گزشتہ کئی برسوں سے اس کاروان ِ سیاست میں ،میڈیا پر یا عام بحث و مباحثے میں ایک کی جملہ سماعتوں کو جھنجھوڑتا رہا ہے کہ سٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی سے حالات دگرگوں ہو تے ہیں وہ جسے چاہتی ہے اقتدار میں لاتی ہے جسے چاہتی ہے جلاوطن یا سپرد ِ دار کر دیتی ہے ان فقروں کی صداقت اپنی جگہ مگر روزن ِ سچ سے دیکھنے کی توفیق کسی کو میسر ہو تو جھوٹ کئی شکلیں لئے اپنی خباثتوں کو پنہا کئے ملتا ہے اس سچائی سے انکار نہیں کہ ایوب آمریت کا سہارا بننے والوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو نہ صرف بزور ِ شمشیر شکست دی بلکہ اخلاقیات سے گری دشنام طرازیاں اور حمایت کرنے والوں کی گرفتاریاں سب ہمارے قائد کی اکلوتی ہمشیرہ کی جھولی میں ڈالیںتا کہ سیاست اقتدار کی مسند پر مسندنشین نہ ہو یہ تھا قائد کے احسانات کا بدلہ جو ہم نے اُنھیں دیا ملک کی اس مجموعی شرمندگی میں اُس وقت کی سٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی بھی شامل تھی جس نے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کے بعد سیاست کو زنجیر ڈال کر گیٹ نمبر4پر باندھ دیاتاریخ سکندر مرزا دور کی گواہی دیتی رہے کہ ایوب خان کو برما میں ناقص کار کردگی دکھانے پر قائد اعظم نے ترقی نہیں دی تھی اسی بات پر انتقامی نظریے کو پروان چڑھاتے ہوئے مادر ملت کو سیاست سے باہر رہنے پر مجبور کر دیا گیا ایوبی آمریت نے جن دخل اندازی کی بنیاد رکھی اُسے ایوب خان کے بعد ضیاء الحق نے بیرونی طاقتوں کی ایماء پر آئین و قانون کو روندتے ہوئے ہر حد سے گزر گئے اسلامی طرز ِ عمل کو دکھاوے کے طور پر ڈھال بنا لیا پھر دل میں چھپی ہوس ِ اقتدار تو اتنی بڑھی کہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو نہیں جمہوریت کو پھانسی دے ڈالی بھٹو شہید پاکستان کے وزیراعظم ہونے کے ساتھ عالم اسلام کے لیڈر بھی تھے اوربھٹو شہید کی سب سے بڑی بات ختم ِ نبوت پر مہر ثبت کرنا کہ نبی کریم ﷺ آخری پیغمبر ہیں ان کے بعد کوئی نہیں آئے گا اسلامی ملکوں کی سیاست میں اس سے بڑا کارنامہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا سچ پوچھیں تو بھٹو کو سپردِ دار کرنے کے بعد سیاست کی حیثیت دگرگوں ہو گئی1988میں جینیوا معائدہ طے پایا تو محمد خان جونیجو کی حکومت توڑ دی گئی اور آج بھی یہی حالت ہے کہ ایوب اور ضیاء کی طرح سیاست میں بھی لوگ صرف اقتدار کے لئے ریاستی ،معاشی استحکام کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اپنے نسلی مفاد کی آبیاری میں گلشن ِ وطن کی بہاریں لوٹ لیتے ہیں موجودہ سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو ان کے ووٹرز اپنے قائدین کے فرمان کو والدین کے فرمان سے زیادہ اہمیت دینے پر فخر کرتے ہیں انھیں اسلامی حد بندیاں کسی صورت نہیں بھاتیں وہ سڑکوں پر ناچ گا کر اور انتشار کی سیاست کو فروغ دے کر دلی اطمینان پاتے ہیں بے شعوری کے اس ماحول میں مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے جھوٹ سچ کی آمیزش سے تیار کیا ہوا بہتان یا الزام ان کا بیانیہ بن جاتا ہے چی گویرا کہتے ہیں کہ اگر کسی ریاست میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود روٹی ،تعلیم ،علاج اور مکان نہیں خرید سکتا تو وہ ریاست نہیں ،بلکہ عیاش طبقے کی جاگیر ہو گی ۔طاہرانہ نظر ڈالیں تو ہم سب اسی ریاست کے باسی ہیں حاصل ِ مقصد بات یہ ہے کہ ایک یا چند شخصیات کی وجہ سے پورے ادارے کی تضحیک کرنا اُن کی تحقیر کرنا حب الوطنی نہیں خود غرضی ہے میں خود ضیاء اور ایوب کا نقاد ہوں مگر بخدا فوج کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتا ہوں اُن کی قربانیاں تاریخ کے ماتھے پر چمکتا سورج ہیں ان کی تحقیر کرنا شہداء کی یادگاروں کو ہوس ِ اقتدار کے لئے نذر آتش کرنا ملک دشمن لوگوں کے مذموم عزائم ہوتے ہیں جن کی پشت پناہی دشمن ملک ہی کرتے ہیں تو ایسے عناصر سے ریاست کو بچانے کے لئے فوج ہی دفاع کرتی ہے سلطان صلاح الدین ایوبی کہتے ہیں کہ حالت ِ جنگ میں جب کوئی اپنی فوج اور ملک کے خلاف بولتا ہے تو غدار ہے اور غدار کو دشمن سے پہلے مار دینا چائیے افسوس صد افسوس کہ پاک فوج ہماری پاک ریاست پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے عزم ِ استحکام کے تحت اپنی کاروائی کرنا چاہتی ہے جسے اپوزیشن جماعتوں اور خصوصی طور پر تحریک ِ انصاف نے ہدف ِ تنقیدکا نشانہ بنایا ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر پاک فوج و آرمی چیف کی کردار کشی کر کے انتشاری سیاست کو پروان چڑھا یا جا رہا ہے جس سے ریاست ِ پاک کے دشمنوں کو تقویت مل رہی ہے اب ایسی ملک دشمن سرگرمیوں کا سدباب لازمی امر ہے جمہوری نظام کا مخالف نہیں ہوں مگر سیاست اس بار جس بد اخلاقی سے اداروں کی توہین کر رہی ہے یہ کسی جمہوری معاشرے میں نہیں ہوتا بہتر ہو گا کہ سیاست سے اُن عناصر کو باہرکر دیا جائے جو بیرونی ایجنڈے پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں عوام میں ابھی بھی بے شعوری کی جراثیم ضرورت سے زیادہ ہیں ہیں اس لئے موجودہ انتشار کے راستے جو سیاسی جماعتوں نے کھولے ہوئے ہیں اُس پر داخلہ ممنوع کرنا ناگزیر ہے آرمی چیف سے اپیل صرف اتنی کہ آئی بی پیز سے خریدے جانے والی بجلی کا یکطرفہ معاہدہ منسوخ کر کے عوامی مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا جائے تا کہ انتشار کے راستے بند ہوں اور ملک میں غیر سودی معاشی نظام کی بنیاد استوار کرنا بھی انتہائی ناگزیر ہے محترم عاصم منیر سے ان اہم کاموں کی اپیل اس لئے کی ہے کہ سیاسی عمائدین صرف اقتدار کے لئے مشت و گریباں ہوتے ہیں ان کے وجود سے عوامی مسائل گھٹنے کی بجائے بڑھے ہیں اور بڑھتے جارہے ہیں ذاتی مفادات میں لپٹی اس سیاست سے زیادہ عوام معاشی اطمینان چاہتے ہیں جو بھی دے دے ۔
0