0

سیاسی کشمکش کے اثرات!

بعض سیاسی لیڈر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی حکومتی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انکی مزاحمتی سیاست کی وجہ سے حکومتیں اپنے ایجنڈے پر عملدر آمد نہیں کر سکتیں اور یوںپورا نظام مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے۔ بیشتر ممالک میں سیاسی جماعتوں کی کشمکش کے اثرات داخلی سیاست تک محدود رہتے ہیں مگر طاقتور ممالک کے داخلی انتشار کبھی کبھار عالمی سیاست پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مخالفین سے انتقام لینے کی بات اتنی مرتبہ کر چکے ہیں کہ اب اسے قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ سابقہ صدر کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انکے کہنے پر ایوان زیریں میں انکے مخالفین کے خلاف کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں جو تحقیقات شروع کر کے ایک طرف میڈیا کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں اور دوسری طرف اپنے حامیوں کی تسلی و تشفی کا سامان بھی مہیا کردیتی ہیں۔امریکہ میں تکرارو تصادم کی یہ سیاست اب کوئی نئی بات نہیں رہی‘ مگر چند روز پہلے سابقہ صدر نے ایک ایسا بیان دیا جس نے امریکہ کے علاوہ یورپ میں بھی ہیجان برپا کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ روس نے اگر نیٹو ممالک پر حملہ کیا تو وہ اسکی حوصلہ افزائی کریں گے ۔ انکی رائے میں ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ نیٹو ممالک نے اپنے دفاع کا سارا بوجھ امریکہ پر ڈال رکھا ہے اور ان میں سے کوئی بھی اپنا قرض ادا نہیں کر رہا۔
انکے اس بیان پر یورپی ممالک نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ جرمنی کے چانسلر
Olaf Scholzاور فرانس کے صدر Emmanuel Macronنے امریکہ پر انحصار کم کرنے کے اعلانات کئے ہیں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کیونکہ نیٹو ممالک کو روس اور چین کے خلاف ایک مضبوط دفاعی حصار سمجھتی ہے اس لیے اس نے ہمیشہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے بیانات کی شدید مخالفت کی ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کا حامی میڈیا کہہ رہا ہے کہ نیٹو اتحاد کے خاتمے کے بعد امریکہ تنہا ہو کر ایک علاقائی طاقت بن جائیگا۔ اسکا دنیا بھر میں رعب اور دبدبہ نیٹو اتحاد ہی کی وجہ سے ہے۔
یورپی ممالک اس سال نومبر میں ہونیوالے امریکہ کے صدارتی انتخابات کے پیش نظر خاصی تشویش میں مبتلا ہیں۔ صدر بائیڈن کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت انکے اضطراب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ امریکی سیاست پر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صدر بائیڈن کوشش کے باوجود یوکرین کے لیے عسکری امداد کا بل کانگرس سے منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ ہفتے کے دن روسی افواج کا یوکرین کے شہر Avdiivka پر ایک طویل جنگ کے بعد قبضہ ظاہر کرتا ہے کہ یوکرین زیادہ دیر تک روس کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔ یوکرین کے ملٹری کمانڈر General Oleksandr Syrsky نے کہا ہے کہ انکی فوج کو اسلحے کی کمی او ر رو س کی بے پناہ فضائی طاقت کی وجہ سے پسپا ہونا پڑا ہے۔ امریکہ کے دفاعی ماہرین کے مطابق صدر بائیڈن اگر یوکرین کے لیے اربوں ڈالر کی عسکری امداد جاری رکھ سکتے تو اسے تزویراتی نوعیت کے اس اہم شہر سے پسپائی اختیار نہ کرنا پڑتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی دوسری مدت صدارت کے پہلے دن ہی یوکرین جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیں گے۔ ریپبلیکن پارٹی ایوان نمائندگان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر یوکرین کو امداد مہیا کرنے کی قرارداد کو منظور نہیں ہونے دے رہی۔ یہ سب کچھ ڈونلڈ ٹڑمپ کے احکامات کے عین مطابق ہو رہا ہے۔
ممتاز کالم نگار ڈیوڈ بروکس نے سولہ فروری کے کالم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کو
Narcissistic authoritarianism یعنی خود پرست مطلق العنانیت قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ اس طرز سیاست نے امریکی جمہوریت کو مفلوج کر رکھا ہے۔ کالم نگار نے لکھا ہے
Conflict is an eternal part of public life, but it is conflict of a limited sort, a debate among patriots and not a death match between children of light and children of darkness. ڈیوڈ بروکس ٹرمپ جیسے آتش مزاج پاپولسٹ کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مگر بعض دانشور وں کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی مکالمے کے مدد سے قائل نہیں کیا جا سکتا‘ وہ امریکی ریاست ہی کو نہیں بلکہ پورے ورلڈ آرڈر کونقصان پہنچا رہاہے۔ دی نیویارک ٹائمز کے کالم نگار Charles Blow نے 15فروری کے کالم میں لکھا ہے کہـ’’ ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے ملک کے لیے جو خطرات پیدا کر رہا ہے ان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘‘ ۔ کالم نگار نے اس رائے کا اظہار کیا ہے ـ ’’ ملک کو بچائے بغیر بہتر نہیں بنایا جا سکتا‘‘ You cant make the country better without saving it.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں