فطرت اور سائنس ، جن میں کوئی تضاد نہیں ہے، دونوں کا ایک متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ جس چیز کو بھی غیر معمولی طاقت یا قوت سے دبایا جائے وہ اتنی ہی قوت سے جواب میں ابھر کر آتی ہے!
آٹھ فروری کے انتخابات میں عمران اور ان کی تحریکِ انصاف کے حامیوں اور حمایتیوں نے جس جوش و خروش کے ساتھ اپنے قائد اور رہنما، عمران خان کی پکار پر لبیک کہا اور اپنے گھروں سے جوق در جوق نکل کر تحریک انصاف کے حامی آزاد امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا وہ ایسا غیر معمولی کام تھا جس نے عمران کے خلاف صف آراء ان طاقتور حلقوں میں کھلبلی مچادی تھی جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ انہوں نے اپنی طاقت کے بلاجواز اور بیجا استعمال سے عمران کے حامیوں کو بے دست و پا کردیا تھا اور آزاد امیدوار انتخابی عمل میں ایسے شرکت کرنے پر مجبور کردئے گئے تھے جیسے کسی مکہ باز کو اس کے مخالف کے خلاف ایک ہاتھ اس کی کمر کے پیچھے باندھ کر رنگ میں اتارا جائے!
تحریکِ انصاف کے حامیوں کے جوش و خروش نے ہم جیسے تاریخ کے کیڑوں کو سن 1946ء کے غیر منقسم ہندوستان کے اس تاریخی انتخابی عمل کی یاد تازہ کروادی جس میں مسلم لیگ نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم علیہ الرحمہ کی ولولہ انگیز قیادت میں پنجاب میں کلین سویپ کیا تھا، یا بقول شخصے ان مسلم جاگیرداروں کے حلقوں میں جھاڑو پھیر دی تھی جو اس وقت تک قائد کے بھی بدترین دشمن تھے اور نظریہء پاکستان کے بھی۔
جس طرح قائد کی قیادت میں مسلم لیگ نے اپنے مخالفین کی امیدوں اور منصوبوں پر پانی پھیر دیا تھا اسی طرح عمران کی قیادت میں تحریکِ انصاف کے حامیوں نے اپنے مخالفین کی امیدوں کو پانچ دریاؤں میں ڈبودیا!
ورنہ آزاد امیدواروں کے خلاف صف آراء نواز لیگ کیلئے تمام تر سہولتوں کے منہ کھول دئے گئے تھے۔ عمران کو کئی مہینے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا ہوا تھا۔ اس کا نام لینا بھی قابلِ دستِ اندازیٔ قانون تھا۔ لفافہ صحافی اور جنگ اور جیو جیسے بے غیرت و بے حمیت نیوز میڈیا کے ادارے جرنیلوں کے سامنے سر جھکائے ہوئے مہینوں سے کھڑے تھے اور ان کے ہر فرمان کو نعوذ باللہ خدائی فرمان گردان کر اس کی تعمیل کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے تھے۔
الیکشن سے ایک ہفتے پہلے بے ضمیر عدالتوں سے عمران، ان کی بیگم اور سیاسی مشیر، شاہ محمود قریشی، سزا پاچکے تھے اور برسوں کی سزا کے مستحق گردانے گئے تھے۔
اس سے پہلے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے بے ضمیر اور ذہنی مریض سربراہ، فائز عیسٰی نے اپنی دانست میں عمران کی پارٹی پر اس کا انتخابی نشان چھین کر ایسا مہلک وار کیا تھا جس سے جانبر ہونے کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی تھی۔
تو عمران کے فسطائی ذہنیت کے غلام دشمن اور مخالف کامل اطمینان میں تھے کہ انہوں نے عمران اور اس کی پارٹی کی مشکیں باندھ دی تھیں، انہیں بے دست و پا کردیا تھا اور اب ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ عمران کے آزاد امیدوار ان پنچھیوں کی مانند کردئیے گئے تھے جنہیں پنجرے سے نکالنے سے پہلے ان کے پر قینچ کردئیے گئے تھے!
جی ایچ کیو میں اپنی کمیں گاہ میں داد، عیش دیتے ہوئے جرنیل، ایک جعلی حافظ کی سربراہی میں، ٹانگیں پسارے ہوئے مطمئن تھے کہ انہوں نے عمران خان کا باب پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے بند کردیا تھا۔
لیکن جعلی حافظ یہ بھول گیا تھا کہ فرعون کے گھر میں پلنے والا موسیٰ ہی اس کے زوال اور عبرتناک انجام کا محرک اورقائد ہوتا ہے۔
جعلی حافظ کو یہ سبق بھی یاد نہیں رہا تھا کہ گھر کا بھیدی کبھی کبھار لنکا ڈھانے کا سبب بنتا ہے!
