0

ڈاکٹر شبلی صاحب کا کیا حال ہے؟

گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد کے دوستوں کے مابین ایک عمومی مکالمہ یہ بھی رہتا تھا کہ ؛یار ڈاکٹر شبلی صاحب کا کیا حال ہے؟کوئی رابطہ ہوا ؟ کوئی ملاقات؟ کوئی حال احوال؟ سوال کرنے والا اور جس سے سوال کیا جارہا ہوتا ، دونوں اس سوال کے جواب کی اذیت سے واقف تھے ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی آواز اور پہچان رہنے والے پروفیسر کا یوں گھر پر مقیم بلکہ مقید ہو جانا سبھوں کو اداس کر دیتا تھا۔ساری زندگی ایک بلند اور بھرپور خودی کی کیفیت میں گزارنے والے کو بےخود دیکھنا بڑی تکلیف کا باعث ہوتا ہے ۔ان کی یادداشت ساتھ چھوڑ گئی تھی۔اواخر عمر ایک بوڑھا خدمت گار اور ان کا چھوٹا بیٹا مسعود ان کے ساتھ رہتے تھے۔ مسعود سب بہن بھائیوں سے چھوٹا ہے، لیکن پھر اس ننھے بچے نے اپنے ضعیف باپ کی اس طرح سے دیکھ بھال اور خدمت کی ،جس طرح بڑے لوگ اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ دو سال پہلے ؛ 2 اور 3 نومبر 2022ء کی درمیانی شب ڈاکٹر صدیق خان شبلی دنیا کی مجازی محفل سے کنارہ کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو گئے۔ آج بھی اس گھر کے باہر لگی نام کی تختی پر انگریزی میںڈاکٹر صدیق شبلی ، مکان نمبر 52، اسٹریٹ 83، جی ۔ایٹ۔ون لکھا نظر آتا ہے ۔اب وہاں مسعود رہتا ہے۔گھر انہوں نے بروقت بنا لیا تھا ،اس لیے چھت نہ ہونے کے پچھتاوے سے محفوظ رہے ۔سیکٹر جی ایٹ کی مشہور الرشید مسجد کے قریب ان کا گھر ہے۔ مسجد میں جمعہ کی نمازپڑھنے پیدل جایا کرتے تھے۔گھر کے پاس ہی ایک چھوٹی محلہ مارکیٹ تھی ،جہاں ضرورت کی اشیاء بآسانی مل جایا کرتی تھیں۔ ایک دور تھا جب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی کا ذکر ایک ساتھ کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صدیق خان شبلی طویل عرصہ تک شعبۂ اُردو کے چیئرمین رہے ، یونیورسٹی کے رجسٹرار ہوے، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹیز کے ٹینیور بھی پورے کئے ،بھلے اور مقبول پروفیسر تھے ۔پنجابی گھر کی زبان تھی، اُردو ، فارسی علمی اور پیشہ وارانہ زبان جبکہ انگریزی پاکستان جیسے ملک میں انتظامی صلاحیت کا سب سے بڑا سرٹیفکیٹ شمار ہوتا ہے ڈاکٹر شبلی صاحب ان سارے لوازمات سے مالامال تھے۔اگرچہ بزرگ تھے، لیکن انتہا درجے کی بے تکلفی بھی تھی۔اوپن یونیورسٹی میں آتے ہی جن احباب سے تعارف ہوا اور واقعتاً حلقۂ احباب بنا ،ان میں ڈاکٹر محمد ریاض (شعبہ اقبالیات)، ڈاکٹر صدیق خان شبلی (شعبہ اردو) پروفیسر رحیم بخش شاہین (اقبالیات ) امر جلیل قاضی ( انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی)، سعید احمد چودھری ( ریجنل ڈائریکٹر فیصل آباد ، ڈائریکٹر جنرل ریجنل سروسز)، بشیر محموداختر (ادارہ تالیف و ترجمہ و خوش نویسی) انوار الحق ( ادارہ تالیف و ترجمہ و خوش نویسی) ، چودھری محمد حنیف (شعبہ عربی) ڈاکٹر سعد اللہ کلیم( شعبہ اردو) ڈاکٹر محمود الرحمن ( دفتری اردو)، ڈاکٹر اعجاز راہی ( شعبہ اُردو)ڈاکٹر طارق رحمان ( انگریزی)، جو کچھ عرصہ یونیورسٹی میں رہے لیکن شعبہ انگریزی کی اندرونی سیاست ان کی قابلیت اور روشن خیالی کو ہضم نہ سکی ، وہ کسی بہتر جگہ پر چلے گئے۔ دیگر احباب بھی تھے ، ان سب کی قدر مشترک عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہونا تھا۔میرے ایک انجینئرر دوست نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ محترم( یہ اس کا تکیہ کلام تھا)آپ سارا دن بزرگوں کی صحبت میں بیٹھے رہنے سے بزرگ تو شاید نہ بن پائیںں ، احمق ضرور بن جائیں گے ، اپنی کمپنی تبدیل کرو یار ۔میں نے اس دوست کو جواب دیا تھا کہ ہمارے ملک میں کمپنی کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ، یہاں ہمیشہ کمپنی کی حکومت ہی رہے گی۔ میرا دوست کچھ دیر خاموش رہا ، پھر آہستہ سے کہنے لگا کہ یہ لائل پور شہر اگر کہیں وسطی ہندوستان میں ہوتا تو کمپنی کی حکومت کب کی نیست و نابود ہو چکی ہوتی۔ اور لائیلپور کے باری علیگ “کمپنی زوال ” نامی کتاب کے مصنف ہوتے ۔خیر بزرگوں کی “کمپنی ” میں آنے والے سالوں میں میرے قریب العمر دوستوں نے ایک توازن قائم کردیا تھا۔ ڈاکٹر صدیق خان شبلی سے تعارف اور دوستی بھی عجیب طریقے سے شروع ہوئی تھی ۔میں 1985ء میں شعبہ اقبالیات کا لیکچرار ہو کر یونیورسٹی آیا۔ان دنوں ڈاکٹر جی اے الانا وائس چانسلر ہوا کرتے تھے۔ایک تاثر یونیورسٹی میں موجود تھا کہ ڈاکٹر الانا سندھی ہونے کی وجہ سندھیوں کو یونیورسٹی لانے کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔جب میں یونیورسٹی میں آیا تو اگلے ہی روز وائس چانسلر نے مجھے اپنے آفس بلایا اور ذمہ داری تفویض کی کہ میں کم سے کم مدت میں یونیورسٹی میں ایک لٹریری فورم قائم کروں ، انہوں نے کہا کہ میں اوپن یونیورسٹی کو اسلام آباد کا ادبی مرکز بنانا چاہتا ہوں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں شعبۂ اُردو کے لوگوں کو ایک عرصے سے کہہ رہا ہوں لیکن وہ لمبی لمبی کہانیاں سناتے ہیں اور بڑے بڑے بجٹ پیش کرتے ہیں۔وہ کام کرنا نہیں چاہتے۔آپ ان میں سے کسی سے بھی مشورہ کئے بغیر یہ کام کریں۔اس کے لیے آپ کا رابطہ براہ راست میرے ساتھ رہے گا۔ انہوں نے اپنے پی اے کو بلا کر کچھ ہدایات جاری کیں ،جن کا خلاصہ یہ تھا کہ کامران جب ملنا چاہے تو فوراً ملائیں ، جس طرح کی اجازت اور سہولت چاہیئے ،وہ بھی فوری طور پر فراہم کریں۔خیر اس ہدایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونیورسٹی میں اوطاق نام کا ایک لٹریری فورم قائم ہو گیا۔میں نے اس کے لیے کسی بجٹ کی تجویز پیش نہیں کی۔ایک ہفتے کے اندر اندر اس فورم کا پہلا اجلاس یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں منعقد ہو کر اسلام آباد میں مقبولیت حاصل کر چکا تھا۔پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔خیر جیسے ہی یہ خبر یونیورسٹی میں عام ہوئی کہ شعبہ اقبالیات میں ایک لیکچرار آیا ہے ،جو وائس چانسلر سے بلا رکاوٹ ملتا رہتا ہے ،تو یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا کہ ہو نہ ہو شاہد اقبال کامران سندھی ہے۔اس دور میں شعبہ اقبالیات کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ریاض صاحب اور شعبۂ اُردو کے چیئرمین ڈاکٹر صدیق خان شبلی کے مراسم سرد مہری کا شکار تھے۔جس کا علم مجھے بہت بعد میں ہوا۔ڈاکٹر صدیق خان شبلی یونیورسٹی کے نہایت درجہ باخبر ، چوکس اور متحرک پروفیسر تھے ۔انہوں نے یونیورسٹی کے ہر قابل ذکر شخص سے ذاتی دوستی قائم کر رکھی تھی۔گفتگو کے بادشاہ تھے، محفل سجانے اور آباد کرنے کا ہنر جانتے تھے ۔جس روز میری وائس چانسلر صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی اور مجھے ادبی فورم بنانے کا ہدف ملا تھا، اسی روز اس ملاقات کی ساری تفصیلات ان تک پہنچ چکی تھیں۔بعد میں اندازہ ہوا کہ انہوں نے وائس چانسلر آفس کے عملے میں مختلف سطح کے اہل کاروں کے ساتھ قریبی روابط استوار کر رکھے تھے ۔اس ملاقات کے اگلے ہی روز ڈاکٹر صدیق شبلی صاحب نے مجھے اپنے شعبے میں دعوت پر مدعو کر لیا۔میں چلا گیا ۔وہاں پہلی بار پروفیسر نظیر صدیقی صاحب اور نثار احمد قریشی سے ملاقات ہوئی ، وہاں ڈاکٹر صدیق شبلی صاحب نے مجھے ایک سندھی لیکچرار سمجھ کر مدعو کیا تھا ،جو امکانی طور پر وائس چانسلر کے بہت قریب اور ان کے کسی دوست کا بیٹا ہوسکتا ہے ۔وہ مجھ سے نستعلیق اُردو میں بات چیت کر رہے تھے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق کس شہر یا گوٹھ سے ہے ۔جب میں نے لائیلپور کا نام لیا تو اچھل پڑے اور کہنےلگے لائیلپور مطلب فیصل آباد ؟؟ ان پر حیرت حملہ آور ہو چکی تھی۔جی ہاں فیصل آباد ۔پوچھنے لگے کہ فیصل آباد کیوں؟ میں نے بتایا کہ فیصل آباد میرا آبائی شہر ہے۔ تسی فیصل آباد دے او؟ وہ حیرت سے پوچھنے لگے۔جی ہاں میں فیصل آباد کا ہوں ۔پھر پوچھا، کس اسکول سے پڑھے؟ کس کالج میں ؟ پروفیسر کون تھے ؟ فلاں فلاں کو جانتے ہو ؟سارے سوالات کے جوابات نے انہیں لاجواب کر دیا ۔ بالآخر پوچھنے لگے ؛ پنجابی بول لیندے او؟ ہاں جی میری مادری زبان اے۔پوری آنکھیں کھول کر کہنے لگے کہ فیر پنجابی بول کے وخاو۔۔۔میں نے فوراً جواب دیا کہ وارا نیئں کھاندا ،ایک قہقہہ بلند ہوا اور پھر پروفیسر نظیر صدیقی صاحب کے سامنے وہ وہ پنجابی بولی گئی کہ وہ حیران ہو کر چپ بیٹھے رہے۔پھر تنگ آکر کہنے لگے؛ ارے بھئی آپ لوگ خود ہی بات کر کے خود ہی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ، دوسروں کو بھی شامل کر لیا کریں۔اس کے بعد ڈاکٹر صدیق خان شبلی صاحب سے ایک طویل تعلق استوار ہوا۔ اس دور میں شعبۂ اُردو یونیورسٹی کا سب سے متحرک ، زندہ اور روشن خیال شعبہ ہوا کرتا تھا۔یہی وہ شعبہ تھا کہ جہاں ڈاکٹر اعجاز راہی سے دوستی ہوئی ،اور ڈاکٹر اعجاز راہی کی دوستی کا سب سے بیش قیمت تحفہ ڈاکٹر رشید امجد صاحب سے تعلق کا آغاز تھا۔یوں کہیئے کہ اس دور میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی واقعتاً ان تمام عوارض سے واقعتاً آزاد تھی،کہ ہماری قدیم یونیورسٹیاں ایک طویل عرصے سے جن کا شکار چلی آرہی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں