0

کیا جنرل قمر جاوید باجو ہ کے پاس اپنی ماں اور اپنےحلف اور قر آن مجید کی کوئی حیثیت نہیں رہی؟

کیا جنرل قمر جاوید باجوہ قرآن مجید اور اپنی ماںکی قبر کی قسمیں اٹھانے سے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟پاکستان کے سیاستدان بھی عجب عجب تماشے کرتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سندھ کے علاقے سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان اپنی جیب میں ڈاکٹر کا نسخہ لئے گھومتے تھے۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایک نشئی تھے اور ڈے ٹائم ڈرنکر کے نام سے مشہور تھے۔ میڈیا والے بھی ان کی شراب نوشی کی عادت سے بخوبی واقف تھے اور جب کبھی کبھار وہ ان سے پوچھتے کہ سردار صاحب ملک میں قانون کے حساب سے شراب نوشی تو غیرقانونی ہے توہ فوراً جیب سے ڈاکٹر کا نسخہ نکال کر دکھاتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے کوئی شوق نہیں مگر ڈاکٹر نے لکھ دیا ہے کہ جو بیماری مجھے لاحق ہے اس کیلئے تھوڑی سی شراب بطور دوا پینا لازمی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی بیماری کی بابت کبھی کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔
اس ہفتے ملک میں سخت فوجی سینسر شپ کے باوجود ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان کو نہیں چھپایا جاسکا جس پر کوئی ذی ہوش انسان ایک لمحے کو بھی یقین کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس ہفتے ایک شادی کی تقریب میںدو پاکستان کے معروف صحافی مجیب الرحمن شامی اور عبدالما لک بیٹھے تھے کہ اچانک سابق آرمی چیف قمر باجوہ ان کے پاس آئے اور خود ہی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہنے لگے کہ نہ میں عمران خان کی رجیم چینج کا حصہ تھا نہ میں نے نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجا تھا اور نہ ہی میں اپنی ایکسٹینشن کرانا چاہتا تھا۔ دونوں صحافیوں نے انہیں جب غیر یقینی نظروں سے دیکھا تو جنرل باجوہ نے اپنی جیب سے قرآن مجید کا نسخہ نکالا اور اس پر ہاتھ رکھ کر دونوں صحافیوں کے سامنے حلفیہ بیان دہرایا۔ تینوں ایشوز کے حوالے سے نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی مری ہوئی ماں کی قبر دیکھنا نصیب نہ ہو اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو ا اورنہیں روز قیامت رسول اللہ کی شفاعت بھی نصیب نہ ہو۔ یہ پورا واقعہ من و عن مجیب الرحمن شامی نے جیو ٹی وی کے پروگرام میں بیان کیا۔ یعنی اب کوئی جنرل اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کیلئے قرآن مجید کی اور اپنی ماں کی جھوٹی قسمیں کھا رہا ہے تو کوئی جنرل اپنے حافظ ہونے کے ناطے خود کو جسٹیفائی کرنے کیلئے آیتیں کوٹ کررہا ہے۔ عوام اور جمہوریت کے بعد ان ان لوگوں نے قرآن اور رسول کو بھی ایک مذاق بنا لیا ہے۔ یوں تو کوئی بھی جنرل باجوہ کی جھوٹی قسموں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے وزیر دفاع اور باجوہ کے دیرینہ ساتھی خواجہ آصف نے بھی میڈیاپر آ کر یہ بیان دے دیا ہے کہ باجوہ جھوٹ بول رہا ہے اور یہ سارے کام خود اس کی ہدایت اور مرضی سے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو اپنے کئے کی سزا قیامت کے بعد ملتی ہے اور کچھ کو زندگی میں ہی مکافات عمل کے تحت سزا ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ جنرل باجوہ نے اپنے سرکاری صحافی جاوید چودھری کو انٹرویز میں ان ساری باتوں کی گواہی دے رکھی ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اپنے وقت کا فرعون جنرل باجوہ اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کیلئے جیب میں قرآن لیکر حلف اٹھاتا پھر رہا ہے اور کوئی اس کی بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی سوشل میڈیا پر پھر ملک کے قومی میڈیا پر وہ ویڈیو بہت وائرل رہی تھی جس میں ایک غیر ملک میں باجوہ اور اس کی بیوی جارہے تھے اور ایک شخص ان کی ویڈیو بنا تا جا رہاتھا اور مان بہن کی پشتو میں گالیاں دیتا جارہا تھا۔آج صورت حال یہ ہے کہ جنرل باجوہ نہ اندرون ملک اور نہ ہی بیرون ملک کہیں باہر نہیں جا سکتا۔ کوئی اس کے ساتھ ہاتھ نہیں ملانا چاہتا اور لوگ منہ پر اسے گالیاں دیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ حافظ سید جنرل عاصم منیر صاحب بھی کوئی سبق سیکھ رہے ہیں کہ نہیں۔ حالات بتارہے ہیں کہ جلد ہی انہیں بھی تاج کمپنی سے رابطہ قائم کرنا پڑے گا لیکن میرا دل اس وجہ سے کڑھتا ہے کہ ان چند جنرلوں کی وجہ سے وطن کے سجیلے جوان کیوں بدنام ہورہے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں