24نومبر کی تاریخ بہت تیزی سے قریب آتی جارہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کیا گھنٹوں میں حالات اور واقعات میں تبدیلی ہوتی جارہی ہے۔ سب سے اہم تبدیلی میاں گل حسن اورنگزیب جج اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم تھا۔ توشہ خانہ 2فراڈ کیس یا جھوٹا کیس دوبارہ دفاعی اداروں نے بنایا۔ آج اس ہی کیس میں عمران خان کی ضمانت ہو گئی۔ اندرون خانہ کیا کچھ ہورہا ہے کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے۔ کبھی مشاہد حسین سید ہر انٹرویو میں یہ کہتے آرہے ہیں کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد عمران خان کو جیل میں رکھنا ممکن ہی نہیں اس حکومت کیلئے اور نہ فوج کے پاس اتنی ہمت ہے کہ وہ امریکہ سے ٹکر لے سکے۔ ملک معاشی طور پر ڈیفالٹ کے قریب ہے وزیر خزانہ چاہے جتنی ہی فلمی کہانیاں سنا لیں لیکن حقیقت یہ ہے ملک تباہی کی طرف گامزن ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے تین ماہ پہلے پاکستان آ کر سب کے کان کھڑ کر دئیے ہیں۔ فوج کو بھی اس بات کا اندازہ ہے اب بھی عدلیہ میں انصاف کرنے والے ججز موجود ہیں اور عدلیہ کو جہاں بھی موقع ملا وہ انصاف ہی کریں گے اور عمران خان کو انصاف دیں گے۔ ایک ایک کر کے عمران خان کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات ختم ہوتے جارہے ہیں یا اپنی موت مرتے جارہے ہیں لیکن فوج بضد ہے اس نے عمران خان کو چھوڑنا نہیں ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس در حقیقت عاصم منیر کو عمران خان کو رہا کرنے پر اپنی موت اور جیل نظر آرہی ہے۔ اس کو معلوم ہے عمران خان چاہے حکومت میں ہو یا نہ ہو وہ اس پر بھرپور وار کرے گا۔ جب قید میں عمران خان اس کے قابو میں نہیں آرہا ہر حربہ آزمانے کے بعد بھی وہ نہیں ٹوٹا تب وہ آزاد عمران خان کو کیسے قابو کر سکیں گے۔ عوام عوام کا غیض و غضب پاکستان سے لیکر لندن اور فرانس تک سب کو نظر آرہا ہے چاہے وہ فراڈیا قاضی عیسیٰ ہو یا نواز شریف یا خواجہ آصف چور چور کے نعرے سب کا پیچھا کریں گے اور کررہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے 24نومبر کی کال یا آخری کال عمران خان نے کیوں دی؟ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک ایک کر کے ہم سب کو ڈسکس کرنے کی کوشش کریں گے سب سے پہلے بات عمران خان بلاوجہ گرفتار ہوئے ۔ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ستر سال سے زیادہ کی عمر نے عمران خان کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ وہ بلاوجہ اور بلاسزا جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔ 9 مئی کا ڈرامہ فوج اور رنا ثناء اللہ کا ڈرامہ تھا۔ یہ ایک منصوبہ بندی سے فوج نے کھیل کھیلا اس لئے کہ نہ تو عدلیہ اور نہ عمران خان کسی طرح قابو آرہا تھا۔ فوج بہت خاموشی سے منصوبہ بندی کررہی تھی اور موقع کی تلاش میں تھی 9مئی نے وہ مواقع فراہم کردیا۔ فوج نے بہت تیزی سے اس سے فائدہ اٹھایا میڈیا میں ایسی دہشت پھیلا دی گئی کہ میڈیا خاموش رہا اس سے پہلے فوج فیصل واوڈا جیسے ٹائوٹ خرید چکی تھی۔ وہ اس سے پہلے ایک پریس کانفرنس کر چکا تھا اُس ڈرامے باز کو ہر طرف خون ہی خون نظر آرہا تھا اور وہی ہوا عمران خان پر گولی چلی لیکن اللہ نے عمران خان کو بچا لیا۔ فیصل واوڈا کی پیشن گوئی کامیاب ہو گئی۔ اس کو پتہ تھا عمران خان پر گولی چلے گی۔ تیسرے عمران خان کو پتہ ہے آگے سردی آنے والی ہے اور یہ دو تین ماہ تک سردی کی لہر رہے گی۔ سردی میں دھرنا دینا یا تحریک چلانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے نومبر کا آخری مہینہ ہے۔ جنوری میں ٹرمپ نے حلف لینا ہو گا اگر اس میں کامیابی نہیں ہوتی تو پھر ٹرمپ یا محمد بن سلمان کا انتظار کرناہو گا۔ چوتھے اگر کارکنوں کو اتنا لمبا گیپ دے دیا جاتا ہے تو کارکن دوسرے کاموں میں لگ جاتے ہیں پانچویں بات اب وہ فوج کو مزید موقع نہیں دینا چاہ رہے ہیں۔ تین تحریک چلانے اور اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کے بعدان کو حکومت کی انتظامی کمزوریوں کا بھی پتہ چل گیا ہے اب وہ وہیں سے اسلام آباد حملہ آور ہونگے۔ آخر بات کرکٹ کا ٹی 20ٹورنامنٹ بھی پاکستان میں ہورہا ہے جس سے حکومت کو کروڑوں ڈالر آمدن کی امید ہے اور حالات کی وجہ سے اگر کوئی بھی ٹیم آنے سے انکار کرتی ہے تو مالی نقصان کے علاوہ پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی بھی ہو گی پہلے ہی ایک سربراہ کانفرنس ملتوی ہونے سے پاکستان بال بال بچا ہے عمران خان نے اپنی تحریک کو ملتوی کر دیا تھا لیکن حکومت نے اس کی آڑ میں 26ویں ترمیم راتوں رات منظور کروا لی۔ عدلیہ بے اثر ہو گئی جسٹس امین الدین خان جیسے ٹائوٹ آئینی بنچ کے سربراہ بن گئے۔ سینئر ترین جج کو اس کا حق نہیں ملا۔ یہ ظلم اور بدمعاشی ہے ان دفاعی اداروں کی جس کی سربراہی جنرل عاصم منیر کررہا ہے۔ آئندہ چند روز میں کیا ہونیوالا ہے کسی کو نہیں پتہ اگر عمران خان کو مزید جیل میں رکھا گیا تو حکومت کو حالات سنبھالا بہت مشکل ہو جائے گا اگر عمران کو ضمانت پر چھوڑ دیا گیا تو کرکٹ ٹورنامنٹ بھی ہو جائے گا، حالات بھی قابو میں رہیں گے لیکن عمران خان کو واپس گرفتار کرنا مشکل ہو جائے گا اور یہ حکومت جو فارم 47 کی پیداوار ہے چند ماہ میں ختم ہو جائے گی۔
0