0

تاجروں کی ہڑتال، یوٹیلٹی سٹور ملازمین کا دھرنا، حکومت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے

28 اگست کو پورے ملک میں تاجروں کی طرف سے کال پر کامیاب ہڑتال ہوئی۔ چھوٹی بڑی تقریباً ہر شہر کی مارکیٹیں بند رہیں۔ تاجر برادری نئے ٹیکس کا اعلان ہونے پر یہ ہڑتال کررہی ہے۔ اس سے پہلے تاریخ میں تاجر برادری ایک اور کامیاب ہڑتال بلکہ ہفتوں ہڑتال کر چکی ہے یہ پرویز مشرف کے مارشل لاء لگانے کے پہلے دور میں ہو چکی ہے جب پرویز مشرف کو ڈنڈے کا بڑا زعم تھا لیکن تاجر برادری بھی اپنی بات پر اڑی رہی پرویز مشرف کو اس وقت کے جنرل سیکرٹری تاجر برادری ایسوسی ایشن رانا ہور علی خان کو ویزا لگوا کر امریکہ بھجوانا پڑتا ہے لیکن پرویز مشرف کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ ان کو اپنے فیصلے ہفتوں بعد بھی واپس لینے پڑے تھے۔ آج کل پھر وہی حالات ہیں۔ حکومت عملی طور پر دیوالیہ ہورہی ہے۔ اب کوئی ادھار بھی نہیں دیتا۔ آئی ایم ایف دبائو بڑھاتی چلی جارہی ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھائو پٹرول کی قیمت بڑھائو، ان قیمتوں کے بڑھنے کا اثر پوری معیشت پر پڑتا ہے۔ اس سے ہر چیز مہنگی ہوتی چلی جاتی ہے۔ عام آدمی غریب ہوتا جاتا ہے معیشت تباہ ہوتی جاتی ہے۔ لوگ بھوکے مرنے لگے ہیں۔ چوری ڈاکہ قتل عام بڑھتا جارہا ہے۔ معاشرہ تباہ ہوتا جارہا ہے لیکن آرمی چیف کے کان پر جوںتک نہیں رینگ رہی۔
اجمل بلوچ صدر آل پاکستان انجمن تاجران نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے عقل کے ناخن لے ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ حکومت بجائے تاجروں پر ٹیکس لگانے کے اپنے خرچے کم کرے فوج میں جو لوٹ مار مچی ہوئی ہے اس پر کنٹرول کرے۔ وزراء کی لائن لگی ہوئی ہے بقول سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی حکومت ہر وزیر اور ایم این اے کو ترقی کے کاموں کے نام پر اربوں روپے کی رشوت دیتی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ وزیراعظم اگر چاہے تو اپنے اور وزراء کے اخراجات میں اربوں روپے بچا سکتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اخراجات بڑھتے ہی جاتے ہیں تازہ ترین حکومت نے تاجر برادری کے دبائو پر نیا ٹیکس ریٹرن فارم شائع کیا ہے۔ وہ اس کی وجہ سے تاجروں کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی ہڑتال کو کمزور کرنا یا ختم کروانا چاہتے ہیں دیکھیں حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں لیکن معاشی طور پر حکومت اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے یہ حکومت کب جائے گی کیسے جائے گی پتہ نہیں۔
دوسرا حکومت پر دبائو یوٹیلٹی سٹور کے ملازمین کی ہڑتال اور دھرنا ہے اس وقت اسلام آباد میں دھرنا جاری ہے ان لوگوں نے الٹی میٹم دیا ہے اگر ان کی مانگیں نہ مانی گئیں تو وہ ڈی چوک میں جا کر بیٹھ جائیں گے اور پھر جب تک مطالبات پورے نہیں ہونگے وہ اٹھ کر نہیں جائیں گے حکومت اس وقت بے بس نظر آرہی ہے۔ ابھی تک ان سے عمران خان نہیں سنبھل رہا تھا اس کی جتنی بھی سزائیں تھیں وہ ایک ایک کر کے کالعدم ہوتی جارہی ہیں ان کے پاس اب جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے یا تو وہ نئے مقدمات بنائیں یا پھر عمران خان کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کریں لیکن عمران خان مسلسل عوام کو پیغام دیتے جارہے ہیں ظالموں کے آگے نہیں جھکنا ہے۔ اب حکومت ہر مطالبے پر جھکتی جارہی ہے چاہے وہ کاروباری حضرات کے مطابق ہوں یا پھر یوٹیلٹی سٹورز کے ملازمین ہوں ملک میں اس وقت جتنی بے چینی اور انتشار ہے کوئی بھی تحریک یا انتشار ملک کو معاشی کے علاوہ سیاسی طور پر تباہ کر دے گا۔ بنگلہ دیش کے طلباء کی موومنٹ نے پاکستان میں سیاسی طور پر ایک بیداری پیدا کر دی ہے۔ عمران خان بار بار طلباء کو بنگلہ دیش کی مثال دے رہے ہیں۔ شہباز شریف تو بل میں گھسا ہوا ہے اس کی دو ٹکے کی بھی اوقات نہیں ہے اصل مسئلہ فوج اور عاصم منیر کا ہے ان سے اقتدار کیسے چھینا جائے گا آیا فوج کے اندر سے کوئی اقدام ہو گا یا پھر طلبا سڑکوں پر مارچ کریں گے اور فوج کے نوجوان گولی چلانے سے انکار کر دیں گے۔ فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعد عاصم منیر کو بھی اپنے کورٹ مارشل کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ فوج میں مسلسل بے چینی بڑھ رہی ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی ریٹائر ہوتا ہے یا استعفیٰ دیتا ہے۔ دنیا کی قوتیں بھی خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہیں۔ برطانیہ کی سفیر ایک قدم آگے بڑھ گئیں وہ سیاستدانوں سے ملاقات کرنے لگ گئیں اور سیاسی بیانات دینے شروع کر دئیے۔ نہ وزارت خارجہ روک سکی اور نہ فوجی حکومت کا کوئی کارندہ روک سکا۔ یہ ہے ہماری فوجی اور سیاسی حکومت ۔بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ فوجی جوان اور پولیس والے شہید ہورہے ہیں۔ غرضیکہ ہر طرف پریشانیاں اور مشکلات ہیں دیکھیں آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں