0

کیا اسرائیل بنانا ریپبلک ہے!

Chuck Schumer سینٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر ہونے کی وجہ سے امریکہ میں طاقتور ترین یہودی سیاستدان مانے جاتے ہیں۔ اسرائیل سے انکی محبت اور جذباتی لگائو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انکی عمر 73 سال ہے اور وہ نیو یارک سے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر 1999 سے مسلسل سینیٹر منتخب ہورہے ہیں۔ جمعرات کے دن سینٹ کے فلور پر انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اسرائیل کی تعریف و توصیف سے کیا مگر ابتدائی کلمات کےفوراً بعد انہوں نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ وہ چاہتے ہیںاسرائیل میں الیکشن ہو جائیں تا کہ نئی حکومت غزہ کی جنگ کے لیے بہتر حکمت عملی بنا سکے۔ چک شومر نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو امن کے راستے کی دیوار اور اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کے سب سے بڑی رکاوٹ ہیںسینیٹرشومر نے کہا کہ نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔اس سے پہلے کسی بھی امریکی سیاستدان نے اسرائیل کے بارے میں اتنا سخت اور جرأت مندانہ بیا ن نہیں دیا تھا۔ انکی تقریر کےفوراً بعد سینٹ میں ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر مچ میکانل نے کہا کہ ڈیمو کریٹک پارٹی بنجا من نتن یاہو کے نہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف ہے۔ سینیٹر میکانل نے اپنی دھواں دھار تقریر میں یہ بھی کہا کہ کانگرس میں طاقتور ترین ڈیموکریٹ نے اسرائیل کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر میں ہونیوالے صدارتی انتخابات تک ریپبلیکن پارٹی چک شومر کے اس بیان کو صدر بائیڈن کے خلاف استعمال کرے گی۔ اس بیان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر بائیڈن نے اسکی ستائش کرتے ہوے کہا کہ وہ خود بھی اور امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد بھی سینیٹر شومر کی اس تجویز سے متفق ہے۔
امریکہ ‘ اسرائیل تعلقات کے اس پنڈورا باکس کے کھل جانے کے بعد واشنگٹن کے نقار خانے میں کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ سیاسی پنڈت ایک طرف دونوں ممالک کی دوستی اور بھائی چارے کی تاریخ کھنگال رہے ہیں تو دوسری طرف شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ پوچھ رہے ہیں کہ امریکہ کو اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کے احکامات دینے کا حق کس نے دیا ہے۔ چک شومر سے جب صحافیوں نے یہ سوال پوچھاتو انہوں نے کہا کہ ’’ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو اسرائیل کے عوام نہ چاہتے ہوں۔ نتن یاہو اپنی مقبولیت کھو چکے ہیںاسلئے بہتر یہی ہے کہ نئی حکومت غزہ کے مسئلے کا کوئی دیر پا حل تلاش کرے۔‘‘ چک شومر نے یہ بھی کہا کہ پوری دنیا اسرائیل سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ بھوک کے ستائے ہوے لاکھوں فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے مگر بنجامن نتن یاہو کسی کی نہیں سن رہے۔ اسکے بعد اتوار کے روز CNN کو انٹرویو دیتے ہوے کہابنجا من نتن یاہو نے کہا کہ سینیٹ کے اکثریتی لیڈر انکی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہے ہیںاور ایسا کرنا نا مناسب ہی نہیںبلکہ ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی ہے۔ نتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کوئی بنانا ریپبلک نہیں کہ اسے اس قسم کے مشورے دئیے جا رہے ہیں۔
امریکہ میں اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور غصے کے تناظر میں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ صدر بائیڈن آخر اتنے کمزور کیوں ہیں کہ وہ غزہ کو زمینی راستے سے خوراک‘ پانی اور دیگر امدادی سامان پہنچانے کے بجائے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھیج رہے ہیں۔ یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ سے ہر سال چار ارب ڈالر کی امداد لینے والا ملک اسکی بات کیوں نہیں مان رہا۔ صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا یہ تضاد خاصہ مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف اسرائیل غزہ کے آسمان سے امریکہ کے دئیے ہوے بم برسا رہا ہے تو دوسری طرف امریکی جہاز کھانے کے تھیلے پھینک رہے ہیں۔ دی نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار نکولس کرسٹوف نے لکھا ہے کہ سفارتکاری میں کبھی دلائل سے قائل کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار بازو بھی مروڑنے پڑ تے ہیں۔ کرسٹوف کے مطابق‘ موشے دایان جو 1967 میں اسرائیل کے وزیر دفاع تھے نے کہا تھا کہ ’’ ہمارے امریکی دوست ہمیں پیسہ‘ اسلحہ اور مشورے دیتے ہیں۔ ہم پیسہ لے لیتے ہیں‘ اسلحہ بھی لے لیتے ہیں اور مشورے واپس کر دیتے ہیں۔‘‘ کالم نگار کے مطابق ایک صحافی نے موشے دایان سے پوچھا تھا کہ امریکہ اگر یہ کہے کہ وہ اس شرط پر امداد دے گا کہ اسرائیل کواسکے مشوروں پر عمل کرنا ہو گاتو پھر آپ کیا کریں گے۔اسکے جواب میں موشے دایان نے کہا تھا کہ اس صورت میں امداد اور مشورے دونوں لینے پڑیں گے۔ کرسٹوف نے صدر بائیڈن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد کو اس مطالبے سے مشروط کر دیں کہ وہ غزہ کو امداد کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔ ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا کہ امریکہ کی طاقتور یہودی لابی اسرائیل پر زیادہ دبائو نہیں ڈالنا چاہتی۔ایک دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل میںہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جس دن اس نے فلسطینیوں پر تشددسے ہاتھ کھینچ لیا اس دن وہ بنانا ریپبلک ہو جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں