کھیل
کھیل اب ہو نیا سیاست کا
کوئی اڑچن نہ کھیل میں آئے
بند ہو در ہر ایک زندان کا
کوئی رہبر نہ جیل میں آئے!
ایک اندازے کے مطابق بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن یہ جمہوریت صرف نام کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی ’’فسطائیت‘‘ ہے جس نے بھارت بھر میں اقلیتوں کو عموماً اور مقبوضہ کشمیر کو خصوصاً جیل میں تبدیل کررکھا ہے۔ بھارت بھر کے مسلمان تو بھارتی فسطائیت کا نشانہ بنتے ہی رہتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کے مسلمان گزشتہ تقریباً 77 سال سے قیدیوں کی سی زندگی بسر کررہے ہیں تقریباً 9 لاکھ فوج انہیں اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور اس فوج نے عموماً زندگی گزارنا تو ایک طرف لوگوں کا سانس لینا بھی دشوار کر دیا ہے کشمیری صرف اور صرف اپنا یہ حق مانگتے ہیں کہ انہیں اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے۔ دنیا کی آواز بننے والی اقوام متحدہ بھی یہ قراردادیں منظور کر چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو حق خودارادیت دیا جائے لیکن ہٹ دھرم بھارت کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسری اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ آئے دن اگر مساجد شہید کی جاتی ہیں تو چرچ بھی آتشزدگی کا نشانہ بنتے ہیں اور خود ہندوئوں کے ایک نچلے طبقے ’’اچھوت‘‘ بھی بھارت کی فسطائیت کا شکارہیں۔ بھارت کی متعصبانہ ذہنیت کا تازہ ’’شاہکار‘‘ سامنے آیا ہے۔ تفصیل اس ذہنیت کی یہ ہے کہ 21 اکتوبر 2010ء کو معروف زمانہ بھارتی مصنفہ اور جانے پہچانے دانشور شیخ شوکت نے دلی کی ایک کانفرنس میں بھارت کے ظلم و تشدد کو آشکار کیا۔ واضح ہو گیا معروف مصنفہ ’’اروندھتی رائے‘‘ اور کشمیر سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت اپنی ’’سچ بیانی‘‘ کے لئے مشہور ہیں اور حق بات کہنے سے کبھی ہچکچاتے نہیں ہیں۔ ان دونوں کے خلاف بھارت کی متعصب حکومت اب جاگی ہے اور ان کی ۱۴ سال پرانی تقریر کو وجہ بنا کر نئی دلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکبینہ نے ان دونوں کو کالے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ کالا قانون ’’ یواے پی اے‘‘ کہلاتا ہے جس کے تحت سخت سے سخت سزا دی جا سکتی ہے۔
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا کہئے!
صورت احوال یہ ہے کہ چند سال پہلے بھارت کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کر چکا ہے تاحال ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہزاروں افراد جیل کی اندھیری کوٹھریوں میں بند ہیں۔ بھارتی فوج آئے دن کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں اور جوان افراد کو ’’جاسوسی‘‘ کے الزام میں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں پھر ان جوانوں کا پتہ نہیں لگتا۔ بھارتی فوجی درندے نہ صرف بے گناہ معصوم کشمیریوں کو ظلم و ستم اور ناروا سلوک کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ یہ ظالم کئی بار عصمت دری کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جنہیں دنیا بھر میں BUTCHER OF GUJRATکے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوتوا کا کارڈ کھیل کر بھارت کے وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے ۔ حالیہ عام انتخابات میں انہوں نے کم سے کم انتخاب میں 400نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب حالات نے ایک کروٹ لی ہے اور انہیں 300سے بھی کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ اب پارلیمنٹ میں صرف اپنی مرضی سے کوئی بھی قانون پاس نہیں کراسکتے۔ مردہ کانگریس میں جان پڑنی شروع ہو گئی ہے اور باخبر افراد کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخاب میں کانگریس برسراقتدار آجائے گی خدا کرے کہ ایسا ہو جائے کہ کانگریس مسلمانوں کے جائز حقوق کی بہت بڑی حامی ہے۔ یہ پنڈت جواہر لال نہرو، گاندھی اور مولانا آزاد کی میراث ہے جو ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑی حامی تھے۔ پاکستان کے وزیراعظم محترم شہباز شریف نے نریندر مودی کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے جس پر نریندر مودی نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات بھی بحال ہو جائیں گے جس کے لئے پاکستان میں کچھ لوگ کام کررہے ہیں۔ اب دنیا ایک ’’عالمی گائوں‘‘ Global Villageبن چکی ہے اور پل میں ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ ہم بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے درخواست کریں گے کہ حالات حاضرہ کا عرفان کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اپنے رویے کو تبدیل کریں ورنہ آئندہ انتخاب میں شکست ان کا مقدر بن جائے گی۔ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے بھارت اب تک کتنے ذرائع استعمال کر چکا ہے اس پر بھی مودی صاحب کو سوچنا چاہیے۔ ایک اچھے پڑوسی کی طرح انہیں پاکستان سے معمول کے تعلقات بحال کرنے چاہئیں تاکہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو ورنہ تاریخ کا یہ فیصلہ یاد رکھیں کہ؎
ہمیں یقین ہے کہ کشمیر کے جیالے اب
حصار پنجہ بیداد گر سے چھوٹیں گے
جہاں جہاں بھی شہیدوں کا خون گرا ہو گا
وہیں وہیں سے ہزاروں گلاب پھوٹیں گے!
0