0

صلیبی جنگوں کی ذہنیت کا شکار پاکستان!

میں یہ سطور اس دن، یعنی 21 اپریل کو لکھ رہا ہوں جو حکیم الامت علامہ اقبال کی برسی کا دن ہے اور آج ہی ہماری دنیا کی سب سے بڑی فرعونی اور طاغوتی طاقت، امریکہ نے پاکستان کے میزائل نظام پر اس کے ساتھ تعاون کرنے والی چار غیر ملکی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرکے پاکستان کے دفاعی نظام پر ایک بڑا اور کاری وار کیا ہے!
پاکستان کے خلاف پابندیاں لگانے کی امریکی بیماری پرانی ہے کوئی آج کی نہیں، کوئی اس میں انوکھی بات نہیں۔ امریکہ اپنے محکوم اور کمزور ممالک پر اپنا من پسند ہتھیار، یعنی بیجا پابندیاں عائد کرنے کا مستتقل استعمال کرتا رہتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ جن کے خلاف یہ پابندیاں لگتی ہیں ان پر کیا بیتتی ہے۔ محلہ کا دادا، یعنی غنڈہ، اس چکر میں نہیں پڑتا کہ اس کی دادا گیری سے محلہ والے کتنے عاجز رہتے ہیں اسے صرف اور صرف یہ فکر رہتی ہے کہ اس کی دادا گیری قائم رہے اور اس کا خوف دلوں پر مسلط رہے!
امریکہ نے اپنے محکوم پاکستان کے خلاف یہ کارروائی اس بنیاد پہ کی ہے کہ پاکستان تین چینی اور ایک مشرقی یورپ کے ملک، بیلا روس، کی مدد اور تعاون سے ایسے میزائلوں کی ٹیکنالوجی حاصل کررہا ہے جو مہلک ہتھیاروں کے زمرے میں، اس کی دانست اور لغت میں، آتے ہیں۔ تو جیسے محلہ کا دادا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس گھر سے وہ کتنا بھتہ وصول کرے گا ایسے ہی امریکہ یا چچا سام یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس ملک کو بقول ان کے مہلک ہتھیار بنانے کی وہ اجازت دینگے اور کس کو نہیں۔
امریکہ کی یہ پابندیاں، پاکستان کے خلاف اس دن لگائی گئی ہیں جس روز چچا سام نے اپنے فرزند عزیز، اسرائیل کو مزید مہلک ہتھیار فراہم کرنے کیلئے 17 ارب ڈالر کی اضافی امداد منظور کی ہے اور کانگریس نے صدر کی تائید میں اس امداد کی فراہمی کیلئے خطیر رقم منٹوں میں عطا کردی۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ اسرائیل گذشتہ سات مہینے سے مقبوضہ فلسطین کی غزہ پٹی میں مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام کرتا آیا ہے۔ تاحال 34 ہزار سے زائد فلسطینی ، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، اسرائیلی بربریت کا شکار ہوچکے ہیں، لاکھوں زخمی ہیں، ہزاروں ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اسلئے کہ اسرائیل غزہ کو کھنڈر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ دنیا اسرائیلی بربریت کی مذمت کر رہی ہے لیکن اسرائیل چچا سام کی آنکھوں کا تارا ہے، ان کا پروردہ ہے لہٰذا اسے اذنِ عام ہے کہ، بقولِ غالب۔
تو مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
پاکستان تو ان ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے جن کے خلاف امریکی سامراج، امریکی طاغوت، بیجا پابندیاں کسی بھی بہانے سے لگاتا آیا ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ نے دسیوں اقسام کی پابندیاں برسوں تک پاکستان پر تھوپے رکھیں لیکن اس کے باوجود پاکستان نے اپنے محسن، مرحوم ڈاکٹر قدیر خان کی محنت اور لگن سے جب جوہری طاقت حاصل کر ہی لی تو اس کے بعد سے سامراج کا نعرہ یہ ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے کہیں دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ دنیا کے خود ساختہ چودھری کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خدشہ درست ثابت ہوجائے لیکن بھارت یا اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں سے طاغوتی چودہری کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔
پاکستان اپنی اس حالت کیلئے خود بھی ذمہ دار ہے کہ گذشتہ ستر برس سے، جب سے پاکستان کے اقتدار کے بھوکے جرنیلوں نے اس کے سیاسی اور ریاستی فیصلوں میں مداخلت شروع کی اور ان پالیسیوں پر اثر انداز ہونا توکجا بلکہ انہیں خود بنانا شروع کردیا، پاکستان کے فیصلے اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں ہوتے آئے ہیں اور عمران خان کی حکومت کو گرانے کی امریکہ کےاشتراک سے سازش کی کامیابی کے بعد سے تو پاکستان نے ، محاورے کے بقول، اپنے سارے ہی انڈے امریکہ کی ٹوکری میں رکھ دئیے ہیں!
پاکستان کے پہلے عسکری آمر، ایوب خان نے دنیا کو دکھانے، بلکہ پاکستانی عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے نعرہ تو یہ لگایا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کا رشتہ دوستوں کا ہے آقا اور غلام کا نہیں ( اور اپنی سوانح کا عنوان بھی ان حضرت نے اسی تعلق سے رکھا تھا ) لیکن وہ محض خود کو خوش کرنے اور پاکستانی عوام کو جھوٹی تسلی دینے والی بات تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے آج سے برسوں پہلے امریکی سامراج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے اور خطِ غلامی تحریر کردیا تھا۔
یہ سطور لکھتے ہوئے حکیم الامت یوں یاد اور آئے تھے کہ انہوں نے تو اس ملت کا خواب دیکھا تھا جس کی بنیاد خودی کی سرفرازی پر ہوگی، جس کے باشندے شاہین صفت ہونگے اور جو بحیثیتِ قوم عقاب کی طرح پہاڑوں کی چٹانوں میں اپنا نشیمن بنائے گی لیکن پاکستان کے انا گیر اور بزدل جرنیلوں نے اس خواب کی ایسی بھیانک تعبیر دی ہے کہ علامہ کی روح عالمِ بالا میں بہت بے چین رہتی ہوگی، بہت تڑپتے ہونگے علامہ کہ کیسی بیغیرت قوم اس ملک پر قابض ہوگئی ہے جسے انہوں نے ایک مثالی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا۔
اسی لئے تو میں بار بار کہتا رہتا ہوں کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والے اقبال اور پاکستان بنانے والے بابائے قوم قائدِ اعظم اللہ سے فریاد کرتے ہونگے کہ کس قوم کی رہنمائی اور قیادت کا منصب انہیں سونپا گیا تھا !
پاکستان کے اقتدار کے بھوکے، بزدل فرعون صفت یزیدی جرنیلوں نے جس طرح قوم کو سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا غلام بنایا ہے اس پر قوم میں اگر ذرہ برابر بھی شعور ہے تو وہ ان سامراجی کارندوں کو کبھی معاف نہیں کرسکتی اور معاف کرنا بھی نہیں چاہئے۔ لیکن یہ یزیدی جرنیل امریکی سامراج کی غلامی کو اپنے لئے باعثِ اعزاز گردانتے ہیں۔ اور ان کے آقا تو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بڑے غرور اور تکبر سے یہ کہتے آئے ہیں کہ انہیں پاکستان سے جب کوئی کام لینا ہوتا ہے تو وہ چند جرنیلوں کو خرید لیتے ہیں، اپنے پالتو کتوں کی طرح ان کے آگے ہڈی پھینک دیتے ہیں اور اس کے عوض ان کے سگِ سامراج ہر وہ کام بصد شوق کردیتے ہیں جس کا حکم دیا گیا ہو!
ان سامراجی سگوں کو علامہ مرحوم کی وہ نصیحت کہاں یاد رہتی ہے کہ؎
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!
پرواز میں کوتاہی تو عوام کی آتی ہے جرنیل تو قوم کی غیرت اور عزت کے سودے کے عوض جو انعام پاتے ہیں اسے وہ نعمت سمجھتے ہیں اور اس پر عیش کرتے ہیں۔ صرف اس ملت فروش جنرل قمر باجوہ کے اثاثے دیکھ لینا کافی ہے کہ اس نے چھ برس میں کس طرح اربوں کے اثاثے بنائے اور آج بھی آزاد پھر رہا ہے، اس پر نہ کوئی قدغن ہے نہ اس سے حساب مانگنے کی کسی میں ہمت ہے !
سامراج کا یہ طاغوتی رویہ در اصل اس ذہنیت کی پیداوار ہے جو مغرب میں صلیبی جنگوں کے آغاز میں پیدا ہوئی تھی اور آج، ہزار برس بعد بھی، مغربی طاقتوں کے استحصالی رویوں اور پالیسیوں کے پسِ پشت کارفرما ہے۔ نو آبادیاتی دور میں یہ ذہنیت اور بھی جلوہ نما رہی اور آج تک چلی آرہی ہے، عالمِ اسلام آج بھی ان کی توپوں کی زد میں ہے۔ اسرائیل کی ناجائز صیہونی ریاست کے قیام کی تمام تر حکمتِ عملی اسی کا آئینہ تھی اور فلسطینیوں کے مصائب اور مسائل سے مغربی سامرج، خصوصا” امریکی طاغوت کی مجرمانہ غفلت اور بے اعتناعی بھی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔
زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں آگ خود اس کے گھر کے چراغ سے لگی ہے۔ غزہ کی ہولناک تباہی اور اسرائیل کی فلسطینی نسل کشی کے جواب میں عالمِ اسلام پر سناٹے کا راج گواہی دے رہا ہے کہ مسلمان ملکوں کے قائدین اور سیاسی قیادت مغربی سامراج کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ یہ بزدل قیادت امتِ مسلمہ کے مفادات کے برخلاف سامراجی اور طاغوتی مفادات کا دفاع بھی کرنے کی مجرم ہے اور اسے امداد پہنچانے کی بھی۔ جب گھر کے محافظ ہی رہزنوں اور نقب زنوں سے ساز باز کرلیں تو گھر کہاں محفوظ رہ سکتا ہے!
آج علامہ اقبال کی برسی پر انہیں اس کے سوا کیا نذرانہء عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے جو ہمارے ان چار مصرعوں میں ادا ہو رہا ہے :
اقبال کو مطلوب تھی بیداریء ملت
وہ گوہرِ نایاب مگر اب بھی ہے مفقود
کچھ اپنی خطاؤں کی سزاوار ہے ملت
کچھ سازشِ اغیار کو بھی ہے یہی مقصود!
اے کاش کہ یہ ملتِ خوابیدہ اپنے دوست اور دشمن میں فرق کرنا جانتی ، اپنے بغلی گھونسوں کو سر پہ نہ بٹھاتی اور اپنی آستین کے سانپوں کو پہچانتی !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں