0

آہ خلیل الرحمٰن

اردو ٹائمز کے ایڈیٹر، پبلشر خلیل الرحمن اب اس دنیا میں نہیں رہے، انا للہ وانا الیہ راجعون حقِ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا، خلیل الرحمن نے ایک متحرک زندگی گزاری ، وہ کبھی تھکے نہیں، خلیل نیو یارک کا ایک اہم نام ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ خلیل کو تا دیر بھلایا نہیں جا سکتا، وہ ذہنوں پر نقش رہے گا، کچھ لوگ ایک عام سی زندگی گزارتے ہیں مگر اس عام سی زندگی میں وہ نادانستہ کچھ ایسا کر رہے ہوتے ہیں جو دیواروں پر لکھی تحریر بن جاتا ہے، اور لوگ چاہیں یا نہ چاہیں ان کی نظر دیوار پر لکھی تحریر پر پڑ جاتی ہے، خلیل بھی ایسا ہی شخص تھا میں نے جب نیویارک میں قدم رکھا اکا دکا لوگ مل جاتے تھے جن کا تعلق بھارت یا پاکستان سے ہو شناسائی نہ بھی ہو تو بھی بات چیت کر لیتے تھے اُردو یا ہندی میں بات ہوتی تو عجب نشتہ سا چھا جاتا مگر غیر محسوس طریقے پر پاکستانی کمیونٹی وسیع ہوتی چلی گئی وہ چالیس ڈالر کا زرِ مبادلہ جو لے کر آئے تھے وہ ہوتا ہی کتنا ہے سو معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لئے دن رات کام کرنا پڑا اس دوران نہ صرف امریکیوں کے ساتھ کام کر کے WORK ETHICS کا پتہ چل گیا، امریکی سماج کو پڑھنے کا موقع ملا وہاں پاکستانی کمیونٹی پر بھی نظر رہی ، 1985 کے بعد جن لوگوں نے پاکستانی کمیونٹی کو کمیونٹی کی سطح پرروشناس کرایا ان لوگوں میں خلیل بھی شامل تھا اور کچھ جہات میں خلیل ان تمام افراد میں ممتاز تھا، شہر میں چند اخبار بھی نکلنے لگے تھے ان میں پاکستان پوسٹ اور اُردو ٹائمز کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، خلیل اور آفاق نے شہر میں ایک حلقہ بھی بنالیا تھا شہر میں سیاست بھی شروع ہو چکی تھی پیپلز پارٹی کی باقاعدہ نشستیں ہوتی تھی، خاصی گہما گہمی تھی اخبارات کو لکھنے والے بھی مل گئے تھے، مگر پھر یہ ہوا کہ اخبارات نے پاکستانی کالم نگاروں کو جگہ دی جانے لگی، مگر کچھ نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ کون سا کالم نگار شہر کی توجہ کھینچ رہا ہے 1985 تک میں معاشی طور پر SOUND FOOTING پر آ چکا تھا شاعر ی جو روح میں حلول تھی وہ بھی جاگ اٹھی اور پھر قلم بھی چلنے لگا، میں نے باقاعدگی سے ایشیا انٹر نیشنل میں لکھنے لگا ایک شام ہم کسی پروگرام میں جا رہے تھے فائق صدیقی ہمارے ہم رکاب تھے فائق نے بتایا کہ آپ کو خصوصی طور پر اُردو ٹائمز میں لکھنے کی دعوت دی گئی ہے مجھے بتایا گیا کہ یہ Move اُردو ٹائمز کے خلیل الرحمن کی ہے اس دن اندازہ ہوا کہ میں کچھ لکھ رہا ہوں ، انگلینڈ میں قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ کس طرح پاکستانی کمیونٹی وہاں کی مضبوط میر پوری برادری نے مولوی کی جھولی میں ڈال دی تھی، میری خواہش تھی کہ شمالی امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی روشن خیالی کا ساتھ دے اور اس BAGGAGE سے چھٹکارا حاصل کر لے جو وہ پاکستان سے لے کر آئی ہے فرسودہ سماجی اور مذہبی توہمات اور رسم و رواج، اس نکتے پر میں اور خلیل الرحمٰن ایک پیج پر تھے، مختلف محفلوں میں خلیل کو پڑھنے کا موقع ملا، وہ OUT SPOKEN تھے اور اپنی بات پوری قوت سے لوگوں کے سامنے رکھتے تھے ، ان کا اعتماد بلا کا تھا، ایسا لگتا تھا کہ وہ سامنے بیٹھے ہوئے کسی شخص کے مرتبے، لیاقت اور علم سے ہر گز متاثر نہیں خلیل نے بتایا کہ ایک بار وہ کسی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ایک مقرر نے PAKISTAN BASHING کی اور خلیل نے اس مقرر کو روک دیا اور کہا کہ بحیثیت صدر میں آپ کو یہ بات کرنے کی اجازت نہیں سکتا، ہم بہت سے اجلاسوں میں شریک رہے کوئی مقرر بہت متنازعہ بات کرکے چلا جاتا ہے اور صدر اپنی باری پر اس تاثر کو زائل کر دیتا ہے مگر خلیل نے روائیت سے ہٹ کر بات کی یہ بات درست ہے کہ اگر اجلاس ادبی نوعیت کا ہے تو تمام مقررین ادب کے دائرے میں ہی بات کرینگے وہ سیاسی تقریر نہیں کر سکتے ، مجھے اندازہ نہ تھا کہ خلیل اتنےQUICK WITTED بھی ہو سکتے ہیں، خلیل راولپنڈی کے گورڈن کالج سے فارغ التحصیل تھے GORDONIANS کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ OUT SPOKEN ہوتے ہیں خلیل گورڈن کالج کی اس روش کو ساتھ لے کر چلاخلیل نیو یارک میں ہونے والے ہر بڑے EVENT میں شریک رہا، شاعروں سے بھی رابطے رہے، شہر کا مزاج بھی جانتا تھا شہر میں پاکستان ڈے پریڈ ہو ، یا کوئی پاکستان کے حوالے سے میلہ خلیل کا اس کے انعقاد میں عمل دخل ہوتا تھا کبھی کسی EVENT کا MODE بھی تبدیل کر دیتا، خلیل نے اپنی ایک ٹیم بنالی تھی جس کی شہر پر مضبوط گرفت تھی، خلیل کے سفارت خانے اور قونصلیٹ سے بھی مضبوط مراسم تھے اور ان پر خلیل کے اثرات بھی تھے، خلیل اپنے کاروبار کی حساسیت سے کماحقہ واقف تھے اور جانتے تھے کسی ایسے ادارے کی حفاظت کی جانی چاہیے، اخبار کو کامیابی سے چلانا خلیل کی ایک بڑی کامیابی تھی مگر جس چیز نے ہمیں حیران کر دیا وہ کئی سال تک اُردو کا نفرنس کا انعقاد تھا، یہ عظیم اُردو کانفرنسوں نے دنیائے اُردو کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا جس کی بازگشت پاکستان اور ہندوستان میں سنائی دی، پاکستان اور بھارت کے نامور ادیب، بے مثل شعراء اور جید ناقدین ان کا نفرنسوں میں شریک ہوئے اور مقالات پڑھے، میری بڑی خواہش تھی کہ یہ سب مقالات کتابی شکل میں شائع ہو جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا، ایک کانفرنس اقبال کے حوالے سے تھی اور خلیل نے اپنا رسوخ استعمال کر کے ایک نمائش کا اہتمام بھی کر ڈالا جس میں اقبال کے حوالے سے اہم چیزیں نمائش میں رکھی گئیں جو شرکاء کے لئے حیرت کا باعث تھی ایسے اہم نوادرات کا پاکستان کی حکومت کی جانب سے نیو یارک لایا جانا بھی بہت بڑی بات تھی اور یہ کام خلیل نے کر دکھایا، خلیل شہر کا اہم شخص تھا مگر متنازع بھی، خلیل نے نیو یارک میں دشمنیاں بھی پالیں خلیل کے مزاج میں عجیب سی کیفیت تھی اس کو معلوم تھا کہ کہاں ڈٹ جانا ہے اور کہاں مصالحت سے کام لینا ہے، وہ بہت متلون مزاج کا آدمی تھا، بہت FOCUSED ایک وقت میں کئی کام شعور کے ساتھ کرنے والا، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں بہت ہی کم خلیل ایک شفیق باپ اور ہمدرد شوہر ، دوستوں کا دوست، کبھی کبھی دشمن سے بھی ہاتھ ملا لینے والا ، کئی عشروں تک خلیل نے شہر پر اپنا اثر قائم رکھا، شہر کی تمام تنظیموں اور انجمنوں کی کار کردگی پر اس کی نظر تھی، وہ کہیں نہ کہیں ان پر اثر انداز بھی ہوتا تھا، آخر آخر خلیل چیزوں کو بھولنے لگے تھے فرح کامران کے ایک پروگرام میں ان سے آخری ملاقات ہوئی مسکرا کر ملے، خلیل کو ہمیشہ متبسم ہی پایا جب ہنستے دل کھول کر ہنستے، بلا کے بزلہ سنج ، ایک عشرے تک حلقۂ اربابِ ذوق کے ساتھ رہے، اجلاسوں میں مستقل شرکت کرتے رہے، ان کے انتقال کی خبر فرح کامران نے دی تدفین کی کوئی خبر نہ مل سکی سنا تھا کہ تدفین WASHINGTON MEMORIAL میں ہوگی وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ تدفین صبح ہو چکی بہت قلق ہوا ؎
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں