0

اب کہاجا سکتا ہے کہ پاکستان آرمی کے سربراہ حافظ سید عاصم منیر کو بشریٰ بی بی کی عدت پر لاحق پریشانی رفع ہو چکی ہو گی

اس ہفتے ایک پاکستانی عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کرنے کے خلاف جاری مقدمے کو خارج کر دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ وہ فحش ترین مقدمہ ہے جس میں خواتین کے حوالے سے غلیظ ترین ریمارکس دئیے گئے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان کے اکثر طبقے خواتین، بچوں اور نوجوانوں نے اس مقدمے کے حوالے سے وہ الفاظ سنے جو کبھی بھی اس سے پہلے نہیں سنے گئے گئے۔ بشریٰ بی بی کی عدت، بشریٰ بی بی ماہواری، بشریٰ بی بی کا حیض، بشریٰ بی بی کے پیریڈز اور بشریٰ بی بی کے منیٹرول سائیکل، غرض ایسا کوئی لفظ باقی نہیں بچا جو عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تضحیک کرنے کیلئے نہیں تھا۔ پاکستان سے باہر ملکوں میں میڈیا ورطہ حیرت میں پڑ گیا کہ پاکستان کے سابق کرکٹر اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو شادی کرنے کے جرم میں چودہ سال قید کی سزا سنا دی گئی اور یہ سب خرافات مملکت خداداد کے غیر اعلانیہ مارشل لاء ڈکٹیٹر اور مطلق العنان سرغنہ حافظ سید جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں جاری ہیں۔ عمران خان کی اور جنرل عاصم منیر کی مخاصمت کا آغاز جون 2019؁ سے اس وقت ہوا جب جنرل عاصم منیر نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے۔ عمران خان نے اس وقت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے عہدے پر فائز جنرل عاصم منیر کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ عاصم منیر کے بنا ثبوت بشریٰ بی بی کے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد آرمی چیف آف سٹاف کے عہدے پر جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کی بھی عمران خان نے مخالفت کی۔ وہ دن اور آج کا دن، ہمارے سید زادے اور حافظ صاحب جنرل عاصم منیر نے اپنی ماں کی جوانی کی قسم اٹھائی کہ وہ اپنی زندگی کا مشن کا محور عمران خان اور بشریٰ بی بی کو بنائیں گے جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سارا تو ایک عدالتی ڈرامہ تھا اور اس کا تعلق جنرل عاصم منیر کے ساتھ بھلا کیا؟ بات یہ ہے کہ جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعد سے عمران خان پر قاتلانہ حملے سے لیکر دو سو سے زائد مقدمات میں ذاتی دشمنی بالکل واضح ہے اور ان پڑھ جاہل سے جاہل شخص بھی اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ سب کون کرارہا ہے کیونکہ عدالتیں اور ججز جنرل عاصم کے کنٹرول میں نیب کا محکمہ جنرل عاصم کے کنٹرول میں پولیس کا محکمہ جنرل عاصم کے کنٹرول میں پیرا ملٹری ادارے رینجرز اور خفیہ فورسز جنرل عاصم کے کنٹرول میں، ملک بھر کا میڈیا جنرل عاصم کے کنٹرول میں غرض ہر جگہ ، ہر ادارے میں جنرل عاصم منیر کا ایک گماشتہ بیٹھا ہوا ہے جو اس ڈکٹیٹر کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک پتہ بھی جنرل عاصم منیر کی اجازت کے بغیر نہیں ہل سکتا ہے۔ پورا ملک اینٹی عمران خان کے بیانے پر چل رہا ہے۔ یہ بات جنرل عاصم منیر کو بھی معلوم ہے کہ ملک کے عوام نہ صرف جنرل سے بلکہ اب فوج کے دوسرے جنرلوں سے بھی نفرت کرنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فوج میں لوگ پاکستانی ہی ہیں، ان کے جذبات اور خیالات بھی عام پاکستانی جیسے ہی ہیں۔ اس نفرت کو کم کرنے کیلئے جنرل عاصم منیر نے ریٹائرڈ جنرل فیض حمید اور دیگر کئی ریٹائرڈ جنرلوں کو گرفتار کر کے کورٹ مارشل کرنے کا حکم دیا ہے۔ مگر یہ ایک کاسمیٹک قدم ہے جس سے پاکستانی عوام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لوگوں نے آرمی کنٹرولڈ میڈیا پرون سائیڈ خبروں کو سننا اور ان پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے اور سوشل میڈیا اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تازہ ترین خبریہ ہے کہ جنرل عاصم منیر فوج کے 42افسران کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔ اپنی تمام تر جاہلانہ کوششوں اور اقدامات کے باوجود جنرل عاصم منیر عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ہفتے مغربی میڈیا میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس کے بعد اڈیالہ جیل کے سٹاف کے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے آئی ٹی وی کو اپنے وکلاء کی مدد سے دئیے گئے اس حالیہ انٹرویو کے دوران عمران خان نے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو ان کے وزیراعظم بننے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان سے ان حالات کا تصور کرنے کا کہا ہے جو اگر ان کے ملک میں ان کی کامیابی کے بعد ان کے ساتھ روا رکھا جاتا تو وہ کیا محسوس کرتے۔ عمران خان کے اس ہفتے کے انٹرویو فوجی حلقوں نے ایک بار پھر ہیجان برپا کر دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کے حامیوں کو سرعام چوراہوں پر کوڑے لگانے شروع کیے تھے تاکہ لوگوں میں دہشت گردی پھیل سکے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ معاملات بدل چکے ہیں اور طریقہ احتجاج بدل چکا ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے جسے جنرل صاحب ڈیجیٹل دہشت گردی کا نام دیتے ہیں۔ ملک میں میڈیا پر سنسر شپ عائد کر کے اربوں روپے کی فائر وال نصب کر کے وہ اندرون ملک کو آزاد دبا سکتے ہیں مگر وہ آئی ٹی وی جیسے مغربی میڈیا کو کیسے کنٹرول کریں گے؟ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کو کیسے کنٹرول کریں گے جہاں پر یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے کیلئے عمران خان کو الیکشن میں نامزد کیا گیا ہے۔ کیا عمران خان کے خلاف200جعلی مقدمات نے رائے عامہ تبدیل کرنے میں کوئی کردار ادا کیا؟ کیا عمران خان اور ان کی اہلیہ کے ہتک آمیز عدت کیس نے لوگوں کی رائے بدلنے میں مدد ملی؟ جنرل صاحب ڈریں اس وقت سے جب ریٹائرڈ جنرل باجوہ کی طرح سے نہ اندرون ملک نہ بیرون ملک آپ کے خلاف لوگ گالیاں نہیں دیں۔ اقتدار دائمی نہیں ہوتا۔ ڈریں اس وقت سے جب آپ کی اہلیہ کے خلاف بھی آنے والے وقت میں کوئی ماہواری کا کیس بنے گا اور آپ خون کے آنسو روئیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں