0

جلسے اور سیاست!

جلسوں کی روایت بہت پرانی ہے دو ہزار پہلے یونان میں بھی کوئی شخص کسی ٹیلے پر چڑھ جاتا لوگ جمع ہو جاتے اور وہ لوگوں سے مخاطب ہوتا، کتابوں میں لکھا ہے کہ یونان میں کسی جگہ ایک دیوانہ سا شخص گلیوں اور بازاروں میں کہتا پھرتا تھا کہ بادشاہ قاتل ہے بادشاہ نے اس کو گرفتار کرنا چاہا تو ایک پہاڑی پر چڑھ گیا بادشاہ کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور لوگ اپنے بادشاہ کے خلاف ہو گئے اور بادشاہ کو بھاگنا پڑا، یونان میں ایسے قصے کہانیاں بہت ملتی ہیں ہمارا تعلق چونکہ بر صغیر سے ہے وہاں پر ایسی کوئی روائیت نہیں ملتی، چاہے اشوک کا دور دیکھیں یا کنشک کا، ایسی روایات ملتی نہیں ہیں، ہندوستان میں ہندو سماج کے اصولوں کے سبب چھپنےوالی بن باس کی روایات ہیں اور یہی روایات کسی نہ کسی شکل میں ہمارے معاشرے یا سماج میں رہبانیت کے طور پر متعارف ہو ئیں ، ہمارے ولی، قطب اور ابدال نہ پہاڑوں کی غاروں میں رہے نہ جنگلوں میں مگر بہت حیرت انگیز کہانیاں لکھی گئیں کہ فلاں پیر صاحب دریا میں چالیس سال کھڑے رہے اور ان کی پنڈلیوں کا گوشت مچھلیاں کھا گئیں، ایک پیر صاحب شیر کی سواری کرتے تھے اور ایک فضا میں پرواز کیا کرتے تھے ، ایسا ہوا کچھ نہیں بس باتیںاڑا دی گئیں، اور یہ بات مشہور ہو گئی کہ پیر نہیں اڑتا اس کے مرید اسے اڑاتے ہیں۔
بہر حال ہندوستان میں اجتماع کی کوئی روائیت ملتی نہیں ہے، مگر عالمی تاریخ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں، یہ سچ ہے کہ کسی بلندی سے جو بات کہی جاتی ہے اس کا اثر ہوتا ہے، نفسیات میں بھی کہا گیا ہے کہ جو بات سر اٹھا کر سنی جائے وہ ذہنوں میں محفوظ ہو جاتی ہے اور وہ بات جس کی سماعت کے وقت آپ کا سر جھکا ہوا اس پر آپ سوچتے ہیں،اب کوئی بات جو کسی پہاڑی سے کہی گئی ہو، منبر سے کہی گئی ہو یا کسی اسٹیج سے وہ زیادہ سمجھ آتی ہے یا زیادہ غور سے سنی جاتی ہے اور ان تمام حالتوں میں آپ کا سر اٹھا ہوا ہوتا ہے، سر اٹھاتے وقت دماغ کا کیا FUNCTION ہوتا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا اس پر تو کوئی نفسیات کا ماہر یا PSYCHITRIST ہی روشنی ڈال سکتا ہے، جب تک ہندوستان میں سیاسی جماعتیں نہ تھیں جلسے اور جلوس بھی نہیں ہوتے تھے ہندو اوتاروں کے جلوس ضرور برآمد ہوتے تھے ، سیاسی یا سماجی اجتماعات نہ ہوتے تھے تحریک پاکستان میں جلسوں اور جلوسوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا، اور اسی دوران کئی بہت اچھے مقرر اور خطیب بھی مسلم لیگ کو میسر آگئے جن میں عطا اللہ بخاری کو بڑی شہرت ملی، پھر ہندوستان اور پاکستان میں سیاسی جلسوں کی ایک روائیت بن گئی ، اس لحاظ سے تو یہ مناسب تھا کہ اس وقت ذرائع ابلاغ نہ تھے لے دے کہ ایک ریڈیو تھا مگر وہ بھی سب کو میسر نہ تھا اور حکومتی تحویل میں تھا، ٹیلی ویژن بہت بعد کی بات ہے میرے خیال میں جلسے جلوسوں کا پاکستانی سیاست کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے گئے، مجھے جنرل ضیا الحق سے ہزار اختلاف سہی مگر اس نے ایک اچھی تجویز دی تھی کہ جلسے جلوسوں کو ختم ہونا چاہیے ، نوابزادہ نصر اللہ خان نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ جلسے جلوس ہماری سیاست کی ایک روائیت ہے جنرل ضیا الحق کی تجویز اچھی تھی مگر اس کے پیچھے شرارت تھی کہ سیاست دانوں کو جلسے جلوسوں سے تو روک دیا جاتا مگر مولوی کو تو لاؤڈ اسپیکر اور مجمع ہر وقت میسر تھا مگر سیاست دان کی زباں بندی ہو جاتی، میں اجتماع کے خلاف نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسپیکر انتہائی شاطر جس کا تعلق وڈیرہ شاہی اور سرمایہ داری سے ہوتا ہے اور اس کا سامع جاہل اور ان پڑھ ، جس کو سیاست کی سمجھ ہی نہیں، بھیڑ بکریوں کی طرح جلسوں میں چلا آتا ہے، جلسوں میں شہروں کے لوگ زیادہ آتے ہیں، شہروں میں بھی جہالت کی کمی نہیں، پھر پارٹی کے کارکن ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ چلو دیکھیں کیا تماشہ ہوتا ہے، ویسے مسلمانوں کا ایک نفسیاتی اور سماجی مسئلہ ہے یہ لوگ نہ سینما دیکھتے ہیں نہ تھیڑ جاتے ہیں نہ میکدے، نہ کلب نہ رقص دیکھتے ہیں نہ گانا سنتے ہیں یہ لوگ بہت ہوا تومشاعرے میں چلے جاتے ہیں، یا نماز پڑھتے ہیں ، لطف یہ ہے کہ مشاعرے میں ملحدانہ اشعارپر سر دھنتے ہیں اور واپس گھر آ کر دو نفل نماز پڑھ کر سوتے ہیں، جب سماج سے مولویوں نے فنون لطیفہ ہی چھین لیا تو جلسے ہی ان کی تفریح کا ذریعہ رہ گئے جہاں وہ نعرے بھی لگا سکتے ہیں، ناچ سکتے ہیں پارٹی کے نغموں کو گنگنا سکتے ہیں اور آزادی محسوس کرتے ہیں، فنون لطیفہ کی عدم موجودگی سے جو VACCUM پیدا ہو جاتا ہے یہ جلسے اس خلا کو کسی نہ کسی طرح پورا کر دیتے ہیں، مگر مجموعی طور پر ان جلسے جلوسوں سے فائدہ کم ہوا ہے ان جلسے جلوسوں میں غریب کے بچے ہی ایندھن بنتے ہیںاور پاکستان کی اپوزیشن ہمیشہ اشرافیہ کی رہی، یہ پڑھے لکھے شاطر لوگ ہیں،ان کو معلوم ہے کہ ان پڑھ عوام کو کیسے بیوقوف بنانا ہے، کئی متحدہ محاذ بنے حکومت گرائی اور اپنے ڈرائینگ رومز میں جام اچھالے، پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن نے ہمیشہ معیشت پر وار کیا، یہ سب سے اچھی STRATEGY تھی اور لطف یہ کہ اپوزیشن جب بھی حکومت میں آئی معیشت پر کام نہیں کیا عمران تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ہر روز ایک جلسہ کرتے رہے، جلسہ کرنے ریلیاں نکالنے اور ہڑتال کرنے سے معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے، امن نہ ہو تو سرمایہ کاری نہیں ہوتی مقامی سرمایہ کار بھی بھاگ جاتا ہے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے، عمران نے سمجھ لیا تھا کہ معیشت سنبھلی تو ان کی سیاست کو کوئی نہیں پوچھے گا، انہوں نے معیشت سنبھلنے ہی نہیں دی مہنگائی اور بیروزگاری کا شور مچاتے رہے، ٹھیک ہے کہ وائٹ ہاؤس اور ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے مظاہرے ہوتے ہیں مگر یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں نہ گالی دی جاتی ہے نہ گولی چلتی ہے، ہر سیاسی جماعت اسلام آباد میں ہی مظاہرہ کرتی ہے دھر نہ دیتی ہے،اور شہر مفلوج ہو جاتا ہے، اکثر و بیشتر تو مظاہرہ اس دن کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے جب کوئی غیر ملکی مہمان اسلام آباد میں ہوتا ہے یا کوئی اعلیٰ سطحی وفد آ رہا ہوتا ہے انہی حرکتوں کی وجہ سے ان دنیا پاکستان کو منہ نہیں لگاتی، یہ دور ذرائع ابلاغ کا دور ہے ریڈیو، ٹی وی، اخبارات سوشل میڈیا مگر سیاسی جماعتیں جلسوں جلوسوں پر اصرار کرتی ہیں، اور وہ اس لئے کہ ہڑبونگ ہو اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو پہلے اس مقصد کے لئے طلباء تنظیموں کو استعمال کیا جاتا تھا، مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، اشرافیہ عوام کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اسی لئے تعلیم عوام سے چھین لی گئی ہے، حکومت سارے ایسے بل پاس کر رہی ہے یہ بل نہیں لاتی کہ جلسے جلوس کی سیاست ختم ہو ، حکومت ایسا بل لا کر اپنی جماعت کے ہاتھ پیر کیوں کاٹے گی ، فوج یہ اچھی طرح سمجھ لے کہ ملک کی حالت اس وقت تک نہیں سدھرے گی جب تک ملائیت اور وڈیرہ شاہی کو ختم نہیں کرتے اس وقت تک ملک کا کینسر ختم نہیں ہوگا پوری فصل کاٹنے کی ضرورت نہیں فصل کا سہ کاٹنے سے کام چل جائیگا، ملائیت کی بلیک میلنگ کو سختی سے مسترد کیا جائے تب جا کر معاملات بہتر ہونگے، تاجر اور وڈیرے ٹیکس نہیں دینگے تو یہ ملک نہیں چلے گا، بہتر ہے دس پندرہ سال کے لئے سیاست ختم کی جائے بلدیاتی اداروں سے کام چلایا جائے اور چھ سات رکنی کمیٹی ملک چلائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں