ایک اندازے کے مطابق، ۲۰۲۱ء میں دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ۹ء۱ بلین تھی جو اب دو بلین سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ انڈونیشیا، پاکستان اور بھارت وہ ملک ہیں جن میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ایک اور اندازے کے مطابق، مسلمانوں کی کل آبادی سن ۲۰۱۵ء اور سن ۲۰۶۰ء کے درمیان دنیا کی آبادی کے بڑھنے کی رفتار سے دو گنا تیزی سے بڑھے گی،اور اس صدی کی دوسرے نصف میںعیسائیوں کی کل تعداد سے بڑھ جائے گی، جس کا مطلب ہے کہ مسلمان دنیا کا سب سے بڑا مذہبی گروہ بن جائے گا۔ انہی اعدادو شمار کے مطابق، دنیا کی آبادی اس عرصہ میں ۳۲ فیصد رفتار سے بڑھے گی لیکن مسلمان ۷۰ فیصد، عیسائی ۳۴ فیصد،ہندو ۲۷ فیصد، یہودی ۱۵ فیصد، دوسرے مذاہب ۵ فیصد، بے دین ۳ فیصد لیکن بدھسٹ ۷ فیصد کم ہو جائیں گے۔یہ اعدادو شمار پی ای ڈبلیو ریسرچ سنٹر کے جاری کردہ ہیں۔دوسرے لفظوں میں اب سے ۴۵ سال بعد، ہر دس میں سے تین افراد مسلمان ہو ں گے۔
مسلمانوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کی وجوحات میں، عمرانیات کے سادہ اصول کار فرما ہیں۔ جیسے ، مسلمان خواتین اوسطاً ۹ء۲ بچے پیدا کرتی ہیں، جب کہ عیسائی عورتیں ۶ء۲ بچے، اور غیر مسلم ۲ء۲ فیصد بچے پیدا کرتی ہیں۔۔ ان تمام بڑے خطوں میں جہاں اکثریت مسلم آبادی کی ہے، مسلمانوں کی شرح پیدائش غیر مسلموں سے زیادہ ہوتی ہے۔اس کے علاوہ، مسلمان آبادیوں کی نمایاں خصوصیت ہے کہ انکا عمروں کا تناسب نوجوانوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔مثلاً مسلمانوں کے نصف مما لک میں چالیس فیصد سے زیادہ آبادی ۱۵ سال تک کی عمر کی ہوتی ہے۔ اور ایک کثیر تعداد ان نو جوانوں کی ہوتی ہے جو ۲۹۔۱۵ سال کی عمروں کے ہوتے ہیں۔
ایک اسلامی ادارے کی کتاب ، ورلڈ سروے ۲۰۰۳ء کے مطابق ، دنیا کے ۹۷ فیصد مسلمان افریقہ اور ایشیا کے بر اعظموں میں بستے تھے۔ تین سو ملین مسلمان ایسے ملکوں میں رہتے تھے جہاںوہ اکثریت میں نہیں تھے۔ بہت سے مسلم ممالک نے اپنی آبادی کی رفتار افزائش کو کم کیا ہے جیسے وسطی ایشیا کے ممالک، آزربائیجان،بحرین، البانیہ وغیرہ۔ لیکن کئییوں کی شرح افزائش ابھی بھی بہت زیادہ تھی۔اکثر مسلم ممالک میںشرح اموت تیزی سے گری ، سوائے جبوتی، سوڈان، صومالیہ اور افغانستان میں۔
دنیا کے دس ممالک جن میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیںان کے نام اور آبادی کی کچھ خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں(یہ اعدادو شمار اقوام متحدہ کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۲۳ سے لیے گئے)
ا۔ انڈونیشیا، اس کی آبادی ۵ء۲۴۱ ، توقع حیات ۳ء۶۸سال، اوسط سال سکول میں ۶ء۸، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی ۰۴۶،۱۲ ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر ۱۱۳ واںنمبر
۲۔ پاکستان، اس کی آبادی 225.6 ملین، توقع حیات 66.4سال، اوسط سال سکول میں4.4، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی5,734 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر165 واںنمبر
۳۔انڈیا ۔ اس کی مسلمان آبادی 211.1 ملین، توقع حیات 67.7سال، اوسط سال سکول میں6.6، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی6,951 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر135 واں
۴۔ بنگلہ دیش، اس کی آبادی155.4 ملین، توقع حیات73.7سال، اوسط سال سکول میں7.4، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی6,511 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر130واں
۵۔ نائجیریا، اس کی آبادی 111.7 ملین، توقع حیات 53.6سال، اوسط سال سکول میں7.6، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی4,755ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر162 واں
۶۔مصر، اس کی آبادی 225.6 ملین، توقع حیات 66.4سال، اوسط سال سکول میں4.4، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی5,734 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر165 واں
۷۔ایران، اس کی آبادی 87.4 ملین، توقع حیات 74.6سال، اوسط سال سکول میں10.7، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی14,773 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر77 واں
۸۔ ٹرکی، اس کی آبادی 83.2 ملین، توقع حیات 78.5سال، اوسط سال سکول میں8.8، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی32,834ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر48واں
۹۔ الجیریا، اس کی آبادی 46.5 ملین، توقع حیات 77.1سال، اوسط سال سکول میں7.8، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی10,978 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر93 واں
۱۰۔ سوڈان، اس کی آبادی 42.9 ملین، توقع حیات 65.6سال، اوسط سال سکول میں3.9، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی3,515 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر169 واں
سوئٹزرلینڈ، (برائے موازنہ)اس کی آبادی 8.8 ملین، توقع حیات 84.3سال، اوسط سال سکول میں13.9، ملک کی سالانہ فی کس آمدنی69,433 ڈالر اور دنیا میں ترقی کی سیڑھی پر1 واں
اب ذرا ان اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے ، تو بڑے دلچسپ حقائق نظر آتے ہیں۔ مثلاً سالانہ آمدنی کے لحاظ سے ٹرکی امیر ترین اسلامی ملک ہے لیکن ٹرکی کے مقابلے میں سوئٹزر لینڈ کی سالانہ آمدنی دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا سب سے بڑا ملک ہے ، اس کی فی کس سالانہ آمدنی ترکی اور مصر سے بھی کم ہے۔
تعلیم کے شعبے میںآبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک پاکستان ہے لیکن اس کی آبادی تعلیم میں سوائے سوڈان کے سب سے نیچے ہے۔ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس جو سارے اشاریوں کی اوسط بتاتا ہے اس میں صرف ترکی ۴۸ ویں نمبر پر ہے ورنہ باقی کے ملک آبادی میں زیادہ اور انڈکس میں نیچے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مسلمان دنیا کے اقتصادی، معاشرتی اور مساوات کے ترازو میں بہت پیچھے ہیں۔مثلاً سوڈان سب سے نیچے، اس کے بعد پاکستان اور پھر نائیجیریا۔
یہ تو تھی دنیا میں مسلمانوں کی آبادی۔اب نوٹ فرمائیں، امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی کے اعداد و شمار۔ایک حوالے کے مطابق اسلام امریکہ میں عیسائیت اور یہود کے بعد تیسرا بڑا مذہب ہے۔ امریکہ میں 3.45 ملین مسلمان ہیں۔یہ تحقیق سن ۲۰۱۷ء میں کی گئی تھی، جو کل آبادی کا ۱ء۱ فیصد بنتا تھا۔ امریکہ کے مسلمان نسلی لحاظ سے سب سے زیادہ متنوع گروہ ہیں، جن میں ۲۵فیصد سیاہ فام، ۲۴ فیصد سفید فام، ۱۸ فیصد ایشیائی، ۱۸ فیصد عرب، ۷ فیصد ملی جلی نسل اور ۵ فیصد ہسپانوی ہیں۔تقریباً ۳۱ فیصد یا ہر دس میں سے تین مسلمان گریجویٹ تھے۔ جن میں سے ۱۱فیصد کے پاس ماسٹرز کی ڈگری تھی۔اوسطاً نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی نسبت مقامی مسلمان کم پڑھے لکھے تھے۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی قابل غور امر ہے کہ دوسرے امریکنوں کے مقابلے میں تین گنا مسلمان کے پاس ملازمت نہیں تھی اور وہ کام کی تلاش میں تھے۔
سب سے زیادہ مسلمان (تقریباً پونہ ملین) نیو یارک کی ریاست میں تھے۔ نصف ملین کیلیفورنیا میں، بتدریج اس سے کم الی نوئے ، نیو جرسی، ٹیکسس، مشیگن، میری لینڈ، ورجینیا، پینسلوانیا اور میسو چو سیٹس میں۔ ایک جائزے میں پوچھا گیا کہ کیا امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف بہت تعصب پایا جاتا ہے، تو ۷۵ فیصد نے کہا ہاں۔یہ جائزہ ۲۰۱۷ء میں کیا گیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلے حکومت کے دوران۔ ۶۸ فیصد جواب دہندہ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے وہ فکر مند ہیں۔۶۲ فیصد کا کہنا تھا کہ مسلمان امریکہ کے بڑے دھارے کا حصہ نہیں ہیں۔ پچاس فیصد نے کہا کہ حالیہ چند سالوں میں امریکہ میں مسلمان کی زندگی زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔اسی جائزے کے مطابق کم از کم نصف جواب دہندگان نے بتایا کہ ان کے ساتھ مذہبی تعصب برتا گیا تھا۔اکثر مسلمان کہتے تھے کہ ٹرمپ امریکی مسلمانوں کے ساتھ غیر دوستانہ رویہ رکھتا تھا۔اور ۶۶ فیصد کی رائے تھی کہ صدر ٹرمپ کا بحثیت صدر رویہ صحیح نہیں تھا ۔امریکی میڈیا بھی اکثر مسلمانوں کی نظر میں،اسلام اور مسلمانوں پر معاندانہ رویہ رکھتا تھا۔
اسلامی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں، تو مسلمان مشائخ اور حاکموں نے مسلمانوں کو سائیٹیفک علوم اور تعلیم سے منع کیا۔ اور ان کوکہا کہ صرف مذہب کے پانچ ارکان پر عمل کریں:کلمہ، نماز، روزہ، حج اور ذکاۃٰ۔ مسلمانوں کو قران کی تلاوت کا حکم دیا جاتا تھا لیکن اس کو سمجھ کر پڑھنے کا نہیں۔اگر وہ تلاوت کرتے تو اچھے مسلمان سمجھے جاتے تھے۔اس طرح، عموماً مسلمان غیر مسلموں کی نسبت کم پڑھ لکھے ہیں، ان کی آمدن بھی ان سے کم ہے اور بنیادی طور پر وہ مغربی صنعت یافتہ اقوام کے تحت ہیں اور ان کی نقل کرتے ہیں۔ مسلمان اقوام متحد نہیں اور نہ ہی مغرب ان کی متحد ہونے کی کوششوں کو سراہتا ہے۔مسلمان ممالک اپنی آبادی کی کثرت کے باوجود کہیں بھی فائدہ نہیں اٹھاتے، نہ اپنے وسائل کے استعمال میں اور نہ ہی سیاست میں۔ پاکستان، جو واحد ایٹمی طاقت ہے، وہ امریکہ اور برطانیہ کی ذیلی ریاست سے بڑھ کر کچھ نہیں۔مسلمان ممالک اتنے کمزور ہیں کہ باوجود اپنی تعداد کے، ان کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ تین ملین فلسطینیوں کابے دریغ قتل ہونے اور تباہی سے نہیں بچا سکتے۔غزا کے علاوہ مغربی کنارے اور لبنان کو بھی تباہی سے نہیں بچا سکتے۔
مسلمانوں کے زیادہ تر ملک نہ صرف غربت اور معاشی نا ہمواریوں کی دلدل میں ہیں، ان کے حکمران بھی زیادہ تر مطلق العنان اور جابر ہیں۔اکثر اپنے قرضوں کی وجہ سے بین الاقوامی اداروں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔سابق سامراجی حکمران ابھی بھی ان غریب ملکوں کا خون نچوڑتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ممالک اپنے عوام میں جمہوریت کی اقدار پیدا کریں، اپنے تعلیمی نظام میں سائینس اور سائینسی فکر کو داخل کریں۔سب سے زیادہ و ہ اپنے انداز فکر میں اور عمل میں حقوق العباد کو اول ترجیح دیں اور پانچ ارکان کو دوسری۔ ڈجیٹل انقلاب کو سینے سے لگائیں، بشمول مصنوعی ذہانت کے،اور اپنے بچوں کو صحیح اخلاقی تعلیم دینے کے لیے ان چیزوں کو استعمال کریں جو بچے شوق سے دیکھتے ہیں۔انہیں سمجھائیں کہ صراط ال مستقیم کیا ہے؟حقوق انسانی کو سمجھیں اور ان کی حفاظت کریں۔ معاشی اور اقتصادی ترقی اور معاشرتی انصاف کو پہلی ترجیح بنائیں۔
0