0

ذرائع آمدروفت!

اسیر
نوائے دردنہ سینے سے آسکے باہر
ہر احتجاج کو قانون سے ’’حقیر‘‘ کرو
جو چاہتے ہو کہ اظہارِ حق نہ ہو پائے
قلم کو قید کرو، ذہن کو اسیر کرو!

بہت سے یورپی ممالک امریکہ اور بعض مشرق بعید کے ممالک کی طرح برطانیہ میں عام پبلک ٹرانسپورٹ کو محفوظ آرام دہ اور آسان سمجھا جاتا تھا لیکن شمالی برطانیہ کے متعدد علاقوں میں بسوں وغیرہ میں سفر کرنے والے اب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ویسٹ یارک شائر کے ایک حالیہ سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کم عمر خواتین رات کو بس اور ٹرین کے سفر کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں خواتین ایشیائی اور نسلی اقلیتوں کے علاقوں میں سفر سے گریز کرتی ہیں۔ 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگ بھی رات کے وقت سفر کرنے میں مطمئن نہیں ہوتے۔ اسی سروے کے بعد بس کمپنی کے مالکان اور کونسلرز نے اعداد و شمار کو خوفناک قراردے دیا اور خیال ظاہر کیا کہ خواتین کی حفاظت کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ ٹرانسپورٹ کی صنعت کو اس مسئلے کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔ خواتین مسافروں کو سفر میں اپنا اعتماد رکھنے کے لئے پولیس سارجنٹس کو ویسٹ یارک شائر میں بس سٹیشنوں اور بسوں میں پولیس کا گشت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے اور مسافروں کو یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ہر طرح کے سفر میں ان کی حفاظت کی جائے گی۔ اس ضمن میں کونسلر ’’کیرولین فرتھ‘‘ نے سوال اٹھایا کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ کمبائنڈ اتھارٹی اور پولیس اس بارے میں کیا کرنے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے پاس مردوں کے مقابلے میں کار تک رسائی کا انتخاب کم ہوتا ہے۔ ویسٹ یارکشائر کمبائنڈ اتھارٹی کے ذریعے کئے گئے سروے میں بتایا گیا کہ 68فیصد مردوں اور 41فیصد خواتین نے اندھیرے میں سفر کرنے کو غیر محفوظ قرار دیا۔ 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں بھی رات کے وقت سفر کرنے پر اعتماد کی کمی پائی گئی واضح رہے کہ محروم علاقوں میں رہنے والے لوگ بس سروس پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ زیادہ امیر علاقوں میں رہنے والے لوگ جو بس میں سفر کرتے ہیں اور ان کی تعداد صرف 26فیصد ہے۔ برطانیہ جیسے ملک میں سفر کے یہ اعداد و شمار اور مسافروں کا رات کے وقت سفر کرنے کا رویہ بہت حیران کن حد تک تشویشناک ہے۔ واضح ہو کہ ٹرانسپورٹ میں رات کے سفر کے متعلق یہ اعداد و شمار 1800لوگوں سے بات چیت کے بعد حاصل کئے گئے ہیں اور ان اعداد و شمار نے شمالی انگلستان میں لوگوں میں بڑی بے چینی پیدا کر دی ہے اور صاحبان اقتدار اس مسئلے کو حل کرنے کی ازحد کوشش کررہے ہیں۔ زندہ قوموں کے لئے اپنے عوام کی حفاظت بہت مقدم ہوتی ہے۔ ان حالات میں اور اس طرح کی خبروں اور صاحبان اقتدار کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کو دیکھ کر ہم تارکین وطن احساس محرومی اور اپنی حکومتوں کی بے حسی پر اور رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ آئیے آپ کو ایشیا خصوصاً برصغیر کی ٹرانسپورٹ اور بالخصوص پاکستان کی عام سفری سہولتوں کا حال سناتے ہیں۔ پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگ نہ صرف بسوں کے اندر، بسوں کے دروازے پر لٹک کر اور اکثر حالات میں بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی ایئر کنڈیشنڈ بسوں اور کراچی اور لاہور میں گرین اورنج بسوں اور پشاور میں چلنے والی مخصوص بسوں کے علاوہ ہر جگہ پرانی، ٹوٹی پھوٹی، ناکارہ، بسوں کا جال پھیلا ہواہے۔ ایک بس کمپنی دوسری بس کمپنی سے مقابلے کے لئے اور زیادہ سواریاں بٹورنے کے لئے یا تو بہت بہت دیر بعض بڑے بس اسٹاپس پر بس کھڑی کرتے ہیں یا دوسری کمپنی کی بس سے آگے نکلنے کی دوڑ میں بس کو حادثے کا شکار بنا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد لوگ زخمی ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ جاں بحق بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اکثر بس ڈرائیور غائب ہو جاتے ہیں اور بس مالکان پولیس سے مک مکا کرکے معاملہ رفع دفع کرادیتے ہیں۔ شنید ہے کہ بڑے شہروں میں اکثر بسوں کا مالکان پولیس کو باقاعدہ بھتہ ادا کرتے ہیں اور بدلے میں پولیس اس کمپنی کے ڈرائیورز کے غیر قانونی اقدامات کو بھی نظر انداز کر دیتی ہے۔ یہ حال تو بسوں کا ہے۔ پرائیویٹ ٹیکس کمپنیاں مسافر کے فون کے ذریعے بلاوے پر آتی تو ہیں لیکن اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ مسافر انتظار کرتا رہ جاتا ہے اور ٹیکس کمپنی کی طرف سے اُسے پیغام ملتاہے کہ آپ جس ٹیکسی کا انتظار کررہے ہی وہ ابھی نہیں آسکے گی۔ مسافر انتظار کے کرب کے بعد یہ ’’مژدہ‘‘ سنتا ہے کہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ پرائیویٹ ٹیکسی میں سفر کرنا بھی مخدوش ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں علاقے میں ٹیکسی ڈرائیوار نے اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ ٹیکسی کسی غیر آباد جگہ لے جا کر مسافر کو لوٹ لیا۔ بعض دفعہ مسافر کو مزاحمت کرنے پر قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ غرض پرائیویٹ بسیں ہوں یا ٹیکس یا رکشے کہیں پر بھی قانون کو پابندیاں نظر نہیں آتی۔ اکثر رکشے والے من مانا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ چنگ چی والے 6 کی جگہ دس دس مسافروں کو سوار کر لیتے ہیں۔ غرض کہ لاقانونیت اور حکومت کی بے توجہی اور پولیس کی رشوت ستانی نے پاکستان میں سفر کو مخدوش اور خطرناک بنا دیاہے۔ دل سے آواز نکلتی ہے کہ اول دنیا کی طرح کاش ہمارے ملکوں میں بھی مسافروں کے لئے سفر آسان محفوظ اور پر لطف ہو جائے۔ کاش ہمارے اہل اقتدار اس بات کی اہمیت کو سمجھ کر سفر کو محفوظ اور آسان بنانے کی کوشش کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں