0

وہ بات؛ جو نیتن یاہو نہیں جانتا!

اور وہ بات یہ ہے کہ آس پڑوس میں رہنے والے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر وہ اسرائیل میں رہنے والے انسانوں کی زندگی کا سامان پیدا نہیں کرسکتا ۔موت کا کھیل ،جس کا ایک نام جنگ بھی ہے ، کبھی بھی زندگی پیدا کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔ اسرائیل کا مسلسل حالت جنگ میں رہنا امریکہ ، برطانیہ اور جزوی طور پر چند یورپی ملکوں کے مفاد میں ہو تو ہو، ریاست اسرائیل اور وہاں بسنے والے یہودیوں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہے۔اگر یہودی یہ تجربہ رکھتے ہیں کہ ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کا اجتماعی قتل عام یہودیوں کو ختم کرنے اور دوبارہ سے زندگی کے خزانے سے اپنا حصہ وصول کرنے سے نہیں روک سکا، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں اور ان کے کمسن بچوں کو بے رحمی سے قتل کرنے کے بعد نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت سے بچ جائے گا ،جس کے مطابق ہر عمل کا ایک مساوی ردعمل سمت میں اس کے مخالف۔ لازماً وقوع پذیر ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے مٹا کر بھی نیتن یاہو فلسطینیوں کو تاریخ کی یادداشت سے محو نہیں کر پائے گا۔آج کل غروب ہوتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کی اپنی طبعی عمر پوری کر چکی آنکھوں کا تارہ بننے والا نیتن یاہو نہیں جانتا کہ اسرائیلی سفاکیت کے خلاف انسانیت اپنا ردعمل مرتب کرنا شروع کر چکی ہے۔اسرائیل نے امریکی تائید و حمایت سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو مختلف معاوضوں پر آنکھ ، کان اورمنہ بند رکھنے پر آمادہ کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان ممالک میں اسرائیلی جارحیت اور ہلاکت خیزی کے خلاف کوئی شدید ردعمل سامنے نہیں آ سکا۔لیکن خود امریکہ اور یورپ میں میسحی ، یہودی ، مسلمان اور دیگر انسان محض انسانیت کے حوالے سے فلسطین میں تاریخ کی بدترین انسانی نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔نیتن یاہو نہیں جانتا کہ یہ ٹیلی وژن کی اسکرین پر نظر آنے والے مظاہرے کس لمحے ایک حیران کر دینے والے ردعمل کی صورت اختیار کر کے اسرائیل میں بسنے والے انسانوں کی ہلاکت اور بربادی کا باعث بن سکتے ہیں۔اسی لیے کہتا ہوں کہ نیتن یاہو اور اس کے غبارے میں ہوا بھرنے والے جو بائیڈن کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ کوئی بھی ریاست اور کیسی بھی سیاست ظلم اور ہلاکت خیزی کے سکوں سے اپنی بقا اور اپنے شہریوں کی زندگی کا اہتمام نہیں کر سکتی۔ یہ جانتے ہوئے کہ !اسرائیل کے مظالم اور انسان دشمنی کی تہہ میں برائیوں کی جڑ برطانوی دماغ اور اسلحے کا ڈپو امریکی پینٹاگون چھپا ہوا ہے، اس بات کو سمجھنا بھی آسان ہے کہ اسرائیل ایران پر اپنا ردعمل دینے میں امریکہ کے ساتھ کان میں چپکے چپکے کیا باتیں کر رہا ہے ۔؟قیاس چاہتا ہے کہ اسرائیل کے ردعمل میں توقف کی وجہ ضبط و تحمل نہیں ، بلکہ ایران کے حکمران ڈھانچے میں رخنوں کی تلاش اور انہی ممکنہ قریبی اور اندرونی رخنوں کے ذریعے قیادت کو مٹانے کی کوشش کا خواب ہے۔اسرائیل اب تک اپنی اہداف کشی کی صلاحیت کے کئی کامیاب مظاہرے کر چکا ہے۔ اس نے بے رحمانہ مہارت اور امریکہ کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی کے ذریعے حماس ، ایرانی کمانڈرز اور حزب اللہ کے متعدد رہنماؤں کو ان کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا ہے۔ اب وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کے ساتھ ساتھ ایران کی سیاسی قیادت پر ایک ساتھ حملہ کرنے کی تدبیر لڑا رہا ہے۔اس کے نتائج نہ معلوم مگر ہولناک ہو سکتے ہیں۔ اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ شاہ ایران کے خلاف ایران کے بائیں بازو کے عوام اور رہنماؤں کی طویل اور قربانیوں سے لبریز جدوجہد کو کس طرح ایران کے روحانیان کی جھولی میں ڈالا گیا اور اس عمل میں اپنا کردار چھپانے کے لیے کس طرح تہران کے امریکی سفارت خانے پر طالب علموں کے حملے اور قبضے کا ڈرامہ رچایا گیا۔یہ ڈرامہ طویل اور صبر آزما تھا ،لیکن امریکہ کے لیے اپنے عرب حلیفوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایسے ڈرامے کی سخت ضرورت بھی تھی۔لیکن اس کے بعد ایران کی نئی قیادت نے شاہ ایران والی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف حکمت عملی اس مہارت اور احتیاط کے ساتھ وضع کی کہ!ایران عراق جنگ میں اسرائیل سے اسلحے کی ترسیل بھی ہوتی رہی۔بہت سارے سوچنے سمجھنے والے لوگ ایران کی اسرائیل “دشمنی” کو اسرائیل کی بقا کی ضمانت بھی خیال کرتے رہے ہیں۔ایک خیال یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر ایران اور دیگر چند ممالک اسرائیل سے سفارتی مراسم استوار کر لیتے تو فلسطینیوں اور فلسطینی ریاست کے حوالے سے بہتری اور برابری کے متعدد امکانات کو ممکن بنایا جا سکتا تھا ۔لیکن ایسا امریکہ نہیں چاہتا تھا۔ دنیا میں امن اور جنگ سے گریز کا رجحان امریکہ کی ڈیفنس انڈسٹری کے لیے موت کا پیغام سمجھنا چایئے ۔وہ اسرائیل کو تنازعات اور تباہی کا “کاشتکار” بنا کر یہودیوں سے غالباً وہ انتقام لینے کی کوشش کر رہا ہے ،جس کی حسرت مبینہ طور پر دل میں لیے اڈولف ہٹلر اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا ۔ امریکہ کے زائد العمر صدر جو بائیڈن نے اپنی مدت کار کے اختتام تک نیتن یاہو کی فہم و فراست کے خالی غبارے میں اتنی ہوا بھر دی ہے اور دوسری طرف حماس کے ” طوفان اقصی” نے اسرائیل کو غزہ ، لبنان اور دیگر مزاحمت کاروں کو تباہ و برباد کرنے کا تاریخی موقع فراہم کر کے ، رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے ۔ اور اب انتہا یہ ہے کہ امریکہ کا لاڈلا صیہونی بدمعاش نیتن یاہو اسلحہ کی سپلائی پر پابندی کی تجویز دینے والے فرانسیسی صدر تک کو شرم کرنے کی ہدایات جاری کر رہا ہے۔ستم ظریف کا خیال تو یہ ہے کہ!کوئی نسلی یہودی اسقدر بدتہذیب اور موذی نہیں ہو سکتا۔لیکن حالات و واقعات یہ باور کرا رہے ہیں کہ نیتن یاہو یہودی اخلاق و کردار اور صدیوں کے تجربات اور ان کے نتائج سے مکمل طور پر لاعلم ہے ،وہ نہیں سمجھ سکا کہ دنیا میں موت اور تباہی بکھیر کر وہ اپنی ریاست اور اپنے شہریوں کے لیے زندگی اور سلامتی نہیں خرید سکتا۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو کام گزشتہ بیس سالوں میں ایران نہیں کر سکا، اگر وہی کام نیتن یاہو کر گزرے ،یعنی ایران کے ساتھ یک طرفہ دوستی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر وہ حملہ نہ کرے ، جس کے انتظار میں پوری دنیا کے لیڈر کانوں میں انگلیاں ڈالے اور سر پر تولیہ لپیٹے خاموش بیٹھے ہیں، لیکن یہ محض ایک خواب دیوانگی ہے ۔ جو بائیڈن نیتن یاہو کو کہہ رہا ہے کہ ایران میں تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے کی بجائے متبادل اہداف تلاش کرے۔عمومی خیال یہ ہے کہ جو بائیڈن کا اشارہ شاید ایٹمی تنصیبات کی طرف ہے ،لیکن جو بائیڈن ضعف و پیری کے باوجود اتنا چوکس اور مکار ضرور ہے کہ وہ اسرائیل کو ایران میں ریاست کی بجائے “حکومت” پر حملہ کر کے اسے ختم کرنے کی صلاح دے ۔یہ ایک مشکل اور پیچیدہ ہدف ہے۔لیکن ایران کے اندر سیاسی اختلاف رائے کو ایک بڑی دڑاڑ میں تبدیل کر کے اس کے حکومتی ڈھانچے کو توڑنا اور ساتھ ہی ساتھ اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر کے ایران کے اندر ایک اسرائیل دوست حکومت کی توقع اور تلاش کرنا ، میرے نزدیک ایک بے تعبیر خواب جیسا عمل ہو گا۔اور یہی وہ بات ہے جو نیتن یاہو نہیں جانتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں