کرکٹ کا کھیل
لو! اب سیاسیات میں بھی کھیل آگئے
کرکٹ ہے خاص اس کی ہی اب ریل پیل ہے
ہر شخص کی نظر ہے اسی پر لگی ہوئی
کیسا عجیب یارو یہ کرکٹ کا کھیل ہے!
گزشتہ چند ماہ سے ملک میں دھرنے، احتجاج، جلسے، جلوس کا موسم آیا ہوا ہے۔ کبھی سندھ میں اساتذہ احتجاج کرتے ہیں، کبھی مختلف جگہوں پر جماعت اسلامی دھرنے دے دیتی ہے لیکن سب سے شدید احتجاج ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف مستقل اور مسلسل کررہی ہے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اب ایسا نام بن چکا ہے جس کے سامنے آتے ہی ایک ہنگامے، ایک افراتفری، ایک شدت پسندی اور ایک لاقانونیت ذہن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ یقینا زیادتی ہوئی ہے۔ پہلے اس جماعت سے اس کا نشان چھینا گیا۔ پھر یہ جماعت مجبوراً دوسری جماعت میں ضم ہوئی۔ اس کے متعدد اراکین نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور یہ اراکین بڑی تعداد میں انتخابات جیتے۔ اس جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے مختلف امیدواروں کو انتخابی افسران نے معروف زمانہ فارم 45دے دیا تھا جس میں انہیں کامیاب دکھایا گیا تھا لیکن جب یہ فارمز الیکشن کمیشن نے دوبارہ فارمز 47میں تبدیل کئے تو نتیجہ بدل دیا گیا اور تحریک کے بہت سے امیدواروں کو ناکام دکھایا گیا۔ احتجاجاً یہ تمام اراکین حکومت وقت کو فارم 47کی حکومت کہتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ مقتدرہ نے فارمز 47کی مدد سے یہ حکومت بنوائی ہے اور ان کا شکوہ ہے کہ ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے۔ یہ زیادتی ایک طرف دوسری زیادتی یہ ہوئی کہ اس جماعت کے سربراہ کے علاوہ اس کے صف اول کے تمام رہبروں اور ہزاروں عام اراکین کو ایک ڈیڑھ سال سے نظر بند کررکھا ہے۔ اب یہ جماعت ایک طرف تو انصاف کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے تو دوسری طرف احتجاج کا طریقہ اپنائے ہوئے ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی قیادت میں کئی بار اس جماعت کے کارکنان اسلام آباد پہنچے۔ بہت سے ہنگاموں نے جنم لیا، مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ کا بازار گرم ہوا اور احتجاج کرنے والے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس طرح کے احتجاج اور شدت پسندی یقینا ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ خصوصاً اس حال میں کہ ملک معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور انٹرنیشنل مانیٹر فنڈ نے بڑی ردوقدح کے بعد پاکستان کو قرض دیا ہے اور اس قرض کے سلسلے میں کڑی شرائط عائد کی ہیں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ملک آئی ایم ایف ہی چلارہا ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کا احتجاج کی آخری کال دینے کا اعلان امن پسندوں کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ فرماتے ہیں کہ اس بار ہم زیادہ طاقت اور پورے زور کے بعد اسلام آباد پہنچیں گے۔ انہوں نے یہ دلچسپ اعلان بھی فرمایا ہے کہ وہ کئی بار کے احتجاج سے تجربہ حاصل کر چکے ہیں اور وہ اس تجربے سے فائدہ اٹھا کر ملک کو مخمصے میں ڈال دیں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے بیرون ملک ہمدرد امریکہ اور برطانیہ سے مدد مانگ رہے ہیں اور ان ممالک سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ ان کے رہبر اعظم عمران خان کو آزاد کرائیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کے احتجاج، دھرنے، جلسے اور جلوس کا تعلق ہے اس سے کوئی بات بننے والی نہیں ہے۔ موجودہ دھرنے کا نتیجہ بھی قومی نقصان ،پکڑ دھکڑ اور روزمرہ کے کاموں کے نقصان کی صورت میں ظہور پذیر ہو گا اور ہمیں خطرہ ہے کہ اس ہنگامے میں لوگ زخمی بھی ہو سکتے ہیں اور خدانخواستہ جان سے ہاتھ بھی دھو سکتے ہیں حکومت بار بار اعلان کر چکی ہے کہ وہ لاقانونیت سے آہنی ہاتھوں سے نپٹے گی۔ تمام تر کوششوں اور چند ممالک کی امداد کے بعد بھی حکومت اب تک استحکام حاصل نہیں کر سکی ہے۔ ایک عام روایت ہے کہ حکومت ’’ماں‘‘ کا کردارادا کرتی ہے۔ اُسے دوبارہ آگے بڑھ کر تحریک انصاف سے بات کرنی چاہیے اور اگر ضرورت پیش آئے تو ’’متقدرہ‘‘ کو بھی اس بات چیت میں شریک کر لینا چاہیے۔ ہم پی ٹی آئی سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ بیرونی ممالک کو پاکستان کی سیاست میں گھسیٹنا پاکستان کے حق میں ہے نہ تحریک انصاف کے حق میں ہے۔ کل اگر تحریک انصاف اقتدار میں آگئی (جو فی الحال ناممکن نظر آرہا ہے) تو یہی ممالک اس سے اپنی وہ باتیں منوانے کی کوشش کریں گے جو ملکی مفاد میں نہیں ہونگی۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے میں جہاں مقتدرہ کا ہاتھ ہے وہاں دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اس ’’محرومی‘‘ میں شریک رہی ہے۔ تحریک انصاف کو اس ’’حقیقت‘‘ سے سبق لینا چاہیے۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان پابند سلاسل ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں تحریک انصاف مختلف نظریات میں بٹ چکی ہے اور اس جماعت میں پہلا سا دم باقی نہیں رہا ہے۔ اگر ہمارا ہمسایہ چین اور مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو ہمیشہ پاکستان کے دوست رہے ہیں مل کر حکومت اور تحریک انصاف کو ساتھ بیٹھنے پر مجبور کریں تو شاید ملک اس ’’بے یقینی‘‘ کے دور سے نجات پا جائے ہم اس قادر مطلق کے حضور بھی دعا گو ہیں کہ یہ ملک تیرے ہی نام پر بنا ہے اور تو ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے تو حکومت اور تحریک انصاف کو عقل کی راہ دکھا دے۔