ہفتہ وار کالمز

ایک دن میں ملک کے تین شہروں میں دہشت گردی! پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں کہاں مصروف ہیں؟

پچھلے ہفتے اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بہایا گیا لہو خشک نہ ہونے پایا تھا کہ اس ہفتے ملک کے تین علاقوں، گوادر، قلات اور بنوں میں دہشت گردوں نے شہریوں کو لہو لہان کر دیا۔ بنوں کینٹ میں ہی صرف بارہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی گنتی جاری ہے۔ اب تک تو ایک ایک دن چھوڑ کر بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہ میں دہشت گرد خون بکھیر رہے تھے اور اب ایک ایک دن میں تین تین دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اور ہر واقعہ میں چھ چھ اور بارہ بارہ سویلین اور فوجی شہری مارے جارہے ہیں۔ یہ تعداد بھی سرکاری میڈیا پر کم کر کے بتائی جارہی ہے چونکہ سوشل میڈیا پر بنوں چھائونی میں مرنے والوں کی تعداد 25سے زائد بتائی جارہی ہے۔ بلوچستان کے شہر گوادر میں ایک آرمی کانوائے پر گھات لگا کر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں فوجیوں کی شہادتوں کی اطلاعات ہیں۔ اسی طرح سے قلات میں بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ اس قسم کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے خفیہ ایجنسیوں کا نیٹ ورک ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے۔ پاکستان میں ریاست مخالف افراد اور آرگنائزیشنز کا سدباب اور سرکوبی کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ادارہ انٹر سروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی ہے۔ دوسرا خفیہ ادارہ انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی ہے۔ تیسرا ادارہ آرمی انٹیلی جنس یعنی ایم آئی ہے اور چوتھا بڑا ادارہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی یہ ساری خفیہ ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ کہاں اور کن کاموں میں مصروف ہیں؟
ہم آپ کو بتا دیتے ہیں۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ملک میں سیاسی انجینئرنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ عمران خان کو توڑنے کیلئے اپنی آخری حدود کو پار کررہی ہیں۔ یہ ایجنسیاں اب پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی سربراہی میں پنجاب پولیس کے ساتھ شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ کبھی ان کی ڈیوٹیاں چولستان میں جنرل عاصم حافظ عاصم منیر اور مریم نواز کی حفاظت پر مامور ہوتی ہیں تو کبھی یہ خفیہ ادارے اور ان کے اہلکار لاہور کے میلہ مویشیاں میں استاد راحت فتح علی خان کے دو دلوں کیلئے گائے جانے والے رومانوی نغمات کو انجوائے کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی یہ ایجنسیاں کشمیری مزاحمتی شاعر احمد فرہاد کی اہلیہ کو قتل کا منصوبے بنانے میں مصروف ہوتی ہیں تو کبھی علیمہ خان اور عظمیٰ خانم کے پاس بم بنانے کا سامان برآمد کرنے میں مصروف ہوتی ہیں۔ کبھی یہ ایجنسیاں بشریٰ بی بی کے حوالے سے افواہیں سرکاری اور لفافہ جرنلسٹس کے ذریعے پھیلوانے میں مصروف ہوتی ہیں تو کبھی یہ مرحومہ شوکت خانم کی کردار کشی کرانے میں وقت گزارتی ہیں۔ ان سے اگر کچھ وقت بچ جائے تو یہ میڈیا ہائوس کو فون کالیں کرانے میں دن رات مصروف ہوتی ہیں کبھی کاشف عباسی کو کبھی حبیب اکرم اور پارس بیگم کو ٹی وی چینل سے نکال دیا جائے یا آف دی ایئر کر دیا جائے۔ یہ ساری ایجنسیاں ظاہر ہے جب عمران خان اور اہل خانہ اور تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کی جاسوسی کرنے، انہیں پکڑنے، انہیں غائب کرنے میں دن رات مصروف رہیں گی تو پھر دہشت گردوں کی تو عید ہو جائے گی۔ پاکستان کی ساری خفیہ ایجنسیاںبراہ راست چیف آف آرمی سٹاف کے انڈر کنٹرول ہوتی ہیں اور جنرل حافظ سید عاصم منیر شاہ( تمغہ امتیاز ملٹری) کو تاریخ پاکستان کے ناکام ترین ذہنی مریض کے نام سے یاد کرے گی۔ کہتے ہیں کہ ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔ ہمارے والدین 1947؁ میں موت کے منہ سے گزر کر پاکستان پہنچے تھے اور نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ زندگی کو دوبارہ سے شروع کرنا بہت سٹریس فل کام ہوتا ہے۔ خاص طور سے جب انسان بہت اصول پسند ہو۔ ان کاانتقال اسی کی دہائی میںہو گیا تھا۔ آج جب پاکستان کی دگرگوں صورت حال دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شاید اسی لئے جلد اٹھا لیا کہ اگر وہ حیات ہوتے تو روز جیتے اور روز مرتے۔ ہماری والدہ کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ گھر میں قرآن مجید کے کئی نسخے موجود تھے مگر یہ رمضان مبارک میں وہ ایک قرآن مجید کا نسخہ کئی بار ختم کرتی تھیں۔ ایک بار ہم نے پوچھ ہی لیا کہ آپ اس مخصوص قرآن مجید کو ہی کیوں ہر سال ختم کرتی ہیں تو انہوں نے قرآن مجید کے آخری صفحات کھول کر دکھائے جن پر سوکھا ہوا کیچڑ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ہم 1947؁ میں پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے گھنٹوں گھنٹوں خون آلود پانی اور کیچڑسے گزر کر آرہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی بغل میں لپٹا ہوا یہ قرآن کرپان مار کر نیچے گرا دیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ میرے بازوئوں میں چھپا ہوا یہ قرآن نہیں بلکہ زیورات کا کوئی ڈبہ تھا گو کہ قرآن جزدان میں لپٹا ہوا تھا مگر پھر بھی اس میں پانی اور کیچڑ شامل ہو گیا۔ قبل از تقسیم تاج کمپنی کا چھپا ہوا وہ قرآن اب بھی بھائی نے حفاظت سے رکھا ہوا ہے۔ بہت سارے لوگ جو 13اگست کو ہندوستانی سوئے تھے اور 14اگست کو پاکستانی بن گئے تھے مگر جو لوگ ہجرت کر کے مصیبتیں جھیل کر ہاتھوں میں صرف قرآن لئے پاکستان آئے تھے اب آہستہ آہستہ وہ نسل ختم ہورہی ہے لیکن اس کے بعد کی نسل اور فوج نے آج پاکستان کا جو حال کیا ہوا ہے اچھا ہوا کہ وہ اس پاکستان کو دیکھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئے وگرنہ واقعی وہ رات دن خون کے آنسو روتے رہتے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ پاکستان کو کسی جنرل نے نہیں بنایا تھا، اُسے ایک بیرسٹر محمد علی جناح نے بنایا تھا جس پر آج تک جنرلوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button