دہشتوں کاسفر
خوف کا توشہ اپنے ساتھ لئے
اک نئی رہ گزار پہ نکلی ہے
ایسا لگتا ہے جیسے ساری قوم
دہشتوں کے سفر پہ نکلی ہے
قارئین کرام پاکستان اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے مراسم کم از کم سات عشروں پر محیط ہیں، پاکستان بننے کے بعد مرحوم وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان کو روس اور امریکہ نے دورے کی دعوت دی۔ پاکستان سے قریب ہونے کے باوجود شہید ملت نے امریکہ کی دعوت قبول کی اور اس قبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور روس کو لادینی حکومت تصور کیا جاتا تھا۔ لیاقت علی خان کے ودرے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اور گہرائی پیدا ہوئی اور پاکستان کو امریکہ نے یہ یقین دلایا کہ امریکہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ امریکہ کے صدر لنڈن بی جانسن نے خیر سگالی کے طور پر پاکستان کو خطیرتعداد میں مفت گندم فراہم کی اور پاکستانی عوام کو رجھانے کے لئے بشیر ساریان کو اونٹ گاڑی کے بجائے ٹرک کا تحفہ پیش کیا اور پاکستان میں جگہ جگہ پاکستان اور امریکہ کی دوستی کے اشتہار نظر آنے لگے لیکن یہ ودستی صرف زبانی کلامی ہی رہی۔ چند سال بعد ۱۹۷۱ء میں جب اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو برسوں کا دوست امریکہ یک ٹک دیکھتا رہا۔ بس اتنا اعلان کیا کہ ہمارا بحری جہاز بحر عرب کے ذریعے جلد آنے والا ہے لیکن یہ وعدہ وعدہ ہی رہا۔ امریکہ دیکھتا رہا اور بھارت نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے نعرہ لگایا کہ ہم نے ’’دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ پاکستان دولخت ہونے کے باوجود امریکہ کی دوستی کے گن گاتا رہا اور سیٹو، سینٹو میں اس کا حلیف بنارہا۔ پھر یہی امریکہ رفتہ رفتہ بھارت سے قریب ہو گیا اور اس کی کوششوں سے بھارت اور روس کی بھائی چارگی مدھم پڑتی گئی۔ امریکہ ہو یا روس یورپ ہو یا مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید ہر ملک دوسرے ملک سے تعلق اپنے مفاد اور منفعت کی بنیاد پر رکھتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب ،قطر اور امارات پاکستان کے دوست اور آئی ایم ایف میں اس کے ضامن بنے ہیں اس میں دوستی کم اور مصلحت زیادہ کار فرما ہے۔ ادھر چین بھی پاکستان سے قربت میں اپنے مفاد کو وابستہ کرتا رہا ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے اقتدار میں پاکستان سے دوستی کا نعرہ لگایا اور جب عمران خان بحیثیت وزیراعظم پاکستان امریکہ گئے تو ان کا بڑے والہانہ طور پر استقبال کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت پرجوش انداز میں ان کی پذیرائی کی لیکن حکومت بدلتے ہی امریکہ کے سابق صدر کے دور میں عمران خان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ یہ امر سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے اور قرائن کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں جہاں اور عناصر کار فرما رہے وہاں امریکی حکومت کی مساعی بھی شامل ہیں۔ ہمارے خیال میں جب سے عمران خان نے ’’ایبسلوٹلی نوٹ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اس وقت سے ان کی حکومت کی بنیادیں ہلنا شروع ہو گئی تھیں۔ وقت نے اب پھر ایک کروٹ لی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ پھر کرسی اقتدار پر براجمان ہو گئے ہیں۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان افواہوں نے زور باندھا ہے کہ ٹرمپ عمران خان کی بریت کے لئے اہم کردار ادا کریں گے اور عمران خان کو قید خانے سے باہر نکالیں گے۔ تحریک انصاف کے کچھ بڑوں کو یقین ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ حکومت پاکستان پر زور دیں گے کہ عمران کان کو جلداز جلد رہا کیا جائے۔ تحریک انصاف کے ان بڑوں کے اعلانات کے علی الرغم عمران خان اور ان کی بہنوں کا کہنا ہے کہ ہم امریکہ کے غلام نہیں ہیں کہ اس کے حکم پر عمران خان رہائی پائیں۔ ہم پچیس کروڑ عوام ہیں اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ عمران خان باہر آئیں گے تو اپنی عدلیہ کے بل بوتے پر اس ذیل میں حکومت نے اس امکان کو رد کر دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل دے گا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے معاملات میں ہمیشہ دخیل رہا ہے خصوصاً عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کے ذیل میں ایک اہم کردار ادا کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی کہتے ہیں کہ ’’ٹرمپ کاپاکستان آ کر عمران خان کو رہا کرانا ایک لطیفے سے کم نہیں ہے‘‘۔ اس ذیل میں ہم بھی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال صاحب کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ امریکی صدر خود نہیں آئیں گے بلکہ عمران خان کے معاملے میں کچھ دوڑیں ضرور ہلائیں گے۔ ہماری صاحبان اقتدار سے درخواست ہے کہ عمران خان کے معاملے میں کسی بیرونی عنصر کو مداخلت کا موقع ہی نہ دیں اور دستور قانون اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خود ہی عمران خان کو قید سے آزاد کردیں کہ سیاسی مصلحتوں کے لئے یہ مناسب ترین قدم ہو گا۔