صاحبو! پاکستان کو اس کے لوگوں نے اس حال پہ پہنچا دیا ہے کہ جس سے اس کا بچنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ہم چاہیں تو الزام غیروں پر ڈال دیں لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ قصور ہمارا اپنا ہے۔غیر تو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ پاکستان نہ صرف ایک اسلامی ریاست ہے،یہ ایک ایٹمی طاقت بھی ہے جو ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔پاکستانی عوام کو پہلے دن سے ہی تعلیم سے بے بہرہ رکھنے کا منصوبہ کامیاب رہا۔۷۵ سالوں میں بھی پاکستان میں نا خواندگی عروج پر ہے۔جو اشرافیہ کلاس ہے وہ ہر گز پاکستانیوں کو پڑھا لکھا نہیں دیکھنا چاہتی، کیونکہ تعلیم اگر صحیح ہو تو تعلیم یافتہ کو اپنے حقوق کا ادراک ہو جاتا ہے، اور ان کے حقوق کو پائمال کرنا آسان نہیں رہتا۔اس لیے جتنے کم پڑھیں اتنا ہی اشرافیہ کے لیے بہتر ہے۔ اب بھی جو جو پاکستانی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک کام کرنے والے ہیں جو گھر پیسہ بھیجتے ہیں کہ ان کے بچوں کو اچھی تعلیم ملے۔اس لیے آپ بھی حیران ہوتے ہونگے کہ دیہاتوں میں بھی انگریزی میڈیم کے سکول کھل گئے ہیں۔لیکن اس ترقی کے باوجود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانیوں کی اوسط تعلیم پانچ سال سے زیادہ نہیں ہے۔یہ تو اوسط ہے حقیقت میں پاکستان میں خواندہ کی تعداد63 فیصد سے بھی کم ہے یعنی چھ کروڑ کے قریب ان پڑھ ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو اپنے دستخط بھی نہیں کر سکتے۔خیریہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مفصل جائزہ کی ضرورت ہے۔
تعلیم کی کمی کا مطلب ہے زیادہ لوگ اپنے حقوق سے بے خبر ہیں۔ وہ ایسے حکمرانوں کو بار بار بر سراقتدار لے آتے ہیں جو چیدہ چیدہ لوگوں کو فائدہ پہنچا کر قوم کا بڑا نقصان کرتے ہیں۔ جیسے کہ نواز شریف نے اپنے آخری دور حکومت میں پہلے تو بجلی کا بحران پیدا کیا اور پھر بجائے اس بحران کے دیر پا اور کم خرچ حل کرنے کے، ایسی بیرونی سرمایہ کاری کی فیکٹریاں لگوائیں جن سے نا جائز فائدہ ہوتا ہے اور وہ منافع ان کی جیبوں میں جاتا ہے۔ یہ اتنے افسوس کی بات ہے کہ جو پڑھے لکھے عوام ہیں، وہ بھی زیادہ معلومات ٹی وی اور سوشل میڈیا سے لیتے ہیں۔ جو کسی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر ہم میں ایسی معلومات کو جانچنے اور پرکھنے کی اہلیت نہ ہو تو ہم غلط تاثرات کو ذہن نشین کر سکتے ہیں۔ اور ملک دشمنوں کے پراپیگنڈہ پر اعتبار لا سکتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا، یعنی زیادہ تر ٹی وی مالکان ان لوگوں کے حق میں خبریں اور پروگرام دیتے ہیں جو ان کو زیادہ اشتہار دیں یا ان کے صحافیوں کو مالا مال کر دیں۔ اس طرح عوام ناظرین جھوٹی خبروں اور تجزیوں پر ہی اپنے خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں۔
پاکستانی عوام نے یہ سیکھا ہی نہیں کہ وہ اپنے کئی مسائل خودحل کر سکتے ہیں۔یہ اس لیے کہ انگریزوں کے زمانے سے ہی عوام کو یہ سکھایا گیا تھا کہ وہ ہر مسئلہ کے لیے حکام سے مدد لیں گے، خود کچھ نہیں کریں گے۔ جب پاکستان انگریزوں سے آزاد ہو گیا تو نئی حکومتوں نے وہی پالیسی برقرار رکھی۔ اور عوام کو خود کسی مسئلہ کو حل کرنے کا موقع نہیں دیا۔ جس کی بڑی مثال مقامی خود مختار حکومتوں کا نہ بننے دینا ہے۔اس لیے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ،حکومت پر انحصار کرنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ وہ کتنی بھی مصیبتیں جھیلیں، اُف نہیں کرتے۔نہ سڑکوں پر آ کر احتجاج ہی کرتے ہیں۔ اب طلباء کی مثال لے لیں۔ حکومت نے انٹر نیٹ کو ڈائون کر کے ہزاروں کا روزگار ختم کر دیا ، لیکن یہ نو جوان بس گھروں میں بیٹھے روٹیاں توڑ رہے ہیں، باہر نکل کر اپنا احتجاج تک حکومت تک نہیں پہنچاتے۔یہ حکومت ان کے محبوب قائد عمران خان کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے، ان کی پسندیدہ پارٹی کے کار کنوں کو جیل میں ٹھونس رہی ہے۔ ان کی مائوں بہنوں کو زبردستی اٹھا کر لے جاتی ہے لیکن مجال ہے کوئی اُف کی آواز بھی سنائی دے جائے۔کیا ان لوگوں کا ضمیر مر چکا ہے؟ کیا ان میں سے احتجاج کی حس ہی مار دی گئی ہے؟ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔
آج پی ٹی آئی کے رہنما سوچ رہے ہیں کہ عوام کب اپنے حقوق کے لیے نکلیں گے؟ ان رہنمائوںکو اندازہ ہی نہیں کہ ان عوام کو اپنے حقوق کی پہچان ہی نہیں ، اس لیے انکو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق پائمال ہو رہے ہیں۔ وہ تو ہمیشہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی آئے گا تو وہ اس کے کہنے پر اٹھ کھڑے ہونگے۔وگرنہ اپنے آپ کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔اگر عمران خان چاہتے ہیں کہ عوام ان کے لیے کھڑے ہوں تو پہلے انہیں عوام کو شعور دینا ہو گا۔ ان کی تعلیم و تربیت کرنی ہو گی۔پھر ان سے کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔دنیا کے جن ملکوں میںعوام انقلاب لائے، وہاں نوجوان نسل تعلیم میں آگے تھی۔جن ملکوں میں عرب سپرنگ آئی وہاں کے نوجوان تعلیم میں آگے تھے۔ ترکی میں جب فوج نے حکومت پر قبضہ کا سوچا تو ان کے نوجوان ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔تو فوج کو اپنے ارادے بدلنے پڑے کیونکہ فوج اپنے عوام پر ٹینک نہیں چلانا چاہتے تھے۔ابھی حال میںبنگلہ دیش میں طلباء نے کمال کر دکھا یا۔ اگرچہ چار سو نے قربانی دی لیکن ان کی تحریک انتہائی کامیاب رہی اور انہوں نے شیخ حسینہ جیسی جابر اور ظالم حکمران کو باہر نکال پھینکا۔ اس کی وجہ ایک توطلباءمیں سیاسی بیداری اور شعور تھا دوسرے ان کو اپنے حقوق کا ادراک تھا۔ پاکستانی طلباء میں ان میں سے سے کسی ایک چیز کی کمی نظر آتی ہے۔البتہ ان کو اگر کوئی موثر رہ نمائی مل گئی تو شاید یہ معجزہ پاکستان میں بھی ہو جائے۔اس میں کوئی شک نہیں عمران خان کا بس نام ہی کافی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اسے صحت، تندرستی اور لمبی زندگی ملے کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدل سکے۔
ہماری فوج کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے، ہمیں اپنے سیاستدانوں پر گہری نظر ڈالنی ہو گی۔اب تک تو یہ روز روشن کی طرح عیاںہو چکا ہے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما ئوں کا ایک ہی مقصد حیات ہے کہ زیادہ سے زیادہ وسائل اور اوپر کی آمدنی اکٹھے کریں۔ چونکہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں، چور کیا اور صاد کیا، فوج کیا اور عدالتیں کیا، اس لیے یہ سب اکٹھے ہو کر ایسے قوانین بنوا رہے ہیں جن سے ان کی کوئی پکڑ نہ ہو سکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ حالیہ قانون ہے کہ محکمہ احتساب جسے نیب کہتے ہیں، اس کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ یعنی نیب کسی ایسے حکومتی بندے پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا جس نے پچاس کروڑ سے کم کی کرپشن کی ہو۔اس قانون کو ہمارے پیارے سپریم کورٹ کے محب وطن چیف جسٹس نے صحیح مان لیا ہے، یعنی یہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہے۔عمران خان نے اس قانون کی مذمت کی تھی اور سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ایسا قانون نہ بننے دیا جائے لیکن قاضی عیسیٰ نے ایک نہ مانی۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں نہ صرف نواز اور زرداریوں کو کئی مقدمات سے نجات مل جائے گی، بلکہ عمران خان کو بھی دو مقدمات سے بریت مل جائے گی۔
اس قانون کے مطابق نیب کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ اس قانون سے جو رشوت خوری کے خلاف دوسرے مروجہ قوانین ہیں، ان کو کوئی فرق پڑے گا؟ ایسا ہونا تو نہیں چاہیئے۔ لیکن کیادوسرے ادارے پچاس کروڑ سے کم کی سطح پر کرپشن کی پکڑ کر سکیں گے؟ لیکن کیا وہ ایسا کریں گے؟وہ ادارے قانوناً وزیر اعظم کے تابع ہیں اس لئے ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے جو وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف ہو۔نیب اس معاملے میں مختلف اختیارات رکھتا تھا۔کرپشن زندہ باد۔ کرپشن تب تک جیتتی رہے گی جب تک ہمارے عوام سوتے رہیں گے۔ ان کو باور کروا دیا گیا ہے کہ یہ حکام کی مٹھی گرم کرنا، فائلوں کو پہیے لگانا ہم سب پر لازم ہے۔ اس کے بغیر حکومت کا کام نہیں چلتا۔عوام بے چارے، جو اپنے حقوق سے واقف ہی نہیں، وہ بھی ہمیشہ سے یہی نظام دیکھتے آئے ہیں اور اسی کو بر حق سمجھتے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ سرکاری نظام انہی کے پیسوں سے چلتا ہے جو حکومت ان سے ٹیکس کی مد میں لیتی ہے۔یہ جو اوپر کی آمدنی ہے یہ نہ صرف ناجائز اور حرام ہے، یہ خلاف قانون بھی ہے۔آپ کو یاد ہو گا پرانے وقتوں میں، نوٹوں پر مجسٹریٹ کے دستخطوں والے نوٹ راشی سرکاری ملازم کو دیئے جاتے تھے اور اس کے بعد چھاپہ مار کر وہ نوٹ برآمد کیے جاتے تھے، اور اس ملزم سرکاری ملازم کو عدالت میں پیش کر دیا جاتا تھا جہاں اس کو سزا ملتی تھی۔ وہ زمانے کب سے چلے گئے، کوئی پتہ نہیں۔جب سے میاں نواز شریف خاندان کی حکومتیں آئی ہیں، بلکہ پی پی پی کی حکومتیں بھی اور فوجی حکومتیں بھی، راشی ملازمین کو گرفتار نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے اپنا حصہ طلب کیا جاتا ہے، جو بہت اوپر تک تقسیم ہوتا ہے۔گزشتہ پچاس ساٹھ سال میں اگر رشوت کے مجرموں کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو وہ بہت کم نظر آئیں گے اور بتدیج کم ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک سے رشوت کم ہو رہی ہے، یہ کہ راشیوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا، تا آنکہ وہ اپنی لُوٹ سے حصہ دینے سے انکار کر دے۔
آپ پاکستان کے دس سال کے جرائم کے سرکاری اعداد و شمار کا بغور جائزہ لیں تو ان میں رشوت کا جرم شامل ہی نہیں ہے۔ جو جرائم ہیں وہ ہیں، قتل، قتل کی کوشش، اغوا، ڈاکہ زنی، ڈاکہ ، ڈاکے کی نیت سے کھڑکی توڑنا،مویشی چرانا، کار چرانا، وغیرہ۔ ذرا غور کریں کہ سن 2010ء سے 2020ء تک کل مجرموں کی تعداد بمشکل36فیصد بڑھی۔جب کہ اسی عرصہ میں آبادی اس سے کہیںزیادہ بڑھی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اول تو پولیس والے اپنے علاقے میں ہونے وال جرائم کی تعداد ویسے ہی کم دکھاتے ہیں۔کیونکہ جرائم کی زیادتی ناقص کار کردگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر رشوت قابل پولیس دخل اندازی نہیں تو اس کے اعداد و شمار کہاں دیکھے جا سکتے ہیں؟ یہ اعداد و شمار سماجی اور معاشرتی اشاریوں میں بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔اسی لیے جب بین الاقوامی ادارے کسی ملک میں کرپشن کی موجودگی کے اعداد نہیں دیکھ پاتے تو وہ کرپشن کی پرسیپشن(perception) کی رتبہ بندی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب سادہ لفظوں میں جو بیرونی کاروباری حضرات اس ملک کے سرکاری ملازموں سے معاملات کرتے ہیں ان کا ایسے ملازموں سے کیا لین دین ہوتا ہے؟ پاکستان کا 2023 میں 29سکور تھا جو اسکو دنیا کے 180ملکوں میں 133نمبر پر دکھاتا ہے۔یہ سکور 2020ء میں 131 تھا۔اس کا مطلب یہ کہ ایک سال میں راشیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔غالباً ساری دنیا میں رشوت ۔ کسی نہ کسی سطح پر لی اور دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں راشی سرکاری ملازموں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں زیادہ۔ مثلاً افریقہ کے ممالک میں رشوت کا انڈکس سب سے زیادہ ہے۔ جیسے نائیجیریا میں پاکستان سے بھی زیادہ کرپشن ہے۔
کرپشن کااصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں نا انصافی بڑھتی ہے۔ امیر اور کرپٹ لوگ اپنی دولت کی وجہ سے ہر قانون اور سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ان کا سارا زور دولت کمانے ، سرکاری زمینیں اور وسائل پر قبضہ کرنے پرلگ جاتا ہے۔نہ تو عوام کے مسائل کم کرنے پر اور نہ ملک کی ضروریات پورا کرنے پر۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ راشی سیاستدان زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے چکر میںحکومت کو ایسے منصوبوں میں پھنساتے ہیں جن میں انہیں زیادہ سے زیادہ کمیشن ملے، خواہ ان سے ملک کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ اس کی ایک بڑی اور تکلیف دہ مثال وہ بجلی بنانے کے پلانٹ ہیں جن کو خارجی سرمایہ داروں سے ملکر لگایا گیا اور اس شرط پر کہ خواہ وہ بجلی بیچیں یا نہ بیچیں، ان کو پلانٹ کی کپیسٹی پر معاوضہ ملے گا۔ اس قسم کے پلانٹس میں سرمایہ کار ہماری اپنی اشرافیہ تھی۔یہی نواز شریف ، ان کی فیملی، زرداری، کچھ فوجی افسران اور دوسرے شرفاء۔ اب خواہ عوام بھوکے مریں، ان کو بڑے بڑے بجلی کے بل تھمائے جاتے ہیں۔ اور ان کا منافع شریفوں اور دوسرے اشرافیہ کو جاتا ہے۔اگر یہ حکمران ذرہ بھر بھی ملک کے خیر خواہ ہوتے، تو ایسے معاہدے نہ کرتے اور نہ ایسے پلانٹ لگاتے بلکہ ان کی جگہ کالا باغ ڈیم اور دوسرے پانی کے ڈیم بنواتے جو کچھ سالوں بعد عوام کو سستی بجلی تو دیتے۔اور یہی نہیں ملک صنعتی ترقی بھی کرتا۔ اب تو بجلی کے ہولناک نرخ دیکھ کر صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور نئے سرمایہ کار ملک میں آنے سے کترا رہے ہیں۔ چونکہ ان بجلی کے پلانٹس میں اکثر سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کا مفادجڑا ہوا ہے ، ملک میں جائز جمہوری حکومت کا قیام بھی مشکل بنا دیا گیا ہے، اور عمران خان کے خلاف اس نا جائز طبقہ نے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔اگر عمران خان آ گیا تو ان رشوت خوروں، لٹیروں اور ڈاکووں کا کیا بنے گا؟ ان حالات میں صرف عوام کی طاقت ہی ملک کو ان خون پینے والی چمگادڑوں سے بچا سکتی ہے۔
0