0

ساری خدائی ایک طرف، جورو کا بھائی ایک طرف!

جب دو سال قبل میاں برادران کی آشیرباد کے ساتھ جنرل سید حافظ عاصم منیر احمد شاہ حسب روایت سپاہ سالارِ پاکستان اپنے بادشاہ کے حضور سعودی عربیہ پہنچے اور حاضری لگوائی تو انہیں بادشاہ نے شرف باریابی کے بعد اندرون خانہ کعبہ کی زیارت کی بھی اجازت دی۔ اس وقت میڈیا میں جنرل شاہ صاحب کی اندرون کعبہ سے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے تصاور اور ویڈیوز دکھائی دیں۔ اترنے والوں کی قطار میں دیگر سرکاری عہدیداوں کے ساتھ قطار میں ایک شخص محسن نقوی بھی دکھائے دئیے گئے جن کے پاس نہ کوئی عہدہ تھا اور نہ ہی کوئی گورنمنٹ کے اہلکار تھے۔ اس وقت ہم نے اسی کالم اور نیوز ویوز کے سیگمنٹ میں سوال کیا تھا کہ یہ شخص حافظ جی کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر کس پروٹوکول اور کس حیثیت میں گیا ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ محسن نقوی کو پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد جب فارم سنتالیس کی حکومت شاہ صاحب نے قائم کی تو محسن نقوی کو اپنے نمائندے کے طور پر ملک کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد وزیر داخلہ کے ساتھ محسن نقوی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد حافظ جی نے پاکستان سینیٹ کا ممبر بھی بنوا دیا۔ اب آپ سوچیں گے کہ یہ شخص یقینا بہت زیادہ قابل، اہل اور کوالیفائیڈ ہو گا کہ جسے ایک ہی وقت میں تین تین اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ چلیے ہم آپ کو بتائے دئیے دیتے ہیں۔ محسن نقوی کی واحد کوالیفکیشن یہ ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کی اہلیہ سیدہ ارم نقوی کے بھائی ہیں۔ یعنی وہ جو ہم بچپنے سے کہاوت سنتے آئے ہیں کہ ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف، اس کا عملی مظاہرہ آج مملکت خداداد پاکستان میں ہورہا ہے۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ 25کروڑ کے اس ملک میں کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں ہے جو ایک کے علاوہ بقیہ عہدوں کے لئے کوا۴۳
لیفائی کر سکے۔ پاکستان کے ایک اور سیاسی ڈاکو آصف علی زرداری ماضی کے بمبینو سینما کے ٹکٹس بلیک میں بیچنے والے دلدل اور حالیہ پاکستان کے صدر بھی محسن نقوی کو اپنا منہ بولا بیٹا کہتے ہیں اور اگر آپ کو یاد ہو، پچھلے دنوں لاہور میں ایک خاتون ایس ایچ او کو جنرل عاصم منیر نے اپنے ASPمیں بلا کر اسناد عطا کی تھی ان کا نام شہر بانو نقوی ہے جو کہ عاصم منیر کی بیوی کی بھانجی ہیں تو گویا جو ادارے فوجیوں اور جرنیلی ٹولے کے گماشتوں سے بچ رہے ہیں وہاں حافظ جی نے اپنے خاندان والوں کو بٹھا دیا ہے تاکہ ڈاکے سے بچا ہوا مال گھر میں ہی رہے۔ سنا ہے جتنے سرکاری اشتہارات آج کل ٹی وی سٹی 42کو مل رہے ہیں اس کی وجہ سے باقی ٹی وی چینل والے بہت اوازار ہیں۔ آپ کو پتہ ہے ٹی وی چینل سٹی 42کس کا ہے؟ محسن نقوی کا، صرف City42ہی نہیں بلکہ محسن نقوی کے پانچ دیگر ایک اخبار سمیت میڈیا چینلز ہیں جنہیں سرکاری اور فوج کے اشتہارات سے نوازا جارہا ہے۔
اس وقت پاکستان کے سارے میڈیا پر حالیہ بلوچستان میں ایک دن میں ستتر ہلاکتوں کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی کا وہ بیان دن میں اڑتالیس مرتبہ ہر نیوز ٹی وی پر چل رہا ہے کہ جن دہشت گردوں نے ایک دن میں آرمی اور سویلین کو ملا کر 70لوگوں کو دہشت گردی کا نشانۂ اجل بنایا ہے وہ تو صرف ایک ایس ایچ او کی مار بھی نہیں ہیں۔ یہ بیان کسی بھی میڈیا کو ہر قسم کی سینسر شپ کے باوجود ہضم نہیں ہورہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی فوج، پاکستانی خفیہ ادارے، پاکستانی رینجرز سخت نااہل اور نکمے ہیں جوان دہشت گردوں کو ٹھکانے نہیں لگا سکتے بلکہ ایک کوٹے پر آیا ہوا جاہل ایس ایچ او بھی ان کو کنٹرول اور پاش پاش کر سکتا ہے۔ اصل میں محسن نقوی سے بھول چوک ہو گئی ان کو کہنا چاہیے تھا کہ ایک ASPشہر بانو نقوی کی مار بھی نہیں ہیں دہشت گرد۔ یہ ہیں ہمارے ملک کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور ان کی جملے بازیاں اور کارکردگیاں۔ اتنے بڑے بلوچستان کے سانحے کے بعد اگر کسی اور ملک کا وزیر داخلہ ہوتا تو کب کا استعفیٰ دے کر گھر جا چکا ہوتا۔ مگر کیا کریں، ہمارے ملک میں جنرل عاصم منیر اور محسن نقوی اور شہباز شریف اور قاضی عیسیٰ اور آصف زرداری اور وزیر دفاع خواجہ آصف اور مریم نواز جیسے بے غیرتوں کی کمی تھوڑا ہی ہے لیکن آپ دل برداشتہ نہ ہوں جلد ہی ان کا حشر بھی بنگلہ دیش جیسا ہی ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ محسن نقوی نہ صرف ایک ناکام اور سفارشی وزیر داخلہ ہے بلکہ وہ ایک ناکام ترین پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بھی ہیں۔ ان کے اس عہدے پر آنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نہ صرف ورلڈ کپ ہاری،امریکہ کی پارٹ ٹائم شوقیہ کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم سے ہاری بلکہ اس ہفتے ایک نیا کرکٹ ریکارڈ قائم کیا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرکٹ میچوں میں پہلی مرتبہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم سے بھی ہار گئی۔ بات پھر استعفے کی آتی ہے مگر تف ہے ایسے بے ضمیر اور بے غیرت شخص پہ۔ امور داخلہ کی صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کے شہریوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر بس سے اتار تار کر بی ایل اے کے دہشت گرد قتل کررہے ہیں، فوج کے جوانوں کو ٹرکوں سے اتار کر گالیاں مار کر ہلاک کیا جارہا ہے اور کانوائے کو آگ لگائی جارہی ہے، اہل تشیع کو پارا چنار میں شناختی کارڈ دیکھ کر ان کے چہروں کی گلگتی اور بلتستانی ساخت دیکھ کر گردنیں اتاری جارہی ہیں، کراچی میں گولیمار میں شیعہ، سنی فسادات میں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں مگر وزیر داخلہ خاموش ہیں، جنرل اور بریگیڈیئرز منہ بند کئے ہوئے ہی۔ اب یہ بات صرف شاعر احمد فرہاد ہی نہیں ہر ایک کھلے عام کہہ رہا ہے کہ فوج مشوانی کے بھائیوں کو اغوا کیا ہوا ہے، فوج نے اوریا مقبول جان کو اٹھا ہوا ہے، فوج نے ڈاکٹر شہباز گل کو غائب کیا تھا، جنرل عاصم منیر نے ہی وی لاگر ایس احمد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا ہے۔ فوج نے ہی ارشد شریف کو بھی مروایا تھا اور فوج نے ہی بے شمار ٹی وی اینکرز کی پھینٹی لگوائی تھی، ظاہر ہے جب جرنیلی ٹولے کو اپنے مخالفین کو اٹھوانے، مروانے اور اڈیالہ جیل صبح سویرے ملاقات کرانے سے فرصت ملے گی تو پھر وہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی طرف دھیان دے گی۔ مگر جرنیل یہ سمجھ لے کہ جب بقول فیض سب تخت گرائے جائیں گے تو اس میں ہماری بہادر فوج کے جوان نہیں ہوں گے بلکہ یہ جرنیلی ناخدا ہوں گے، ایک عام فوجی اور سپاہی تو ہمارے ماتے کا جھومر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں