0

عدت میں شدت!

کیا جنرل حافظ سید عاصم منیر احمد شاہ اپنی اہلیہ ارم عاصم منیر احمد شاہ کی عدت اور ماہواری کے تذکرے نیشنل ٹی وی اور عدالت میں بیان ہونا پسند کرینگے؟اسلام آبادہائیکورٹ کے چھ ججوں کے اس خط کی روشنی میں جس میں انہوں نے اس بات کی نشاندہی اور ثبوت پیش کئے تھے کہ عدالتوں میں براہ راست جنرلوں کے کہنے پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لوگ مداخلت کررہے ہیں اور اپنی پسند کے فیصلے کرواتے ہیں۔ اگر عدالت اور جج ان کی مرضی کے فیصلے جاری کرنے سے گریز کریں تو کبھی ان ججوں کے گھر کے بیڈروم میں ان کی پرائیویٹ لائف کے نجی معاملات کو ریکارڈ کر کے بلیک میل کیا جاتا ہے اور پھر بھی جج اور عدالت راضی نہ ہو تو اس جج کے رشتہ داروں کو اغواء کر کے ان کے پرائیویٹ جسمانی اعضاء پر کرنٹ دوڑایا جاتا ہے، اسکے باوجود بھی اگر ان کے پسند کے فیصلے دینے پر تیار نہ ہوں تو افغانستان کی سموں پر تحریک طالبان کے دہشت گردوں سے دھمکی آمیز کالز کرائی جاتی ہیں۔ یہ الزامات پی ٹی آئی یا جماعت اسلامی کی طرف سے نہیں لگائے گئے بلکہ ملک کے سب سے زیادہ قابل احترام ادارے عدلیہ اور اپنے امور کو آئین و قانون کی روشنی میں ادا کرنے کی کوششوں میں برسرپیکار ججوں نے جنرلوں پر لگائے ہیں۔ اس کے بعد اب پاکستان اور پاکستانیوں سمیت پوری دنیا اس بات کو جان چکی ہے کہ ڈمی حکومت کے پیچھے ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل حافظ سید عاصم منیر احمد شاہ کا غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہے۔ بنیادی حقوق معطل ہیں اور عدالتیں زیر عتاب ہیں۔ اس ہفتے جس دن عمران خان کی عدت کے مقدمے کا فائنل فیصلہ سنایا جانا تھا اس کے بجائے پاکستان کے ایک بے شرم اور بے غیرت شخص کو عدالت میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر گالیاں دینے کیلئے روسٹرم پر بلا لیا گیا۔ سب کو پتہ ہے کس کے کہنے پر خاور مانیکا کو عدالت میں لایا گیا، کس کے کہنے پر خاور مانیکا کے سرکاری وکیل رضوان عباسی کو بائی پاس کیاگیا اور کس کی ایماء پر جج شاہ رخ ارجمند نے خود کو اس کیس سے علیحدہ کر لیا۔ شاید جج شاہ رخ ارجمند کی کچھ پرائیویٹ لمحات کی ویڈیو جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی نے دکھا کر انہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا ہو۔ یعنی یہ سرکاری وکیل رضوان عباسی، خاور مانیکا، شاہ رخ ارجمند اور عاصم منیر کی ملی بھگت تھی۔ پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر حافظ جی نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوم تکبیر کے موقع پر اس کورٹ سے فائنل فیصلہ آنے والے دن یعنی 28 اکتوبر کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا اور پھر اگلے دن بے غیرت خاور مانیکا کو لانچ کر کے جج شاہ رخ ارجمند کے تعاون کے ساتھ کیس کو دوسرے جج یا عدالت پر موقوف کر دیا اور آخر کار فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ خاور مانیکا نے عدالت کے روسٹرم پر اُردو اور پنجابی کی جو غلیظ ترین گالیاں عمران خان کو دی جا سکتی تھیں وہ دیں۔ کورٹ میں موجود خواتین نے شیم شیم ،شرم کرو، شرم کرو کے نعرے بلند کر دئیے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے ایک پریس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس گھٹیا شخص مانیکا نے جج شاہ رخ ارجمند کی موجودگی میں گیارہ اور ستر مرتبہ حیض اور ماہواری کے الفاظ استعمال کئے جو پاکستان کی باون فیصد آبادی کا شرم سے سر جھکانے کا باعث بنے۔ ہم تصور کررہے تھے کہ اگر اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جب جنرل عاصم کے پاس کوئی پاور نہ رہے گی اور جنرل باجوہ کی طرح ان کی بھی بے توقیری کا سلسلہ شروع ہو گا اور ہر جگہ پر گالیاں دی جائیں گی تو ایسے ایک حافظ، ایک سید اور شاہ کی بیوی ارم عاصم منیر کا عدالت میں ٹرائل کرتے ہوئے، ان کی ماہواری، عدت اور حیض کے معاملات اٹھائے جائیں گے تو حافظ صاحب کیسا محسوس کریں گے؟ اس وقت جنرل عاصم منیر کو ویسے بھی ہر جگہ اور ایشو پر بڑی شرمناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود یہ بات مزید مستحکم اور کفرم ہوتی جارہی ہے کہ ریاست کو کون کنٹرول کررہا ہے۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو ہفتوں کی اٹارنی جنرل اور جج کیانی کے درمیان کج بحثی کے بعد آرڈر دیا کہ سیکٹر کمانڈر اور وزیر دفاع کو احمد فرہاد کی بازیابی کیلئے حاضر کیا جائے تو اس پیشی سے پہلے پہلے صحافی اور کشمیری شاعر احمد فرہاد خودبخود اپنے گھر پہنچ گئے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں برطانوی سفیر کے پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے تقریر کا جواب حکومت کے بجائے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے دلوایا گیا۔ پی ٹی آئی کے 1971ء میں اس وقت کے شرابی، کبابی اور زانی آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حمود الرحمن کمیشن کا عمران خان کےٹوئٹ کے حوالے سے اس کا جواب ٹائوٹ گورنمنٹ کے وزیروں سے دلوایا گیا۔ پھر بین الاقوامی اینکر مہدی حسن کا اڈیالہ سے لیاگیا انٹرویو کا جواب اس جاہل شخص شرجیل میمن سے دلوایاگیا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کے پیشاب کے کئے گئے ٹیسٹ میں شراب اور ڈرگ کے ٹریسنر ملے ہیں یعنی اپنی بدحواسیوں کا ہر ملکی، غیر ملکی اور سوشل میڈیا، عدالتوں اور اغواء اور ٹوئٹس کے جوابات جنرل عاصم منیر اداروں اور حکومتی اہلکاروں سے دلوانے پر مجبور ہیں مگر نہ ملکی سطح پر اور نہ ہی انٹرنیشنل لیول پر کوئی حافظ جی کی بات ماننے کو تیار ہے اور اسی دوران ہمارے جری فوجی جوان دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہورہے ہیں۔ کہاں ہے دنیا کی نمبر ون خفیہ ایجنسی؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں