پاکستانی جنرلوں کو اب ہیجڑوں کی مدد کیساتھ ملک میں مارشل لاء لگا دینا چاہیے اور جنرل عاصم منیر کو خسروں کا گرو بن جانا چاہیے اور آئی ایس آئی میں خسرہ ونگ قائم کر دینا چاہیے۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو ایک سیف سٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسرے شہروں کی نسبت اس شہر میں چونکہ سارے ممالک کے سفارتی مشن واقعہ ہیں، حکومت کا کاروبار یہاں ہی سے چلتا ہے اور گرین زون بھی یہاں پر ہی موجود ہے اس لئے اسلام آباد میں جگہ جگہ سکیورٹی کیمرے نصب ہیں اور جگہ جگہ سکیورٹی اہلکار بھی نظر آتے ہیں مگر بدقسمتی سے اسی شہرِریاست میں ایک کشمیری صحافی اور شاعر احمد فرہاد کو نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا۔ فرہاد کی اہلیہ کے مطابق رات کے پچھلے پہر چار باوردی افراد ایک ڈالے میں آئے اور شاعر کو گھسیٹتے ہوئے اٹھا لے گئے۔ اس واقعے کے بعد سے عدلیہ کے جج محسن اختر کیانی، حکومت اور آئی ایس آئی کے مابین شدید نوعیت کی محاذ آرائی جاری ہے اور جج کیانی نے اٹارنی جنرل اور پولیس کو کہہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں فوج کے سیکٹر کمانڈر جنرل فہیم سے بیان لکھوا کر لائیں جس کے بعد وہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو بھی طلب کریں گے۔ گزشتہ ہفتے عمران خان کی مسلسل مقدمات سے رہائی اور ضمانت اور ججوں کے ریمارکس سے جنرلوں کی ہزیمت کا سلسلہ جاری تھا۔ مگر اس ہفتے اسلام آباد میں رونما ہونے والے واقعے نے تو فوجی جرنیلوں کو پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ PTIکے سیکرٹری انفارمیشن، پارٹی کے الیکشن کمشنر اور تحریک انصاف کے ترجمان پروفیسر رئوف حسن جب GNNٹی وی کے پروگرام میں حصہ لے کر باہر نکلے تو اس پر چار نامعلوم افراد نہیں بلکہ چار نامعلوم خسروں نے حملہ کر دیا۔ ان پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بھرمار کرنے کے بعد بلیڈز کے ذریعے گردن پر نرخرہ کاٹنے کی کوشش کی۔ اسی دوران ایک بھاری بھرکم چادر اوڑھے شخص کے ہاتھ سے ایک چھرا نیچے زمین پر گر گیا جبکہ زدوکوب کے درمیان رئوف حسن کے چہرے اور گردن پر گہرے گھائو آئے۔ لوگوں کے آنے کے بعد وہ نامعلوم ہیجڑے ایک ویگوڈالے میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ رئوف حسن کو ہاسپٹل لے جایا گیا جہاں انہیں انیس ٹانکے لگائے گئے۔ اس واقعے کے بعد کئی باتوں کا تعین ضرور ہو گیا۔ ایک یہ کہ گزشتہ ہفتے شاعر احمد فرہاد کے گھر اسلام آباد میں رات گئے جو چار باوردی نامعلوم افراد ویگوڈالے میں انہیں اٹھا کر لے گئے وہ نامعلوم افراد نہیں بلکہ نامعلوم خسرے تھے اور ان کو آپریٹ کرنے والا سیکٹر کمانڈر فہم نہیں بلکہ ان کا گرو کمانڈر تھا۔ دوسری بات یہ کہ حافظ جنرل عاصم منیر اور ان کے فوجی دیگر جرنیل ساتھی اب اتنے کمزور، بے بس اور لاچار وہ گئے ہیں کہ انہیں کارروائی ڈالنے کیلئے ان خواجہ سرائوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ہمیں اب اس بات پر قطعی حیرانی نہیں ہو گی کہ اگلی واردات ڈالنے کے لئے حافظ جی ہیرامنڈی کی گشتیوں کو استعمال کریں گے۔ سیاستدانوں کو اغواء کرنے کیلئے یا گھروں سے اٹھانے کیلئے اصولاً اب ہونا تو یہ چاہیے کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل چودھری صاحب، آئی ایس آئی میں دو نئے ڈیپارٹمنٹس کھول دیں۔ ایک خسرا ونگ اور ایک گشتی ونگ۔ Form 47 کی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ رئوف حسن پر ڈالی گئی واردات کی مکمل تحقیقات کرائے گی اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دے گی۔ عطا تارڑ کی اس معصومانہ بات پر قربان ہو جانے کو جی کرتا ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ یہ نامعلوم افراد کون ہیں اور آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ بھی انہیں نامعلوم افراد کا ایک خسرا معاف کیجیے گا مہرہ ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ جعلی حکومت اور جرنیل عوام کو بے وقوف، احمق اور چغد سمجھتے ہیں۔ ان کے حساب سے سارے پاکستانیوں کے چہروں پر چ لکھا ہوا ہے۔ دراصل ان لوگوں کی خود کی اپنی ذہنی کیفیت یہ ہی ہے۔ ایک لمحے کو فرض کیجیے کہ یہ حکومت فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو یہ ٹارگٹ دیتی ہے کہ ہر حال میں ان حملہ آوروں کا پتہ چلایا جائے تو آئی ایس آئی، ڈاکٹر شہباز گل کی طرح، اعظم سواتی کی طرح، عمران ریاض کی طرح، جمیل فاروقی کی طرح، ان ہیجڑوں کو اپنے عقوبت خانون میں لے جا کر انہیں ننگا کر کے الٹا لٹکائے گی؟ ان کے جسموں کے نچلے حصوں سے اینٹیں لٹکائے گی۔ خیر اس کیس میں وہ اینٹیں تو نہیں لٹکا سکتی ہاں مگران کے جسم کے نازک حصوں پر کرنٹ تو پھر بھی دوڑا سکتی ہے۔ مگر وہ ایسا کریں گے کیوں؟ یہ تو ان ہی کے بھیجے ہوئے خسرے تھے جو ان ہی کے ویگو ڈالوں میں بھر کر آئے اور پھر ان ہی ویگو ڈالوں میں چڑھ کر واپس چلے گئے۔ ذرا گوگل کریں سب تصویروں اور ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔ اگر تصدیق کرنا ہو، یعنی صورت حال یہاں پہنچ چکی ہے کہ سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے تمام ٹی وی چینلز سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ اپنے تجزیاتی پروگراموں میں انہیں بلائیں تو اپنی گاڑی بھیجیں اور ان کے آگے، پیچھے ایک ایک سکیورٹی ڈالہ بھی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو کون جان سکتا ہے مگر کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا کہ ہمارے والدین بہت جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جس مملکت خداداد پاکستان کے خاطر وہ اپنا بھرپور گھر چھوڑ کر ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اگر آج وہ ان حالات کو دیکھتے تو روز جیتے ،روز مرتے۔ قائداعظم نے ایسا پاکستان تو نہیں سوچا تھا؟
0