ستر کی دہائی کا زمانہ تھا۔ ایک پی ٹی وی تھا اور ایک ریڈیو پاکستان تھا۔ فوج جو کچھ پاکستانیوں کو دکھانا چاہتی تھی عوام صرف وہ ہی دیکھ اور سن پاتے تھے۔ مونو لاگ پروپیگنڈا کازمانہ تھا اور کبھی کبھار بی بی سی کے ذریعے اتفاقاً پاکستانی سینسرڈ نیوز کے مقالے پر اختلافی نیوز آجاتی تھی جس کی تردید وزارت دفاع اور وزارت اطلاعات بڑی سختی سے کرتے ہوئے بی بی سی کی نشریات کو جھوٹ کا پلندا قرار دے دیتے تھے۔ پھر زمانہ بدلہ اور جنرل پرویز مشرف نے ملک میں پرائیویٹ چینلز کھولنے کا اعلان کر دیا، ہمارے خیال میں وہ واحد اچھا کام تھا جو مشرف نے کیا تھا، اس کے بعد سوشل میڈیا کا جن باہر آگیا اور اوپر سے سمارٹ فون آگیا۔ اب لوگوں کو پوری دنیا کی خبریں سیکنڈ بائی سیکنڈ اور فریم بائی فریم ملنا شروع ہو گئیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح پاکستان میں اس کا توڑ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بندشیں لگا کر کرنے کی کوشش کی گئی مگر پاکستانیوں نے اس کا توڑ بھی معلوم کر لیا۔ اس وقت فوج نے ملک میں میڈیا پر سخت ترین سینسر شپ عائد کی ہوئی ہے۔ ملک کے 110پرائیوٹ چینلز اور 7سٹیٹ رن چینلز پر ایک ایک لیفٹیننٹ یا بریگیڈیئر یا آرمی پرسنل بیٹھا ہوا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایک ایک جملہ ایک ایک تصویر اورایک ایک ویڈیو ریل آرمی کی سینسر شپ پالیسی کے مطابق ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً سارے ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز، نیوز نمبر 2، نیوز نمبر 3 اور نیوز نمبر 4 بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ ان جنرلوں کی اس نئی جاب نے پاکستانیوں کو 117ٹی وی چینلز سے دور کر دیا ہے۔ بقول شاعر
برباد گلستان کرنے کو صرف ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجام ِگلستان کیا ہو گا!
ان اُلوئوں کی سینسر پالیسی کی وجہ سے تمام لوگ اب سوشل میڈیا سے رجوع کرتے ہیں اوران پرائیویٹ چینلز کی ویور شپ قدرے گھٹ گئی ہے اور آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ناظرین اب صرف ان ٹی وی چینلز کے ڈرامہ چینلز کو زیادہ دیکھتے ہیں چونکہ وہاں پر انہیں جعلی جھوٹی اور فیک نیوز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اس ہفتے بھی سوشل میڈیا پر دو پاکستانی سیاسی اور عدالتی بھگوڑوں کی ویڈیوز بہت وائرل ہوئی ہیں۔ ایک تو سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی ہے جن کا استقبال ان کے گھر کے سامنے ایون فیلڈ میںبرطانوی نژاد پاکستانیوں نے تحقیر آمیز نعروں اور بینرز سے کیا۔ ان کے اعزاز میں دیکھو دیکھو کون آیا، چور آیا بھئی چورآیا اور مریم کا بابا چور ہے اور ہتک آمیز نعرے اور بینرز لہراتے رہے اور زبردست دھکم پیل کے بعد میاں صاحب لندن میں خود اپنے ہی گھر میں شرمساری کے ساتھ داخل ہوئے۔ لندن کے ایئرپورٹ سے تو موصوف پچھلی گلی سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ پہنچ کر عوامی غیض و غضب سے نہ بچ سکے۔ واضح رہے کہ یہ چوتھی مرتبہ ہے جب پاکستانی عوام اور خود نواز شریف کے کارکنوں نے میاں صاحب کے بھگوڑے پن کا نظارہ کیا ہے۔
دوسری ویڈیو جو وائرل ہوئی ہے پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لندن پہنچنے کی ہے۔ قاضی صاحب بھی ایئرپورٹ سے تو بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر جب وہ لندن کے مڈل ٹمپل ہال میں ایک تقریب میں شرکت کرنے آئے تو برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی طرف سے شدید بے عزتی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں PTIکے زلفی بخاری، ملیکہ بخاری اور اظہر مشوانی کے علاوہ کافی برطانوی بیرسٹرز بھی شریک تھے۔ گو قاضی گو، قاضی تیزی زندگی، شرمندگی شرمندگی اور لعنت لعنت جیسے نعروں سے اس شخص کا استقبال سوشل میڈیا پر بار بار دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ وائرل ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی میں پچھلی سیٹ پر قاضی فائز عیسیٰ اپنا منہ گھٹنوں میں چھپائے سر جھکائے بیٹھے ہیں جبکہ اہلیہ سرینا فائز عیسیٰ نے بھی اپنا چہرہ کالے دوپٹے یا اسکارف سے چھپایا ہوا ہے اور منہ نیچے کئی بیٹھی ہیں۔ پاکستانی اور برطانوی مظاہرین اُردو اور انگلش میں پلے کارڈ لئے ہوئے اُردو اور انگلش میں نعرے بازی کررہے ہیں۔ یہ وہ قاضی ہے جو اپنے عہدے پر چند دنوں پہلے ہی فرعون بنا بیٹھا تھا اور غیر انسانی، غیر جمہوری اور یکطرفہ فیصلے صادر کررہا تھا۔ ہم کہتے رہے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ آپ جتنے بھی غیر منصفانہ فیصلے کر لیں جو عوامی اور قانونی لحاظ سے متعصب ہوں مگر ایک دن آپ نے اپنے اقتدار سے نیچے بھی اترنا ہے اور اس وقت آپ کی اصل تصویر یا تحقیر سامنے آنی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے ہم یہ نظارے اسی سال ایک اور چیف قمر جاوید باجوہ کے بھی دیکھ چکے ہیں۔ بقول غالب
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو
ایسے میں ایک اور آرمی کے وزیر داخلہ محسن نقوی کا بیان سامنے آیا ہے کہ لندن میں پاکستانیوں کے فوٹیجز سے ان لوگوں کا نادرا سے ریکارڈ نکال ان سب کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی جائے گی اور سزائیں دی جائیں گی۔ پاکستان واپس بلوا کر محسن نقوی صاحب شاید آپ کے دولہا بھائی جان عاصم منیر کی طرح آپ بھی ستر کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔آج دنیا میں کسی بھی خطے کے لوگ بشمول پاکستانی اپنی ہتھیلی کے اوپر ایک ڈیوائس جسے سمارٹ فون کہا جاتا ہے لیے پھرتے ہیں۔ وہ گئی بات پاکستان بلوا کر نادرہ سے شناخت کروا کر سزائیں دلوانے کی تو ،اطلاعاً عرض ہے کہ زیادہ تر مظاہرین برٹش پاکستانی ہیں جن پر آپ کی ایک بھی دھاندلی اور تڑی نہیں چلے گی جبکہ جو برطانوی شہری تھے ان کے خلاف کی سزائیں آپ تجویز کریں گے۔ سب سے پہلے تو ذراآپ اپنی اوقات سے آگاہی فرمالیں۔ چھ ہفتوں سے غائب انتظار پنجوتھاکو توآپ برآمد نہ کر سکے جس کا نادرا کا ریکارڈ بھی آپ کے پاس ہے، شناختی کارڈ کا نمبر بھی موجود ہے اور اس کے اوپر فنگر پرنٹس بھی دستیاب ہیں۔ یہ ہے آپ کی کارکردگی اور اوقات اور تڑیاں آپ بڑی بڑی لگارہے ہیں۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ یہاں شاید کچھ لوگ ذرا کلچرڈ بننے کی کوشش کریں گے اور بڑے تہذیب یافتہ لوگوں میں اپنا شمار کرتے ہوئے تنقید کریں گے کہ نہیں نواز شریف اور فائز عیسیٰ کیساتھ اس طرح سے غیر مہذبانہ برتائو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اختلاف رائے تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ سرینا عیسیٰ کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔ ان مہذب لوگوں کیلئے جواب یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص بار بار بھگوڑا بنے گا، غیر منصفانہ اور متعصبانہ فیصلے کرے گا جو عوامی خواہشات کے سراسر مخالفت ہو تو پھر ردعمل کیلئے بھی تیار رہیں۔ یہ کسی گروہ یا کسی سیاسی پارٹی تک محدود نہیں رہتا ہے، عوام الناس کا مجموعی رسپانس ہوتا ہے۔ جب قاضی فائز عیسیٰ کو کرسٹیز ڈونٹ کے کیشیئر نے لعنت بھیجی تھی وہ پی ٹی آئی کا یا جماعت اسلامی کا کارکن نہیں تھا بلکہ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے اس نے قاضی کے فیصلوں کے تناظر میں اپنا ردعمل دیا تھا اور ہم ان نام نہاد کلچرڈ اور مہذب لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ اگر سرینا عیسیٰ کا ایک عورت کی حیثیت سے خیال رکھنا ضروری تھا تو جب بشریٰ بی بی کی عدت اور ماہواری کی باتیں اس فائز عیسیٰ اور سرینا عیسیٰ کی نگرانی میں کی جارہی تھیں تو وہ کلچرڈ اور مہذیب اور تہذیب یافتہ لوگ کہاں تھے۔ لہٰذا جب بغداد میں صدر بش کے منہ پر جوتا مارا جاتا ہے اور فرنچ صدر ایمونیل کو ایک شخص منہ پر تھپڑ مارتا ہے تو یہ ردعمل جب ہوتا ہے جب آپ کو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ اس ہفتے ہی صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم صفدر نے عمران خان کو فتنہ کہتے ہوئے مارنے کی دھمکی دی ہے تو مہذب لوگ کہاں ہیں، کسی نے اس چارمہینے میں بچہ پیدا کرنے والی عورت کی مذمت کی؟ بشریٰ بی بی کی عدت پر انگلی اٹھانے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ بچہ نو ماہ کے حمل کے بعد پیدا ہوتا ہے تو مریم بی بی نے شادی کے چار ماہ بعد ہی کیسے بچہ پیدا کر لیا؟ کوئی مولوی اس عورت کی حرام کی اولاد کے خلاف کوئی ایک بھی پٹیشن لیکر کسی بھی عدالت میں گیا؟ بشریٰ بی بی کی عدت اور ماہواری کی سائیکل کو زنا قرار دینے والوں نے قاضی عیسیٰ سمیت، کبھی مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کے اس زنا کے خلاف آواز بلند کی؟ لہٰذا کلچرڈاور مہذب لوگوں اتنی کھلی منافقت نہ کرو۔ یہ ہی وہ ناانصافیاں ہیں جس کے خلاف تحریک انصاف اور عمران خان آج بھی کھڑے ہیں۔
0