تو اب دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا کہ حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر، لیاقت علی چٹھہ، نے یزید عاصم منیر اور اس کے ماتحت جرنیلوں کی لنکا کو ڈھا دیا ہے، اپنے اس اعتراف سے کہ 8 اور 9 فروری کی درمیانی شب جب عسکری آمروں نے ووٹوں کی گنتی کے عمل پر شبخون مارا اور جس کے نتیجہ میں جرنیلوں کے لاڈلے، سزا یافتہ مجرم اور بین الاقوامی شہرت کے حامل چور، نواز شریف اور اس کے ہارے ہوئے گماشتوں کو الیکشن میں کامیاب قرار دلوایا گیا، اس دھاندلی کی سرپرستی اپنے راولپنڈی کے تمام حلقوں میں کروانے والے وہ خود تھے۔ ان ہی کی سربراہی میں راولپنڈی ڈویژن کی قومی اسمبلی کی پندرہ نشستوں میں سے تیرہ پر چور نواز کے حمایتی اسی جیسے چور کامیاب قرار دلوائے گئےاور جیتنے والے تحریکِ انصاف کے آزاد امیدوار مفتوح ٹہرائے گئے۔
کمشنر لیاقت چٹھہ کے اعتراف نے جہاں جرنیلوں اور ان کے گماشتوں کی ابلیسی مجلس میں تہلکہ مچادیا، ایک بھونچال کا سماں پیدا کردیا، ایک سیلاب کی سی صورت کو جنم دے دیا، وہیں ان کے برملا اعترافِ جرم میں ہم جیسے شاعروں کیلئے ایک قسم کی شاعرانہ تعلی بھی ہے ، شاعرانہ انصاف بھی ہے اور وہ ایسے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بربادی کا عمل اسی راولپنڈی میں 16 اکتوبر، 1951ء کی اس منحوس سہ پہر شروع ہوا تھا جب راولپنڈی کے کمپنی باغ میں، جس کا نام بعد میں لیاقت باغ ہوگیا، پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور عوام میں مقبول رہنما، قائدِ ملت لیاقت علی خان کو پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ اور عسکری آمروں کے کرائے کے ایک قاتل کے ہاتھوں شہید کروادیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی پامالی کا آغاز ہوا ، جو تا حال جاری و ساری ہے۔عوام کا مینڈیٹ چرانے کا اعتراف کرنے والے کا نام بھی لیاقت ہے اور وہ اسی راولپنڈی کا کمشنر تھا جہاں جمہوریت کا دن دہاڑے قتل ہوا تھا۔
کمشنر لیاقت چٹھہ کے اقبالی اعترافِ جرم سے ان تمام دعووں کی تصدیق ہوجاتی ہے جو تحریکِ انصاف کے امیدواروں اور ان کے حمایتیوں کی جانب سے کئے جارہے تھے اور جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ عوام کا ووٹ چرایا گیا، جمہور کے بنیادی حق پر ڈاکہ ڈالا گیا اور ان چوروں بدمعاشوں ، رہزنوں اور نوسربازوں کو ووٹ پر ڈاکہ ڈال کے ایک بار پھر سے ملک و قوم پر مسلط کرنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری ہورہی ہے اور یہ تمام شیطانی منصوبہ ان فرعون جرنیلوں کی سرپرستی میں آگے بڑھایا جارہا ہے جو پاکستان کے جسدِ ملی سے گذشتہ ستر برس سے جونکوں کی طرح سے چمٹے ہوئے ہیں اور جو جمہور کے حقوق کے بدترین دشمن ہیں اور ملک پر چوروں بدمعاشوں کو مسلسل قابض رہنے دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ نوسرباز نہ صرف ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہتے ہیں، کٹھ پتلیوں کی طرح ڈوری کے سرے پر ناچتے رہتے ہیں بلکہ ان کے پردے میں جرنیل ہر طرح کے کرپشن کے کاروبار میں غرق رہتے ہیں۔
الیکشن میں جو بھرپور دھاندلیاں جرنیلوں کی سرپرستی میں ہوئی ہیں ان کے تمام تر ثبوت و شواہد تحریکِ انصاف کے پاس ہیں۔ یہ دستاویزی ثبوت کسی بھی اس عدالت میں تسلیم کئے جاسکتے ہیں جس کی مسندِ انصاف پر کوئی با ضمیر جج بیٹھا ہو۔ لیکن پاکستان کی بد نصیبیوں کی لمبی فہرست میں با ضمیر جج تو آٹے میں نمک کے برابر ہی پائے جاتے ہیں۔
یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ میں جو تین سب سے دیانت دار اور باضمیرجج ملتے ہیں۔۔۔ جسٹس کارنیلئس، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس بھگوان داس۔۔۔ وہ تینوں غیر مسلم تھے۔ ایک عیسائی، ایک پارسی اور ایک ہندو۔
ہم اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اسلام کو جس بڑے پیمانے پر نام نہاد اسلامی جمہوریہء پاکستان میں بدنام اور رسوا کیا گیا ہے وہ کسی بھی مسلمان کیلئے توہین اور شرمندگی کا باعث ہے!
لیکن عین ممکن ہے کہ ضمیر کی بیداری کا عمل واقعی شروع ہوگیا ہے!
عمران نے سیاست میں جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ کہ اس نے پاکستان کے اس باشعور اور تعلیمیافتہ طبقے میں ، جو پہلے سیاست سے بیزار رہتا تھا، بیداری کی وہ روح پھونکی جس کا عملی مظاہرہ 8 فروری کو دیکھنے کو ملا۔ عوام نے، جمہور نے تو اپنی بیداری کا ایسا ناقابلِ تردید ثبوت دیا ہے جس کے دشمن بھی قائل ہوگئے ہیں ۔
تو یہ کوئی بعید از قیاس نہیں کہ جیسے کہاوت ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اسی طرح عوام کی بیداری نے بیوروکریسی اور نوکر شاہی کے سوئے ہوئے ضمیر بھی جگا دئیے ہوں!
اور عین ممکن ہے کمشنر لیاقت علی چٹھہ کی مثال قابل تقلید ہوجائے اور نوکر شاہی میں بھی اسی طرح ضمیر کی بیداری کی لہر اُٹھ کھڑی ہو جو طاغوت کے حصار کو توڑ دے اور اِسے خس و خاشاک کی طرح بہا لیجائے!
عوام اور پاکستان کے جمہور ایک امتحان میں تو سرخرو ہوچکے ہیں اور دنیا سے اپنی بیداری کی داد بھی پاچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد دنیا، جس پر پاکستان کے طاغوتی جرنیلوں کا بس نہیں چلتا، اس بے ایمانی اور دھاندلی کی ہر طرح سے مذمت کر چکی ہے جو عسکری شیطانوں کے ایماء پر کی گئی۔
لیکن اب پاکستانی عوام کا ایک اور امتحان ہے اور پہلے امتحان کے مقابلے میں یہ زیادہ کٹھن اور صبر آزما ہوسکتا ہے۔
امتحان یہ ہے کہ وہ ان حکومتوں کو کام نہ کرنے دیں جو جرنیل پاکستان کی وفاقی اور صوبائی سطحوں پر کرنا چاہ رہے ہیں۔ مریم نواز جیسی بلیک میلر کو پنجاب ، ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت سونپنے کے منصوبہ پر کام ہورہا ہے اور سنا ہے کہ بلیک میلر نے اپنی تاج پوشی کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔
پاکستانی جمہور کیلئے یہ مرحلہ کٹھن ہے لیکن ناممکن نہیں۔ تحریکِ انصاف کے حلقوں سے اٹھنے والی آوازیں بھی بہتری کی پیشن گوئی کررہی ہیں۔ ان کیلئے فی الوقت سب سے اولین ترجیح یہ ہے کہ بے ایمان اور بے ضمیر چیف الیکشن کمشنر سے نجات حاصل کی جائے اور عدالتوں کی مدد سے اپنی چرائی ہوئے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں واپس کی جائیں۔ اس کے بعد تحریکِ انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں حکومتیں بنانے کے قابل ہوگی۔
لیکن ملک میں جمہوریت اصل میں اس وقت تک بحال نہیں ہوگی جب تک فوج کی سیاست میں مداخلت کی راہ مسدود نہیں کردی جاتی۔ یہ وہ کام ہے جو تحریکِ انصاف کرسکتی ہے اگر اسے دیگرسیاسی جماعتوں کا تعاون مل جائے۔
جرنیل پاکستان کی جمہوریت کے بدترین دشمن اور قاتل ہیں۔ ان کے منہ کو آج کا نہیں بلکہ ستر برس سے لہو لگا ہوا ہے۔ وہ پاکستان کی ریاست کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اوراسے سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ ان عسکری نوسربازوں کو سیاست سے بیدخل کرنے کیلئے پاکستان کے آئین میں ترمیم کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہ یزیدی جرنیل اور پاکستان مزید ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہی حرفِ آخر ہے پاکستان کے بیانیہ اور منظر نامہ کا!
کربلا نے ہمیں یہی سبق تو سکھایا ہے کہ یزیدی دور دین کا دشمن اور عوام کے حقوق کا رہزن ہے اور جیسے دین کی بقا کیلئے یزید کا قلع قمع ناگزیر تھا اسی طرح پاکستان کی سیاست اور ریاست کو یزیدی جرنیلوں کے تسلط سے آزادی دلوائے بغیر پاکستان میں کبھی استحکام نہیں آسکتا!
0