٹمی طاقت بھی ہے، پہلے نمبر پر۔ اور اقتصادی طاقت کے لحاظ سے تحت السرامیں ہے۔ اس کو اس حال پر کس نے پہنچایا؟ ظاہر ہے پاکستانیوں نے، اگرچہ الزام ہم دوسروں کو دیتے ہیں، جیسے امریکہ، بھارت، اسرائیل، وغیرہ۔ لیکن اگر اپنا سکہ ہی کھوٹا ہو تو دوسروں کا کیا قصور۔ پاکستان کو پہلے دن سے حاکم امریکہ نے تجویز کیے اور ہم نے انہیں کرسی پر بٹھایا۔ سوائے ساڑھے تین سال کے جن میں ان کی مرضی کا حکمران نہیں تھا، ہمیشہ ان کی مرضی اور منشاء سے پاکستان کوحکمران ملے۔اور امریکہ ایسے حکمرانوں سے خوش تھا جو ملک کے بجائے اپنی ذاتی خوشحالی میں دلچسپی لیتے تھے۔اس لیے کہ وہ آسانی سے خریدے اور بیچے جا سکتے تھے۔راقم کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے ملک کی حالت زار پر سسکیاں لیکر روئے یا دھاڑیں مار کر۔
دنیا میں مسلمانوں کی حالت تو کوئی خاص قابل ذکر نہیں، لیکن جو حال اب غزہ کے فلسطینیوں کا ہو رہا ہے وہ انتہائی توجہ کا حامل ہے۔جب سے غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی کو جو ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور صحرا میں ہے ، جس میں ۲۳ لاکھ کی آبادی تھی، وہ اسرائیلی وزیر اعظم کی آنکھوں کو بہت کھٹکتی ہے۔ اس نے کئی سال سے یہ ارادہ کر لیا ہوا ہے کہ وہ اس علاقہ کو فلسطینیوں سے خالی کروائے گا۔ چنانچہ چھ ماہ پہلے حماس کے حملے نے وہ موقع فراہم کر دیا جس کانیتن یاہو کو شدت سے انتظار تھا۔پہلے تو اس نے امریکہ سے لیے ہوئے بم مارمار کر غزہ کی عمارتیں زمین بوس کر دیں۔ تیس ہزار سے زیادہ بچے، عورتیں اور مرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔جن کی دوا داروبھی ممکن نہیں کیونکہ اسرائیل نے ہسپتال تک تباہ کر دیئے ہیں۔ ان کے پانی، ایندھن اورخوراک کی رسد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اگر ان کے بم نہ بھی ماریں تو فلسطینی بھوک اور پیاس سے اور بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ کسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ ادھر اسلامی دنیا سے سوائے چند آوازوں کے کوئی مدد دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایران جو ہر وقت اسرائیل کو سمند میں دھکیلنے کے دعوے کیا کرتا تھا ، ایک معمولی سا حملہ کر کے خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے۔مصر، اردن، لبنان جو اسرائیل کی سرحدوں کو چھوتے ہیں، وہ ایسے چپ سادھے ہیں کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ پاکستان جو اسلامی دنیا کی اکلوتی ایٹمی طاقت ہے اس کے منہ سے کوئی دھمکی تک اسرائیل کو نہیں دی گئی، جو اس کو تھوڑا سا ڈر پیدا کرتی۔ اگر کہیں احتجاج ہو رہا ہے تو اس کی اسرائیل کو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ امریکہ کے صدر کی روح اس کے قبضہ میں ہے۔ اسرائیل جی بھر کر نسل کشی کر رہا ہے اور دنیا کے ادارے خاموش تماشائی ہیں۔مسلمان صرف اللہ سے مدد مانگ کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔راقم سوچ رہا ہے کہ ایک کالم اوراس مسئلہ پر لکھے لیکن کیا فائدہ؟ سوائے افسوس اور بے چارگی کے احساس کے کچھ باقی نہیں بچا۔
ایک قابل غور مقام ہے کہ دنیا کی آبادی جو ۸ ارب سے کچھ زیادہ ہے اس میں مسلمان ایک ارب چھ سو ملین سے بھی زیادہ ہیں، لیکن ان میں نہ اتحاد ہے نہ ہی اتنی فوجی طاقت کہ وہ اسرائیل کے بارہ ملین یہودیوں کو ڈرا دھمکا بھی سکیں۔اگر صرف ایران، عراق، مصر اور اردن کی فوجیں اسرائیل کو چیلنج کر دیں، تو معاملہ رک سکتا ہے۔لیکن وہ نہیں کریں گے کیونکہ، ایران کے علاوہ، سب امریکہ کے قرضدار ہیں اور اس کی امداد پر حکومتیں چلا رہے ہیں۔ اور اسرائیل کو معلوم ہے۔ اور امریکہ کے سیاستدانوں کی ناکوں پر بندھی رسیاں اسرائیل کے ہاتھ میں ہیں۔لہذٰا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ امریکہ چاہے بھی تو کچھ نہیں کر سکتا۔
غزہ کے فلسطینیوں کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر لیں کہ اگر انہیں کہیں متبادل جگہ دے دی جائے تو وہ نقل مکانی کر جائیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایسی جگہ دے سکتے ہیں،خواہ وہ اردن میں ہو یا کینیڈا میں ، یا آسٹریلیا میں یا مصر میں۔ اس کے بعد ہی وہ امن کی زندگی کا سوچ سکتے ہیں۔لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ فلسطینی لڑ مریں گے لیکن اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے۔ اس امید پر کہ شاید دنیا کا ضمیر جاگ جائے؟فی الحال توایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جو بھی ہو، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی طاقت بنانے اور منوانے پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ ان کا موجودہ ادارہ او آئی سی اس کام کے لیے نہیں بنا ہے۔کسی اور کی رہبری کی ضرورت ہے۔ اب تو عمران خان بھی یہ کام نہیں کر سکے گا۔ کسی اور مرد مومن کو تلاش کریں۔جو تصادم کے بجائے افہام و تفہیم سے یہ مقاصد حاصل کر سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں