0

نئے مطالعۂ پاکستان کی ضرورت !

اب مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ملک کو نظریاتی قرار دے کر مطالعۂ پاکستان کے ذریعے جن پاکستانیوں کی ذہن سازی کی گئی تھی ،وہ پاکستانی اب بوجہ ضعف و پیری ،انتخابی سیاست اور سوشل میڈیا کی دنیا میں بالکل غیر موثر ہو چکے ہے۔سوشل میڈیا نے نہ صرف تراشیدہ حقائق کی کئی دیواریں توڑ ڈالی ہیں بلکہ قیاسات اور توہمات کے کئی قلعے بھی مسمار کر کے رکھ دیئے ہیں۔ایسے میں ایک ایسی نوجوان نسل پاکستان میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکی ہے ،جسے پرانے ترانوں اور اذکار رفتہ قصوں کہانیوں اور تاریخ کے نام پر فرضی روایات سے ورغلانا ممکن نہیں رہا ۔اب یہ نژادِ نو ریاست سے کھیلنے والوں کے لیے خوف کی علامت بن چکی ہے ۔ ریاست کو ایک کھلونا سمجھ کر مسلسل کھیلنے والے غیر ماہر کھلاڑیوں نے اپنی ناکامیوں کے غیر مختقم سلسلے سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ستم ظریف میرے اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتا ۔وہ کہتا ہے کہ تمام غیر ماہر کھلاڑیوں کو اس فاصلے کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا ہے ،جو ان کے طریقہ ٔٔٔواردات اور پاکستان کی نوجوان نسل کے درمیان پیدا ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب اس فاصلے کو مٹانے کے طریقے زیر غور ہیں۔ یہاں پر ستم ظریف اس حقیقت کو نظر انداز کر رہا ہے کہ ؛ غور کرنے والے دل و دماغ بجائے خود پرانے ، فرسودہ اور بعض صورتوں میں قدرے بے ہودہ سے ہیں ، لہٰذا کوئی تازہ اسلوب ان میں آ اور سما نہیں سکتا۔ وہ اب بھی اپنی کسی خطا کو ماننے سے آغاز کرنے کی بجائے وعظ و تلقین پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔وہ اپنی گفتگو میں جو حوالے دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ،ان پر سے پھسلنے کے لیے اب کوئی بھی خود کو آمادہ و تیار نہیں پاتا۔اس حوالے سے سب سے پہلی الجھن ریاست اور شہری کے تعلق کی نوعیت اور حدود کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ خرابی کا آغاز ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں پر ریاست کو نظریاتی قرار دے کر اور تقدس کے فریم میں بند کر کے دیوار کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔یوں شروع دن سے کوشش کی گئی کہ ریاست کو شہری صرف دور سے ہی دیکھ سکیں ،چھو نہ سکیں۔ہمارے یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ ؛ ریاست اپنے شہریوں سے افضل نہیں ہوتی ۔ ریاست کا کام اپنے شہریوں کی جملہ ضرویات کو بطریق احسن پورا کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ریاست کی واحد قابل قبول شناخت” فلاحی ریاست”کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ ایسے میں ریاست کی پرستش کرانے کی کوششیں اور منصوبہ بندیاں ایک طرح کی بت پرستی کو فروغ دینے والی بات ہے۔ ستم ظریف کے قیاس کے گھوڑے صرف دوڑتے نہیں ، اڑتے بھی ہیں۔پتہ نہیں کہاں کہاں سے عجیب و غریب خبریں یا افواہیں یا اپنے علم اندازہ و قیاس کے نتیجے سامنے لاتا اور بتاتا رہتا ہے ۔مثال کے طور پر وہ بتا رہا تھا کہ ریاست کے اہم ترین لوگ اپنی اہم ترین اور بنیادی ذمہ داریوں سے گریز کرتے ہوئے اور مصروفیات کو ایک طرف رکھ کر مختلف طریقوں سے پاکستان کی نژادِ نو سے ملاقاتیں اور گل باتیں کر کے بہلانے اور ساتھ ملانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔وہ یونیورسٹیوں میں جا کر نوجوانوں کو سمجھانے بجھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔یہ سب سن کر میں نے ستم ظریف کو سمجھایا اور بتایا کہ وہ مجھے پرانی باتیں نئی بنا کر نہ بتایا کرے،میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ پچھلے دنوں نگران وزیراعظم نے لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے چند نوجوانوں سے خطاب کر کے مکالمے کی کوشش کی تھی۔اور صاف نظر آرہا تھا کہ سب کچھ طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے۔ لہٰذا میں نے اسے کہا کہ براہ کرم آئندہ پرانی خبریں نئی بنا کر نہ سنایا کرے۔اس پر ستم ظریف نے الٹا میری ذہنی صحت کے لیے دعائیں شروع کر دیں اور کہنے لگا کہ مجھے آرام کرنا چاہیے اور اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو اچھی خوراک بھی کھانی چاہیے۔ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ آپ کچھ بھی نہیں جانتے ، زمانہ حال اور اطراف و جوانب کے حالات کے بارے میں بالکل لاعلم ہیں۔مجھے اس کی حق گوئی و بے باکی پر خوشی تو ہوئی ،مگر اپنی حددرجہ بے خبری بھی اچھی نہیں لگی۔اگرچہ اہل دانش و بینش بے خبری میں عافیت تلاش کر لیتے ہیں،پھر بھی میں سوچتا رہتا ہوں کہ ہمارے ہاں “خبر ” کا تعین سنجیدگی کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔مثال کے طور پر یہی دیکھ لیں کہ اگر اس ملک کے نوجوانوں کی ذہنی سطح ، مسائل ، تفکرات ، ذرائع معلومات ، تفریحات اور معاشرے سے توقعات آج سے تیس چالیس سال پہلے کے نوجوانوں سے بالکل مختلف ہیں ،تو میرے لیے یہ اطلاع خبر کا درجہ نہیں رکھتی، یہ نظر یعنی شعور کا معاملہ ہے اور جو افراد یا ادارے اس سے بے خبر ہیں، انہیں اپنے نفسیاتی علاج اور حیاتیاتی توازن کے لیے معالجین تلاش کرنے چاہیں ۔ستم ظریف نے اچانک ایک عجیب سا سوال کر کے مجھے حیران کردیا ،پوچھنے لگا کہ کیا سوشل میڈیا شیطان کی ایجاد ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میری معلومات کے مطابق شیطان سائنس اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی نہیں رکھتا ، نہ ہی اس نے کبھی فزکس ، کیمسٹری ، کمپیوٹر سائنسز ، میتھ اور اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں کبھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔اس کے پاس جہالت کا ایسا کارآمد اور موثر ہتھیار موجود ہے ،جس کے ہوتے ہوئے اسے کوئی نئی چیز ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے ، یہ سراسر انسانی ایجاد اور انسانی معاملات سے تعلق رکھنے والا وسیلہ ہے۔ہاں اسے اپنی مرضی سے استعمال نہ کر سکنے پر اسے ’’شیطانی میڈیا‘‘ قرار دینا شیطان کے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔علامہ اقبال کب کا بتا چکے ہیں کہ شیطان بوجہ پیری کہنہ اندیش ہو چکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ “گناہ تازہ تر” کی تخلیق کرنے سے قاصر ہے ۔شیطان کی اسی نااہلی کے باعث اقبال نے حق تعالیٰ کے حضور گذارش پیش کی تھی کہ شیطان کو کار ِجہاں سے فراغت دے دینی چاہیئے ۔اب جہاں تک عصر ِحاضر میں شیطان کے منصب و مصروفیات کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ایک عام پاکستانی کی طرف سے کوئی اندازہ قائم کرنا ناممکن سی بات ہے۔عالم ایجاد میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ہم نے پون صدی میں پاکستان کو ایک طفیلی ریاست ، ایک ہمہ وقت خطرات کا شکار ریاست، ایک مختلف آوازوں اور مختلف حلیے بنا کر بھیک مانگنے والی ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ہم نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی اور علوم کی ترقی کے راستے مسدود کر دیئے ہیں۔اب قیام پاکستان کے بعد کی تین چار نسلوں کو تو ہم نے بہلا پھسلا کر وقت گزار لیا ، اور ہم بین الاقوامی شکاریوں کا ہانکا بن کر گزر اوقات کرتے رہے ۔اب مسلہ یہ بن گیا ہے کہ ہمارے نوجوان سوال پوچھنے لگے ہیں ،وہ ہماری بتائی اور پھیلائی ہر خبر کے غلط ثابت ہونے پر نالاں ہیں۔وہ دنیا بھر میں معلومات کے ذرائع تک رسائی رکھتے ہیں۔جب ہمیں بہت زیادہ غصہ آجائے تو ہم انٹرنیٹ سروسز میں رکاوٹ ڈال کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے دوسروں کی آنکھیں اور کان بند کر دیئے ہیں۔ ہم اپنی نالائقی کی طرف اشارہ کرنے والی ہر خبر کو شیطان کی کارستانی قرار دینے میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں۔شاید ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہماری شیطان پر فاسق الزام تراشی سے شیطان کے خلاف نفرت اور بے زاری میں کافی حد تک کمی آتی جا رہی ہے ۔ایسی صورت حال کا مقابلہ پرانے اور مروجہ “مطالعۂ پاکستان” سے نہیں کیا جا سکتا، پاکستان کو نژادِ نو کی آرزوؤں کے مطابق اکیسویں صدی کا پاکستان بنانے کے لیے ایک نئے اور تازہ “مطالعۂ پاکستان” کی ضرورت ہے ،ایسا مطالعہ پاکستان جس میں ریاست کو ایک فرضی قسم کا رنگ برنگا بت بنا کر پیش کرنے کے عوض ایک واقعتاً آزاد ، سراسر انسانی ، مکمل طور پر علمی اور فلاحی ملک بنا کر پیش کیا گیا ہو، جس کا دامن روایات و حکایات کی کانٹے دار جھاڑیوں میں الجھا ہوا نہ ہو،جو ایک “نظریاتی”کی بجائے ایک انسانی اور فلاحی ریاست ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں