0

تمنا ہے دل کی !

دم تو ہمارا ساری خواہشوں پہ نکلنے کے لئے مچلتا رہتا ہے مگر خواہشیں ساری کب کسی کی پوری ہوئی ہیں اسی روحانی تسلی سے ذرا صبر میسر ہوتا ہے پھر سکون کی چادر میں زندگی کے نشیب و فراز سے پیدا ہونے والی مایوسیاں فکرمند نہیں کرتیں ۔انسان بڑے عزم سے حوصلے کے ساتھ اپنی اہداف کی تکمیل کے لئے حرکت میں رہتا ہے سستانے کے لئے چارپائی پر دراز ہو تو خواہشات کے آسمان پر اپنی ضرورتوں کے تارے ضرور گنتا ہے خواہشات کا یہ شمار ایک حد سے نکل جائے تو پھرتمنا حرص و لالچ کی شکل لے لیتی ہے کرۂ ارض پہ ایسی نفسیاتی لاعلاج وبائیں پورے آب و تاب سے نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں قانون و انصاف کی لیبارٹریاںبھی ان ہی وباؤ کا شکار ہونے کی وجہ سے معاشرتی امراض کی تشخیص درست طریقے سے سامنے نہیں لائی جارہی جس سے منافقت کی صفوں میں ہجوم کی زیادتی اچھی خاصی بڑھ چکی ہے منافقت کا آغاز جھوٹ سے ہوتا ہے اس میں وعدہ خلافی بھی شامل ہوتی ہے ۔عوام اپنے شعور کو جگا کر غیر جانبداری سے اگر موجودہ حالات کا جائزہ لے تو اکثریت اُنھیں جھوٹی اور وعدہ خلاف ملے گی جس میں باقی سارے اداروں کو چھوڑ کر سیاست دان سر فہرست ملیں گے جنھیں عوام کا حقیقی نمائندہ سمجھا جاتا ہے مگر اُن کی باگیں کسی ان دیکھے کے ہاتھوں میں ہوتیں ہیں کہنے سے مراد یہ ہے کہ جمہوری نظام تو ریاست میں چل رہا ہے مگر اُس میں سچائی ،خلوص کی لگن نا پید ہے سابقہ کمشنر راولپنڈی لیاقت چھٹہ نے پریس کانفرنس میںجن دھاندلیوں کا ذکر کیا آج وہ اُس پہ شرمندہ ہیں فرماتے ہیں قوم مجھے معاف کرے میں نے مذکورہ جھوٹ کسی سیاسی جماعت کے کہنے پر بولا تھا سابقہ کمشنر فرماتے ہیں کہ مجھے کسی نے دھاندلی کی ہدایت کی نہ ہی کوئی آر او ملوث تھا چیف جسٹس کا نام عوام کو بھڑکانے کے لئے لیا اپنے بیان سے منحرف ہونے کے بعد سابقہ کمشنر کی اس بات پر دل رنجیدہ ہوا فرماتے ہیں میں نے لاہور میں کسی سیاسی جماعت کے عہدیدار کے بہکانے پر پریس کانفرنس میں غلط بیانی کی جس پر بہت شرمندہ ہوںیہ سب کچھ اعلی عہدے کے وعدے پر کیا اس خجالت و شرمندگی کے واقعے کو سننے کے بعد تمنا نے دل میں جگہ بنائی کہ کاش ہر شخص دار ِ فانی سے کوچ کرنے سے پہلے رب ِ ذوالجلال کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے عاقبت سنوار لے یہ تمنا ہے دل کی اس اسلامی ریاست میں جہاں اکثریت اُمت نبوی ﷺہونے پر سرشار رہتی ہے یہ مخلوق ِ خدا سودی نظام سے پاک ہو جائے لیکن تمناؤں کا دل میں کروٹیں لینے سے کسی مثبت عمل کا ظہور نہیں ہوتا اس کے لئے عملی جامہ انسانی حرکات کو زیب تن کرنا ہوتا ہے ریاست میں قانون بنانے سے لیکر اُس کی بلاتفریق عملداری طبقاتی فرق کو مٹا دیتی ہے جسے ریاست کی خوبصورتی کہنا بیجا نہیں لگتا اب گزرے ماضی کے گلے شکوے کرنے کی بجائے کیوں نہیں ارباب ِ اختیار نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھتے ؟معاشی ابتری پر ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسانے والے کیوں نہیں ایک بہتر معاشی پالیسی بناتے جس سے گردشی قرضوں کا وزن کم ہو اور فی کس آمدنی بھی بڑھے ملک میںحکومتوں کے بننے کا عمل کافی لے دے کے بعد اپنے انجام ِ بخیر کی جانب رواں ہے اس روایتی موقعے پر تمنا ہے دل کی کہ یہ حکومت بغیر کسی اندرونی و بیرونی دباو کے اپنے عوامی ایجنڈے پر پانچ سال تک کاربند رہے ملک کو سودی نظام سے نجات دلائے قرضوں کی اُمید کو دستیاب وسائل کی شکل میں منتقل کرنے کی اہلیت بروئے کار لائے مہنگائی کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے کی پالیسیاں معاشی ماہرین کے ذریعے لاگو کرے ناروا ٹیکسوں کا بوجھ جو قرضوں کی ادائیگی کے لئے عوام پر ڈالا گیا ہے اُسے کسی صورت کم کیا جائے احتسابی عمل میں سابقہ روایات کی طرح انتقامی کاروائیوں کو شامل نہ کیا جائے جنگ لڑی جائے صرف معیشت کی بہتری کے لئے تا کہ ریاست کو ہر طرح کا استحکام نصیب ہو اور آنے والی نسل ہمیں حرف ِ دشنام پہ نہ لائے اللہ کرے! یہ تمنا ہے دل کی بس پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں