اُردو ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پبلشر خلیل الرحمان صاحب کی رحلت انکے اہل خانہ اور احباب کے لیے گہرے دکھ اور صدمے کا باعث ہے۔ وہ امریکہ اور کینیڈا میں اُردو کے ادبی اور صحافتی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت تھے۔ اُردو ٹائمز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ امریکہ کے علاوہ کینیڈا اور برطانیہ کے بڑے شہروں میں بھی تقسیم ہوتا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں جب کہ اخباری صنعت تیزی سے تنزل کا شکار ہے میں اخبارات کی تقسیم کا ذکر بھی گذرے ہوئے زمانے کی بات لگتا ہے ۔اخبار کو ہر دور میں نت نئے غنیموں کا سامنا کرنا پڑاہے لیکن اس جری نے ہمیشہ اپنی اہمیت اور عظمت کا لوہا منوایا ہے۔ اخبار کی اس ثابت قدمی کا کریڈٹ ایسے جید اور منجھے ہوے صحافیوں کو جاتا ہے جو ابتلا کے ہر دور میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے رہے۔ نیو یارک میں اُردو اخبار کی صنعت کو جن نا مساعد حالات کا سامنا ہے ان میںایسے اخبارات کی اشاعت سراسر گھاٹے کا سودا ہے جو مفت تقسیم ہوتے ہیں اور جنکے قارئین انکی قیمت ادا نہیں کرتے۔ ایسے اخبارات کامکمل انحصار اشتہارات کی آمدنی پر ہوتا ہے۔ ان کٹھن حالات میں اخبار کی اشاعت کو جاری رکھنا ایک گہری کمٹمنٹ اور عزم راسخ کا تقاضا کرتا ہے۔
امریکہ میںکووڈ کی وبا کے دوران اخبارات کے بند ہونے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ابھی تک جاری ہے۔ کچھ بڑے قومی اخبارات معدوم ہونے سے اس لیے بچ گئے کہ انہیں بڑے سرمایہ داروں نے خرید لیا۔ ان میں واشنگٹن پوسٹ نمایاں ہے جسے Jeff Bezosجیسے ارب پتی نے خرید کر بند ہونے سے بچا لیا۔یہاں اس مشہور زمانہ اخبار کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ میں اکثر اخبارات کوشدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان نا موافق حالات میں اس پیشے سے وہی افراد وابستہ رہ سکتے ہیں جو اپنے کام سے نظریاتی وابستگی رکھتے ہوں۔ خلیل الرحمان کا شمار بھی ایسے ثابت قدم صحافیوں میں ہوتا ہے جو نا مساعد حالات کے باوجود اپنے نظریاتی میلان کی وجہ سے اپنے پیشے سے وابستہ رہے۔
اُردو ٹائمز کو اسکے موجودہ مقام تک پہنچانے میں خلیل الرحمان کی محنت ‘ عزم اور ارادے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسکی خبریں پڑھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سنسنی خیزی‘ حسن بیان اور ہیجان خیزی سے پہلو تہی کرتے ہوے خبر کو بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ قاری بھی حقائق جاننے کے لیے خبر پڑھتا ہے ۔ فیک نیوز کے اس دور میں سچ اور جھوٹ میں فرق بظاہر ختم ہو رہا ہے مگر سنجیدہ فکر قاری سچ تک پہنچنے کے لیے صرف سوشل میڈیا پر انحصار نہیں کرتا بلکہ وہ مختلف ذرائع ابلاغ کی چھان پھٹک کرکے کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں خبر دیتے وقت پیشہ ور صحافی کی ساکھ دائو پر لگی ہوتی ہے۔ اسکا بھرم اور اعتبار ہی اسکا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ آج کے ہنگامہ خیز دور میں وہی اخبار اور اخبار نویس میدان میں رہ جاتے ہیں جو اپنے مقام اور مرتبے پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ آجکل نیویارک میں جو دو چار پرانے اُردو اخبار تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں انکی بقا کی وجہ انکی ساکھ‘ اعتبار اور کریڈیبیلیٹی ہے۔ یہ اخبارات انٹر نیٹ پر مہیا ہونے کے علاوہ مختلف ذرائع سے ایسے قارئین تک بھی پہنچ جاتے ہیں جو ہارڈ کاپی پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُردو ٹائمز کا شماراُردو کے صف اول کے ان اخبارات میں ہوتا ہے جنہوں نے سخت مسابقت کے دور میں بھی معیاری اور با اصول صحافت کا علم تھامے رکھا۔
خلیل الرحمان کا شمار بجا طور پر ان پیشہ ور صحافیوں میںہوتا ہے جنہوں نے نیو یارک میں اُردو صحافت کی بنیاد رکھی۔ کم از کم پینتیس برس کے اس صبر آزما سفر کے بعد خلیل الرحمان اپنا عَلم اپنی اہلیہ انجم صاحبہ کے حوالے کر کے آسودہ خاک ہوئے۔
؎کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے!!
خلیل صاحب گزشتہ ڈیڑھ دو برسوں سے علیل تھے۔ اس دوران میں انکی اہلیہ نے بڑی مستعدی سے اخبار کی اشاعت جاری رکھی۔ان مشکل لمحات میں بھی اُردو ٹائمز کا معیار اور آب و تاب برقرار رہی۔ امید ہے کہ انجم صاحبہ کی رہنمائی میں یہ اخباراپنے چیف ایڈیٹر کے مشن کو جاری رکھے گا۔نیویارک میں اُردو صحافت کے چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں۔ انکے بعد یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یا نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
نا قابل تردید حقیقت یہی ہے کہ
؎کل صبح کے دامن میں تم ہو گے نہ ہم ہوں گے
بس خاک کے سینے پر کچھ نقش قدم ہوں گے!!
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
0