0

شہباز شریف پر سعد رفیق کے بدترین لفظی وار، ن لیگ تین گروپس میں بٹ گئی!

خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف پر بدترین الفاظوں سے حملے کئے۔ ن لیگ اور شہباز شریف پر اس طرح کے الزام پہلی مرتبہ لگائے گئے ہیں۔ کسی بھی میڈیا کے افراد کو اس طرح کے الزامات کی خواجہ سعد رفیق سے امید نہیں تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سعد رفیق نہیں عمران خان بول رہے ہیں وہ اپنی کئی باتوں سے عمران خان کو بھی بچا گئے اور شہہباز شریف کی دھجیاں بکھیر دیں۔ سعد رفیق نے الزامات کی انتہا کر دی پوری پاکستانی قوم حیران رہ گئی۔ ایسا کیاہوا جو سعد رفیق اتنا ناراض کیوں ہیں۔ ن لیگ کی تاریخ میں پہلی بار کسی رہنما نے اس انداز میں وزیراعظم پر تنقید کی تھی ایسا کیوں ہوا اور ن لیگ میں کیا ہو رہا ہے یہ ملین ڈالر سوال ہے؟۔ ن لیگ کو توڑنے اور برباد کرنے میں تین آدمی اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں ہر آدمی اپنا اپنا گیم کھیل رہا ہے ان تین کرداروں نے نواز شریف کو کونے میں کھڑا کر دیا ہے۔ نواز شریف جس کے نام سے ن لیگ قائم ہے۔ ن لیگ کا مطلب ہے نواز شریف جب نواز لیگ بنی اور نواز شریف محمد خان جونیجو سے الگ ہوئے وہ شاندار دن تھا۔ جونیجو قومی اسمبلی میں خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے اور نواز شریف جھک جھک کر مبارکباد وصول کررہے تھے اس دن محمد خان جونیجو کی بے بسی اور مایوسی دیکھنے کے قابل تھی۔ ضیاء الحق کا تاریخی جملہ ’’محمد نواز شریف کا قلع بہت مضبوط ہے‘‘نے تباہی مچا دی تھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ احمق انسان کبھی ملک کا وزیراعظم بن جائے گا۔ جنرل جیلانی کا احسان پوری آل شریف کو ادا کرنا چاہے۔ اگر جنرل جیلانی اس قسم کا مشورہ ضیاء الحق کو نہ دیتے تو شاید نواز شریف اپنا لوہا ہی پگھلا کر بیچ رہے ہوتے۔
ن لیگ میں اس وقت کیا ہورہا ہے ن لیگ کی تباہی اور بربادی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر آپ حالات پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلے اس کا آغاز چودھری نثار سے شروع ہوا۔ چودھری نثار نے مریم نواز کی مخالفت میں ن لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی اور آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ صوبائی اسمبلی تو وہ جیت گئے لیکن قومی اسمبلی کی سیٹ وہ ہار گئے۔ کل عمران خان اور بشریٰ بی بی کی حمایت میںجس طرح چودھری نثار اور اس کی بیٹی بولی وہ الفاظ ن لیگ اور شہباز شریف کو کبھی ہضم نہیں ہونگے۔ اس ٹوٹ پھوٹ کا آغاز صحیح معنوں میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل سے شروع ہوا جو بعد میں نئی پارٹی بنانے پر ختم ہوا۔ فوجی قیادت نے بھی نیا کھیل کھیلا نواز شریف کو بڑی شان و شوکت سے بلوایا۔ سارے کیس ختم کروائے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آئندہ کے وزیراعظم نواز شریف ہی ہونگے پھر الیکشن کا دن آیا عملاً نواز شریف دونوں حلقوں سے ہار گئے لیکن یاسمین راشد کے مقابلے میں دھاندلی کر کے زبردستی جتوایا گیا لیکن اتنا پروپیگنڈا کیا گیا کہ عملاً نواز شریف ہار گئے ہیں نواز شریف کے جتنے ساتھی تھے وہ سب ہار گئے یا ہرا دئیے گئے۔ رانا ثناء اللہ، سعد رفیق جیسے نہ جانے کتنے لوگ جو نواز شریف سے تعلق رکھتے تھے یا ان کی سوچ کے حامل تھے بعض لوگوں کا جیتنا بھی قابل شرمندگی تھا جیسے خواجہ آصف جس کی جیت کسی کو بھی ہضم نہ ہو سکی۔ نواز شریف کے سامنے فوج نے ایک شرط رکھی تھی یا وہ خود ملک کے وزیراعظم بن جائیں یا مریم نواز کو پنجاب کو وزیراعلیٰ بننے دیں۔ نواز شریف نے اپنی عمر اور صحت کو دیکھتے ہوئے مریم نواز کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلے سے شہباز شریف کو گرین سگنل مل گیا۔ فوج بھی یہی چاہتی تھی۔
نواز شریف کے پچھلے کردار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا۔ اس طرح ن لیگ تین گروپوں میں بٹ چکی ہے ایک شہباز شریف کا گروپ جس میں حمزہ شہباز ابھی خاموش ہیں۔ اس کو مریم کا پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا پسند نہیں آیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کا حق ہے۔ فی الحال وہ بھی خاموش ہیں۔ دوسرا گروپ مریم نواز کا ہے وہ یہ یقین رکھتی ہے کہ نوز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے پوری پارٹی پر ان کا حق ہے شہباز شریف کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ وزارت عظمیٰ ان کا حق ہے شاہد خاقان عباسی پہلے ہی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کر چکے ہیں صرف منشور کاا علان باقی ہے اب خواجہ سعد رفیق نے شہباز شریف کے خلاف زبان کھول دی ہے۔ آہستہ آہستہ اب سب کی زبان کھل جائے گی۔ اسی کو کہتے ہیں ہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں