0

وہ تو ہمیشہ کے ہیں!

علامہ اقبال نے ایک صدی پہلے سے بتا رکھا ہے کہ؎
سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں!

چلئے پہلی بات پر تو کوئی بحث نہیں، ہر پاکستانی اس تجربے سے گزرتا رہتا ہے ،لیکن پاکستان میں دوسری بات کے معنی کھلنے کا نام نہیں لے رہے۔یہاں اول روز سے جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے ، پون صدی گزر گئی ، وہی کچھ بار بار ، نہایت بھونڈے طریقے سے ، ہوتا جا رہا ہے۔ستم ظریف کہتا ہے کہ شاید یہ ملک اس قدر پختہ میٹیریل سے تعمیر کیا گیاہے کہ اس میں کسی تغییر کا ظہور ممکن ہی نہیں ۔میں نے ستم ظریف کو آج کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار ممکن حد تک کم کیا کرے۔ہمارے ملک میں تماشا گروں نے نہ بندر بدلے ہیں، نہ بکرے، ڈگڈگی بھی وہی پرانی اور بچے جمہورے بھی ویسے کے ویسے، حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ کھجلی کھایا ہجوم بھی ویسے کا ویسا ہے۔کوئی بدلاؤ نہیں آرہا۔ہاں اب ایسا لگتا ہے کہ بالکل نوجوان نسل ان تماشوں سے بالکل لاتعلق اور بے زار ہے۔وہ ان پرانے گناہوں اور فرسودہ گنہگاروں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ کل کی بات ہے ،ایک دوست نے پوچھا آج کل آپ کے کالم کم کم نظر آتے ہیں، ملکی سیاست میں اتنا کچھ ہو رہا ہے اور آپ چپ بیٹھے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں ایک پرانا پاکستانی ہوں، ہمیں حب وطن اور چپ رہنے کی تربیت دی گئی تھی۔ نیز ہمیں بتایا اور پڑھایا گیا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔لہٰذا ملک میں اگر کچھ ایک جیسے واقعات وقفے وقفے سے دوبارہ ، سہ بارہ رونما ہوتے رہیں تو پریشان نہیں ہونا،بلکہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لینا ہے۔لہٰذا مجھے بھی ، اس خطے کے دیگر کروڑوں لوگوں کی طرح قبول اسلام کے بعد سے لے آج تک ہر لکھی ہوئی تقدیر کو فورا قبول کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ہاں یہ مشاہدہ ضرور کیا ہے کہ اگر کوئی سر پھرا اپنی یا اپنے اطراف کی تقدیر سازی خود کرنا چاہے تو اسے کسی نہ کسی بہانے منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے ۔ایک بات تو یہ ہوئی ، دوسرے میرا تعلق پنجاب سے ہے، جہاں کے مقامیوں کی تاریخ ، یادداشت اور ثقافت ہتھیا کر چھپا دی گئی ۔جہاں تک موجودہ سیاست کے احوال اور ان کے ممکنہ مآل کا تعلق ہے ،اس پر لکھنا اور تبصرہ کرنا خاصی بے شرمی کا کام لگتا ہے۔ ہمارے ہاں بے شرمی والی چیزوں ، حرکتوں اور سرگرمیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کو کھنگال کر کوئی گنجائش تلاش کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ جہاں تک معاصر سیاسی حرکیات کو سمجھنے یا جاننے کا مسٔلہ یا ان پر تبصرے کا سوال ہے ،اس سب کو سمجھنے کے لیے نظیر اکبر آبادی، میر تقی میر اور سودا کے شہر آشوب اور بعض واسوخت کافی ہیں۔یہ سب سن کر ستم ظریف مسکرایا۔اور کہنے لگا کہ یہاں آپ اپنی اُردو کی تعلیم کی دھونس جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔میں نے اس نادان کو سمجھایا کہ میاں میں کیا دھونس جماؤں گا ، اُردو کے ناول نگار مرزا رسوا کی امراؤ جان ادا نے اچھی خاصی دھونس جما رکھی ہے۔اگر کوئی لکھی تقدیر کا قائل نہ بھی ہو، امراؤ جان ادا میں مندرج واقعات و حالات نے ہماری سیاسیات کے احوال بہت پہلے سے رقم مل جاتے ہیں۔ لیکن جناب یہ ناول تو ایک طوائف کا قصہ ہے ،اس کا اکیسویں صدی کی معاصر سیاست سے کیا موازنہ ؟ ستم ظریف کا سوال اور شرارت آمیز مسکراہٹ کا جواب دینے کے لیے میں نے مرزا رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے اس اقتباس کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ میاں یہ پڑھیئے اور جس کا جی چاہے ،سر دھنیئے۔ سب رنڈیوں کا قاعدہ ہے کہ ایک نہ ایک کو اپنا بنا رکھتی ہیں۔ ایسے شخص سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ جب کوئی نہ ہوا تو اسی سے دل بہلایا۔ سودے سلف کا آرام رہتا ہے۔ آدمی سے منگائو تو کچھ نہ کچھ کھا جائے گا۔ یہ مارے خیر خواہی کے اچھی سے اچھی چیز شہر بھر سے ڈھونڈ کے لاتے ہیں بیمار پڑو تو حد سے زیادہ خدمت کرتے ہیں۔ طرح طرح کے آرام دیتے ہیں ، رات بھر پاؤں دباتے ہیں۔ صبح کو دوا بنا کے پلاتے ہیں ، حکیم صاحب سے حال کہنے جاتے ہیں، دوست آشناؤں سے تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ چرکٹ پھنسا کے لاتے ہیں ۔ جہاں شادی بیاہ ہوا ناچ کا انتظام اپنے ذمہ لے کے مجرے میں انہیں کو لے جاتے ہیں۔ محفل میں بیٹھ کے اہل محفل کو متوجہ کرتے ہیں ۔ وہ ناچ رہی ہے یہ تال دیتے جاتے ہیں۔ ہر سم پر آہ کہتے ہیں۔ ہر تال پر واہ واہ کر رہے ہیں۔ وہ بھاو بتارہی ہے یہ شرح کرتے جاتے ہیں۔ انہیں کی وجہ سے اچھے سے اچھا کھانے کو ملتا ہے ۔ خاطر مدارات اور رنڈیوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ انعام و اکرام سوا ملتا ہے۔ اگر کسی امیر رئیس سے ملاقات ہو گئی ، انھیں کی بدولت اس کو لطف رقابت حاصل ہوتا ہے ۔ ادھر وہ چاہتے ہیں کہ رنڈی ہم کو چاہنے لگے، ادھر رنڈی جان جان کے ان کا کلمہ بھر رہی ہے۔ کبھی یہ فقرہ ہے :صاحب میں ان کی پابند ہوں، نہیں معلوم آپ سے کیوں کر ملتی ہوں ۔ اب ان کے آنے کا وقت ہے مجھے جانے دیجیے وہ تو ہمیشہ کے ہیں ، آپ اس طرح کیا نباہیے گا۔ یہ اقتباس پڑھ کر ستم ظریف کو چپ لگ گئی۔ تھوڑے توقف کے بعد ستم ظریف نے حیرت سے کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا کہ تو کیا پھر پاکستانیوں کو ملکی سیاست کے اسرار و رموز سمجھنے کے لیے مرزا رسوا کے ناول امراؤ جان ادا سے فال نکالنی چاہیے؟ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا، بس اسے ایک اور اقتباس کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ۔ستم ظریف یہ پڑھو۔ ان صاحب کا نام فیض علی تھا۔ پہر ڈیڑھ پہر رات گئے آتے تھے اور کبھی آدھی رات کو ۔کبھی پچھلے پہر سے اٹھ کے جاتے تھے ۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کئی مرتبہ دستک یا سیٹی کی آواز میں نے سنی اور فوراً ہی فیض علی اٹھ کے روانہ ہو گئے۔ فیض علی سے رسم ہوئے کوئی ڈیڑھ مہینہ گزرا ہوگا کہ میرا صندوقچہ سادے اور جڑاو گہنے سے بھر گیا۔ اشرفیوں اور روپیوں کا شمار نہیں ۔ اب میرے پاس خانم اور بوا حسینی سے چھپا ہوا دس بارہ ہزار کا مال ہو گیا تھا۔فیض علی سے اگر مجھ کو محبت نہ تھی ،تو نفرت بھی نہ تھی اور نفرت ہونے کی کیا وجہ؟ اول تو وہ کچھ بدصورت بھی نہ تھے، دوسرے لینا دینا عجیب چیز ہے ۔ میں سچ کہتی ہوں ، جب تک وہ نہ آتے تھے میری آنکھیں دروازے کی طرف لگی رہتی تھیں ، گوہر مرزا کی آمد و رفت ان دنوں صرف دن کی رہ گئی تھی۔ شب کے آنے والوں میں سے بھی اکثر لوگ سمجھ گئے تھے کہ میں کسی کی پابند ہوگئی ہوں ۔ اس لیے سویرے سے کھسک جاتے تھے اور جو صاحب جم کے بیٹھتے تھے ان کو میں کسی حیلے سے ٹال دیتی تھی۔ستم ظریف نے ناول بند کر کے ایک طرف رکھا ،کچھ دیر سوچتا رہا، پھر مجھے نہایت غور سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا کہ امراؤ جان ادا تو ایک طوائف تھی، اس کی زندگی اور اس میں آنے والے مرد بنیادی طور پر تو تماش بین ہی ہوتے تھے۔ان کے امراؤ کے ساتھ ناطے اور اس کی نوعیت کا پاکستانی سیاست سے کیا تعلق؟ بس یہی اصل بات ہے ستم ظریف ، طوائف صرف ان کو اہمیت و اطاعت دان کرتی ہے جن کے بارے میں اسے یقین ہو جائےکہ؛”وہ تو ہمیشہ کے ہیں” کوشش کرتے رہو ستم ظریف ،شاید سمجھ بھی جاؤ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں