انتخابات کے خاتمے کے بعد معمولی سے وقفے کے بعد کارواں ِ حکومت بشمول صوبائی حکومتوں کے نامعلوم اندیشوں کو ساتھ لئے اُن ہی رستوں پہ گامزن ہو چکے جہاں کی اونچ نیچ سے ان کے آزمودہ میر ِ کارواں کا ماضی باخبر ہے اسی لئے حلفیہ تقریب کے بعد سلامیوں سے فراغت پاتے ہی میر ِ کارواں نے معیشت کی ابتری کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر اُن اداروں کے خاتمے کا یا اُن کو کسی دوسرے ادارے میں ضم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے تا کہ ملکی معیشت کے کندھوں سے غیر ضروری اخراجات کا بوجھ کم کیا جا سکے مگر جو بھاری اخراجات پٹرول ،بجلی ،گیس کی صورت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو بانٹے جاتے ہیں اور جن میں ہر سال اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے اُسے ختم کرنے کے ارادے ظاہر نہیں کئے حالانکہ حکومتی لشکروں کے نشیب و فراز ، اتار چڑھائو کی تاریخ کے ساتھ ساتھ بیرونی تاریخی واقعات سے بھی کارواں کے نئے وزیر اعظم واقف ہیں مگر بھر بھی یاد دلاتا چلوں کہ برطانیہ نے ملبوسات سے لیکر کھانے پینے کی چیزوں تک دوسری عالمی جنگ کے موقعے پر پابندی لگائی تھی کیونکہ برطانیہ نے جنگی اخراجات کی مد میں امریکہ سے قرضہ لیا تھا جسے واپس کرنے کے لئے کئی سالوں تک غیرضروری چیزوں کے استعمال کو روکے رکھا اسی لئے آج برطانیہ معاشی ترقی کی بلندیوں پر ہے ہم ایوب آمریت سے قرضوں تلے دبے تو آج بھی اپنی معیشت کی اُکھڑی سانسیں بحال رکھنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے اقدامات سوچ رہے ہیں ۔کوششیں جو ترجیحات کی صورت سامنے آ رہی ہیں اُس میںقومی یکجہتی کی بجائے صرف مخالفت اور الزام تراشی ہے جس کی ابتداء کے پی حکومت نے وزیر ِ اعظم کی تقریب حلف ِوفاداری میں شرکت نہ کر کے کر دی ہے سوچتا ہوں کہ اگر ان موجودہ حالات میں بھی ہمارے ممبران ِ اسمبلی آپس میں مخاصمت کو ہوا دیتے رہے تو اس آگ سے عام طبقات مزیدجھلسے گے اُن کے بنیادی مسائل کا حل کون نکالے گا؟ کیسے مہنگائی کم ہو گی ؟ کیسے روپے کی قدر میں اضافہ اور بیرونی قرضوں میں کمی لائی جائے گی ؟َان دیرینہ مسائل سے سرخرو ہونے کے لئے تو اندرونی اختلافات کا خاتمہ یقینی بنانا حلفیہ ذمہ داری ہے جسے اولین ترجیحات میں لازم رکھنا حزب ِ اقتدار اور حزب ِ مخالف دونوں کی ذمہ داری ہے عوامی بہتری کے کاموں میں تاخیر یا اُس میں رکاوٹ سیاسی رنجشوں کی بناء پر کرنا 9مئی کی طرح کئے گئے جرائم ہیںجو اپنی قوم سے غداری کے ضمرے میں آتے ہیں جن کی سزا کے لئے قانون کو شکل دینا ضروری لگتا ہے میر ِ کارواں کوئی بھی ہو کارواں کی کشتی میں سوراخ کرنے والے کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے کسی قومی مسئلے سے روگردانی کرنا یا اپنے مفادات کو مقدم رکھنا جرائم کی بنیاد ہیں ان کی بلا تفریق بیخ کنی کرنا ریاست کے لئے اہم ہونا استحکام کی ضمانت ہے ۔میرے نزدیک تحریک ِ انصاف نے جو نشستیں حالیہ انتخابات میں حاصل کیں ہیں وہ اندازے سے زیادہ اس لئے ہیں کہ اس بار سٹیبلشمنٹ نے بڑی حد تک الیکشن میں مداخلت نہیں کی اگر بقول شخصے کی ہوتی تو بانی پی ٹی آئی کو اتنی پذیرائی نہیں ملتی اور نہ ہی صوبہ خیبر پختوں خواہ میں تحریک ِ انصاف کی حکومت بنتی یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ سابقہ ادوار میں مداخلت کسی نہ کسی نظریہ ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی مگر حالیہ ہونے والے انتخابات میں میرا دل کسی صورت فوج کی مداخلت پر قائل نہیں ہو رہا اُس کی وجہ آرمی چیف کا اہلیت سے بھرا کردار ہے پھر جس سینےمیںقرآن پاک کی روشنیاں جگمگا رہی ہوں وہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا ۔سیاست چونکہ ان ایمانی باتوں سے دور ہے تو وہ اپنے سارے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے بسا اوقات ادارتی احترام کو بھی اہمیت نہیں دیتی تو مہذب دنیا ہمیں بھی احترام سے مبرا کر دیتی ہے سیاسی کارواں میں اب ضرورت سے زیادہ ایسے لوگ رواں ہیں جو صرف بہتان تراشی کر کے اپنا قد بڑھانے کی ناکام کو ششیں کرتے رہتے ہیں پاک فوج کا نو مئی کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا فیصلہ درست ہے مگر اس پر تاخیرسے شکوک و شبہات بھی بڑھ چکے ہیں اور شرپسند عناصر پھر سے دبے لفظوں اپنی مذموم کاروائیوں میں مصروف ِ عمل ہیں دوسری جانب مہنگائی کی اڑان بھی بلند ہو رہی ہے تو میر ِ کارواں شہباز شریف کو موثر اقدامات کر نے کی ضرورت ہے اپوزیشن اگر کارواں کے ہم رکاب ہونا نہیں چاہتی تو وہ کم از کم قومی بڑے مسائل کے حل میں رخنہ اندازی نہ کرے تا کہ کارواں ریاست چلتا رہے میر ِ کارواں چاہے کسی بھی جماعت سے ہو ۔
0