0

آوازِ دوست !

آج یہ سطور میں اس تاریخی دن لکھ رہا ہوں جب عمران خان کے احتجاج کی للکار کے جواب میں ہماری کٹھ پتلی حکومت نے اپنے سرپرست اور سہولت کار بزدل جرنیلوں کے حکم پر پورے پاکستان کو ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے۔
کراچی سے درہء خیبر تک پورا پاکستان جمود کے عالم میں ہے۔ نہ ٹرینیں چل رہی ہیں نہ بسیں۔ بڑی بڑی شاہراہوں کو جگہ جگہ سے کھود دیا گیا ہے تاکہ ان کے ذریعہ گاڑیاں آمد و رفت نہ کرپائیں۔
ہر بڑے شہر کو ہزاروں کنٹینر کھڑے کرکے شہروں کے بجائے کنٹینیرستان میں تبدیل کردیا گیا ہے، بزدلی اور شقاوت کی آمیزش کا یہ عالم ہے کہ مریضوں کو ہسپتال تک جانے کی اجازت نہیں ہے، ایمبولینس تک کو ممانعت ہے۔ ہم نے ایک ویڈیو کلپ میں اس بچی کی لاش دیکھی جسے اس کے غمزدہ باپ نے اپنے ہاتھوں پہ اٹھایا ہوا تھا اور وہ بلک بلک کے فریاد کر رہا تھا کہ اس کی بچی کو ہسپتال لیجانے والی ایمبولنس کو جانے کی اجازت نہیں ملی جس کی وجہ سے اس کی بچی اس کے بازوؤں میں دم توڑگئی لیکن بزدل جرنیلوں کے کارندوں پر شرم و حیا کی کوئی رمق نمودار نہیں ہوئی اس لئے کہ وہ ارضی خداؤں کے پجاری ہیں اس اللہ کے سامنے جوابدہی کا انہیں کوئی احساس نہیں جو کائنات کا مالک ہے اور کہہ چکا ہے کہ وہ ہر انسان سے ایک ایک ذرے کا حساب لے گا۔
لیکن یزید عاصم منیر اور اس کے بے ضمیر معاون یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے قلعہ میں محفوظ رہینگے اور ان کا یومِ حساب کبھی نہیں آئے گا۔
چور ہمیشہ بزدل ہوتا ہے اور یہ جرنیل جو پاکستان کو دولخت کرنے کے مجرم ہیں ان کی ایک ضخیم تاریخ ہے بزدلی کے کارناموں کی۔
آج یہ اس عمران خان کے نام سے تھرا رہے ہیں جسے گذشتہ چودہ مہینے سے انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا ہوا ہے لیکن اس ایک بے دست و پا، نہتے، انسان کا ایسا خوف ان بزدلوںپر ہے کہ وہ ایک احتجاج کی کال دیتا ہے تو ان کی ٹانگیں ان کے قلعہ کی مضبوط دیواروں کے پیچھے بھی کانپنے لگتی ہیں۔
عمران خان کے احتجاج کی للکار سے پہلے تک ان کی بزدلی کا شہکار یہ تھا کہ یہی وہی بزدل اور کائر تھے جنہوں نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی سینا کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔
ان نوے ہزار ’’بہادر‘‘ اور ’’نڈر‘‘ سپاہیوں کا سالار وہ چوہا جنرل نیازی تھا جو اپنے کو بزعمِ خود ٹائیگر کہلواتا تھا اور جس کا دعوی یہ تھا کہ وہ بنگالیوں کی نسل تک بدل دے گا لیکن پھر اس نے کمال بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی ایک سابقہ ساتھی افسر، جنرل جگجیت ارورا کے سامنے بے شرمی سے ہتھیار ڈال دئیے اور نوے ہزار سپاہیوں اور افسروں کو جنگی قیدی بنادیا۔
نیازی اور ارورا برٹش انڈین آرمی میں کورس میٹ تھے۔ جنرل ارورا نے بعد میں اپنی یاد داشتوں میں تحریر کیا کہ نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اس کے فوجیوں نے پاکستان آرمی کے جس اسلحہ کو اپنی تحویل میں لیا وہ اتنا تھا کہ نیازی اگر چاہتا تو کم از کم تین مہینے تک اپنے طور پہ ڈھاکہ کا دفاع کرسکتا تھا۔ لیکن دفاع تو وہ کرتا جس میں غیرت ہوتی اور شجاعت ہوتی جبکہ نیازی تو اپنے ساتھی جرنیلوں کی مانند اول درجہ کا بزدل تھا۔
یہ پاکستانی جرنیل تو صرف اپنے نہتے ہم وطنوں کے سامنے شیر ہوتے ہیں اور انہیں فتح کرنے اور کچلنے کیلئے یہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔دشمن کے سامنے تو ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے، یہ کانپنے اور لرزنے لگتے ہیں۔
یزیدِ وقت عاصم منیر اور اس کے ساتھی جرنیل بھی اتنے ہی بزدل ہیں کہ ایک نہتے اور پابندِ سلاسل عمران کا نام بھی ان کے آگے لیا جائے تو یہ کانپنے لگتے ہیں۔
بزدلی کا اس سے بدتر مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ عمران کی ایک احتجاج کی للکار کے جواب میں پورے پاکستان کو ان بزدلوں نے حبس آلود قید خانہ بنیادیا ہے اور چوبیس کڑوڑ عوام ان کی بزدلی کے ہاتھوں یرغمالی بن گئے ہیں!
پاکستانی عوام کی توجہ عمران کے احتجاج سے ہٹانے کیلئے ان بزدلوں نے پارہ چنار میں فرقہ وارانہ فساد کروانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ فرنٹئیر کانسٹیبلری جسے عرفِ عام میں ایف سی کہا جاتا ہے اس کے سینکڑوں اہلکاروں کی موجودگی میں دہشت گردوں نے کم از کم سو گاڑیوں کے قافلہ پر حملہ کیا اور ایف سی کے بزدل سپاہی اور افسر ہاتھ باندھے تماشہ دیکھتے رہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو دن کے خونی فسادات میں ہلاک ہونے والے کم ازکم 76 افراد تھے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار ان ہلاکتوں کی تعداد کم از کم ڈیڑھ دو سو بتاتے ہیں۔
تعداد کچھ بھی رہی ہو سوال یہ ہے کہ یہ غریب قوم اپنا پیٹ کاٹ کر جن سانڈوں کو پال رہی ہے کیا وہ اسی کام کے ہیں کہ ان کی موجودگی یا سرپرستی میں دہشت گرد انہیں غریب عوام کا خون بہاتے رہیں اور یہ سرکاری سانڈ خاموش تماشائی بنے رہیں؟
سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ زرق برق وردیوں میں ملبوس جرنیل جنہیں ملک و قوم نے اپنی حفاظت کا فریضہ سونپا ہے اورسب کچھ کرتے ہیں سوائے اپنا بنیادی اور منصبی فریضہ ادا کرنے کے !
یہ جرنیل ملک کی سیاست میں پورے کے پورے دخیل ہیں اس حد تک کہ سیاستداں ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بنے رہتے ہیں اور جو حمیت اور غیرت والا سیاسی رہنما ان کی دھونس اور دھاندلی کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کی غلطی کرے اسے یہ عبرت کا نمونہ بنادینا چاہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی چودہراہٹ کو چیلنج کیا تو اسے انہوں نے پھانسی پر لٹکا دیا اب عمران ان کے سامنے سینہ سپر ہوا ہے تو یہ بزدل اپنی کمیں گاہوں میں چھپے اسے نمونہء عبرت بنانے کیلئے ڈھائی برس سے ہرشیطانی اور ابلیسی حربہ آزماتے آئے ہیں لیکن آخر کو ان زمینی خداؤں کے اوپر وہ کائنات کا واحد اور اصلی خدا ہے جو ان کے شیطانی منصوبوں کو ناکام بناتا آیا ہے لیکن ان کی آنکھوں پر ایسی چربی چڑھی ہوئی ہے کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور ہ بزدلی کے ایک کارنامے کے بعد دوسرا اور تیسرا کارنامہ کرتے جارہے ہیں ۔!
ہر بزدل کی طرح بزدلوں کا یہ شیطانی ٹولہ بھی اپنے انجامِ رسوائی کو پہنچے گا اسلئے کہ قدرت اپنے قوانین کسی کی سہولت کیلئے نہیں بدلتی۔ یہ بھی کیفر کردار کو پہنچیں گے اور تاریخ کی دھول بن جائینگے!
لیکن آج میں ان بزدل کمینوں پر نہ اپنے قلم کو ضائع کرونگا نہ اپنا دل جلاؤنگا اور یوں نہیں جلاؤنگا کہ آج میرا دل رو رہا ہے ایک دوست کے ہمیشہ کیلئے بچھڑجانے کے غم میں!
اُردو ٹائمز کے بانی مبانی اور مینیجنگ ایڈیٹر خلیل الرحمان ہم سب دوستوں کو اپنی جدائی کا صدمہ برداشت کروانے کیلئے ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر اس دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے جہاں ہرایک کو جانا ہے۔
خلیل الرحمان سے، اللہ کے دوست سے، میرا قلم کا رشتہ بہت جلد قلب کے رشتے میں بدل گیا تھا۔
آج سے تئیس برس پہلے، نائن الیون کے سانحہ کے بعد، میرے شہر ٹورنٹو کے ایک صحافی دوست نے، جو برسوں ہوئے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے، مجھ سے فرمائش کی کہ اُردو ٹائمز کے مدیر، خلیل الرحمان کی دعوت پر میں ان کے اخبار کیلئے نائن الیون کے سانحہ پر اپنے تاثرات کو قلمبند کروں ۔
میں نے سوچا کہ ایک کالم کی ہی تو بات ہے کالم لکھ دیا لیکن اس کے بعد خلیل الرحمان کا اصرار ہوا کہ میں ہر ہفتہ ان کیلئے کالم لکھوں۔ مجھ سے انکار نہیں ہوا اسلئے کہ اصرار اتنے خلوص کے ساتھ ہوا تھا کہ میں اس کا جواب صرف اپنے خلوص سے ہی دے سکتا تھا۔
وہ دن اور آج کا دن۔ تئیس برس سے میں پابندیٔ وقت کے ساتھ اُردو ٹائمز کیلئے کالم لکھتا آیا ہوں۔ میں چاہے حضر میں یا سفر میں کالم لکھنے میں کوئی تساہل یا تاخیر نہیں ہوتی۔ تساہل یا تاخیر ممکن ہی نہیں ہوا کبھی اسلئے کہ خلیل الرحمان اور ان کی شریکِ حیات، انجم خلیل نے اپنے خلوص اور صحافت کیلئے اپنے دلی جذبہ اور لگن سے مجھے جیسے خرید لیا تھا!
خلیل اور انجم کی جوڑی مثالی جوڑی ہے۔ بیوی زندگی کی ساتھی تو بہرحال ہوتی ہے لیکن انجم ،خلیل کے کام میں بھی برابر کی شریک رہی ہیں۔ میں نے انجم میں کام کی جو لگن اور خدمت کا جو جذبہ دیکھا ہے اس کی مثالیں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خلیل ایک طویل عرصہ سے بیمار تھے، صاحبِ فراش تھے لیکن انجم نے ان کی بیماری کو اپنے اخبار کیلئے خلاء کبھی نہیں بننے دیا۔ ایک طویل عرصہ سے اس دھان پان سی خاتون نے اپنے کندھوں پر گھر کے ساتھ ساتھ اخبار کی بھی تمام ذمہ داریاں کامیابی سے اٹھائے رکھی ہیں۔
خلیل الرحمان اپنے نام کی مناسبت سے اللہ کے دوست تھے، رفیق تھے سو اللہ نے اپنے دوست کو اپنے پاس بلا لیا۔ ہم سب خلیل کی دائمی جدائی کا صدمہ برداشت کرینگے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرینگے کہ اللہ انجم خلیل کے حوصلہ کو اس صدمے کے باوجود توانائی بخشے اور وہ اسی تندہی کے ساتھ اپنے شریکِ حیات اور شریکِ کار کی یادگار، یعنی اُردو ٹائمز کو، کامیابی اور کامرانی کے ساتھ چلاتی رہیں اور ہمیں یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ خلیل کے جانے سے اس اخبار کی کارکردگی میں کوئی کسر، کوئی کمی پیدا ہوئی ہے۔
میں اس کالم کو اپنے دوست، اللہ کے دوست، خلیل الرحمان کی مغفرت کی دعا اور انجم خلیل کے حوصلہ کی بلندی کی دعا کے ساتھ ختم کر رہا ہوں۔ جانا سب کو ہے، موت سب کو آنی ہے لیکن موت اگر اس حیاتِ ارضی میں کامرانی کے بعد آئے تو وہ نصیب کی حامل ہوتی ہے۔
خلیل الرحمان زندہ رہیں گے اپنے اخبار کی حیات کے ساتھ اور اخبار کی حیات کی ضامن ان کی شریکِ حیات اور شریکِ کار انجم خلیل ہونگی۔ اللہ انہیں طول عمری نصیب فرمائے اور ان کی محنت اور لگن کو دوام بخشے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں