0

ایک جماعت تھی!

مابین شعبہ سنی
اصنام پرستوں نے اسلام کو للکارا
اب قوم کو جینے کی اک راہ دکھانی ہے
ہوں سینہ سپر مل کر اب وقت یہ کہتا ہے
مابین شیعہ سنی دیوار گرانی ہے

مسلم لیگ ن کی عظمیٰ بخاری جو اب خیر سے صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات بھی ہیں فرماتی ہیں کہ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت ’’تھی‘‘ جس کا اب وجود نہیں ہے اور اس کے سربراہ کا اب عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان مضحکہ خیز بھی ہے اور فکر انگیز بھی اور ن لیگ کی اس ذہنیت کا حامل بھی ہے کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اسے حکمرانی کا حق حاصل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن گزشتہ کئی سال سے مسلسل سکڑ رہی ہے اس کے ووٹ بنک میں مسلسل کمی آرہی ہے اور کسی بھی طرح سے اسے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس وقت تمام تجزیہ کاروں کا کہنا اور ماننا ہے کہ مسلم لیگ ن جو تخت حکومت پر براجمان ہے یہ سب ’’صاحبان حل و عقد‘‘ کا کرم ہے۔ بڑی خوبصورتی سے پیپلز پارٹی نے اقتدار میں شرکت بھی کر لی۔ صدارت بھی حاصل کر لی اور یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ ہم حکومت کے اعمال کے شریک نہیں ہیں اور خدانخواستہ عوام اگر حکومت سے بدظن ہو جائیں تو ہم دامن جھاڑ کر الگ ہو جائیں گے اور عوام کو یاد دلائیں گے کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم مشترکہ حکومت میں شامل نہیں ہیں۔ اب بات اس جماعت کی جس کے متعلق پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری فرماتی ہیں کہ وہ جماعت تھی۔ ہمارا کہنا ہے کہ وہ جماعت اب بھی پورے وقار اور طمطراق سے موجود ہے بلکہ اس کے سربراہ پر جس طرح مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور جس طرح عبوری حکومت اور الیکشن کمیشن نے اس کا انتخابی نشان چھینا اورعدالت عظمیٰ نے اس پر مہر لگائی یقینا اس جماعت کو ’’تھی‘‘ میں تبدیل ہو جانا چاہیے تھا لیکن صورت حال یہ ہے کہ جس جس طرح اس جماعت کو دیوار سے لگایا گیا اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا حالیہ انتخاب میں پہلے اس جماعت کی 92سیٹیں آئیں پھر کسی نہ کسی بہانے اس جماعت کو 3 سیٹوں سے محروم کر دیا گیا اس جماعت کا کہنا ہے کہ اس کے انتخاب میں حصہ لینے والوں کے پاس اس وقت بھی کم سے کم 45سیٹوں سے متعلق انتخابی فارم 45موجود ہے جس پر حلقے کے پرزائیڈنگ افسر کے دستخط موجود ہیں۔ یہ الیکشن اور ارباب حل و عقد کا کرم تھا کہ ان فارم 45 اور فارم 47 کو راتوں رات تبدیل کر کے اس جماعت کے 45 امیدواروں کو ’’ناکام‘‘ قرار دے دیا گیا۔ اصولاً پاکستان میں یہ سیاسی جماعت جسے ’’تھی‘‘ کا درجہ دے دیا گیا ہے پاکستان کی سب سے بڑی عوامی اور سیاسی جماعت ہے جسے عوام میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہے۔ اس پس منظر میں ہم عظمیٰ بخاری صاحبہ کے اس سب سے بڑی اور سب سے مقبول جماعت کو ’’تھی‘‘ کے درجے میں ڈالنا مضحکہ خیز نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔ ہمارے قارئین کو شاید علم نہ ہو یا انہوں نے غور نہ کیا ہو کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس کی کاوشوں سے پاکستان وجوود میں آیا آج بھی بھارت میں زندہ ہے اور بھارت کے ایک صوبے میں آج بھی عوام میں اتنی مقبول ہے کہ بھارت کے ہر انتخاب میں اس کا امیدوار یقینا منتخب ہوتا ہے۔ گویا کسی بھی سیاسی جماعت کا وجود اس کی مقبولیت پر قائم رہتا ہے۔ اب جو یہ مشترکہ حکومت پاکستان میں وجود میں آئی ہے اس کے سامنے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں اور قرائن کہتے ہیں کہ خدانخواستہ ان مسائل میں روز افزوں اضافہ ہو گا۔ اس حکومت( بلکہ حقیقت میں مسلم لیگ ن) کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ مہنگائی کی قیامت دنیا بھر میں آئی ہوئی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے دنیا (First World)میں عوام کی قوت خرید اس مہنگائی کو برداشت کرتی ہے جبکہ تیسری دنیا Third Worldمیں چونکہ عوام کی قوت خرید محدود ہے اس لئے لوگ یہاں نان شبینہ کو محتاج ہیں۔ اب ملک میں معاشرے میں صرف 2طبقے باقی ہیں غریب اور امیر متوسط طبقہ اس مہنگائی کے ہاتھوں تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے۔ سفید پوش تو کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے۔ ابھی ملک آئی ایم ایف کے دئے ہوئے پہلے جھٹکوں سے نجات نہیں پا سکا ہے۔ آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینے کے لئے اس کی تمام شرائط ماننی پڑیں گی آئی ایم ایف کی سربراہ نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ اس بار پاکستان کے لئے شرائط اور مشکل ہونگی۔ ہماری حکومت کے پاس ہر مالی مشکل سے باہر نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں۔ تیل، بجلی، گیس اور مہنگی کی جائے۔ عوام پہلے ہی مختلف ٹیکسز اور تیل، بجلی، گیس بلز ادا کرتے ہوئے ہلکان ہورہے ہیں ان پر کیا گزرے گی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے چند وزراء بار بار یہ اعلان کر چکے ہیں اور کررہے ہیں کہ حزب اختلاف کو ہمارے ساتھ بیٹھ کر عوام کو مشکلات سے نجات دلانے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا لیکن کوئی بھی حزب اختلاف کے ’مینڈیٹ چرانے‘‘ کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا اور ’’تھی‘‘ کہلانے والی جماعت کے ہزاروں بے گناہ لوگوں کی آزادی کے بارے میں بات نہیں کرتا تو یہ مسئلہ کس طرح حل ہو گا۔ بہت سے لوگ کہہ چکے ہیں اور موجودہ حکومت کو ہمارا بھی یہی مشورہ ہے کہ ’تھی‘‘ کا درجہ دئیے جانے والی جماعت کو ’’ہے‘‘ کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ مسلم لیگ ن کی ذمہ داری ہے جو عوام کے مفاد کے لئے اسے اٹھانی پڑے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں