کبھی تنہا بیٹھ کر سوچنا اس چند روزہ زندگی میں کیا کھویا کیا پایا ؟۔مرد کو رب نے مضبوط بنایا ہے لیکن باپ کمزور ہوتا ہے ،مرد نہیں روتا لیکن باپ رو دیتا ہے اور بیٹی کا باپ تو کانچ ہوتا ہے۔ بھٹو نے شراب خانے اورضیاء الحق نے کوٹھے بند کرا دئیے ،شراب خانے اور کوٹھے کوٹھیوں میں تبدیل ہو گئے،آج پاکستان اس معاملے میں دنیا کا منافقت یافتہ ملک ہے۔ نکاح نامہ میں محبت کا کالم نہیں ہوتا،شادی میں حقوق اور ذمہ داریاں نبھانا شرط ہے ۔محبت شرط نہیں ،محبت کا معاملہ دل ہے اور دل فقط عزت احترام اور حسن سلوک سے جیتا جا سکتا ہے۔ دو محسنوں کی آخرت تک قدر کرو ایک وہ جو مصیبت میں کام آیا دوسرا وہ جس نے تیری پردہ پوشی کی۔ پاکستانیوں کا لائف سٹائل آمدنی سے زیادہ ہے پائوں چادر سے باہر ہوتے ہیں اسی لئے ملک کی یہ حالت ہے۔ ہر گھر میں مزاج کا نواب ہے مگر قرض دار ہے ، شوباز ہے۔ زیادتی پر صبر کرو ، صبر سے بڑی بد دعا کوئی نہیں ،صابر کا وکیل رب ہوتاہے ،رب صبر کرنے والوں کیساتھ ہے ،صابرکا بدلہ رب خود لیتا ہے۔ انسان کے کردار کا مالی لین دین سے پتہ چلتا ہے۔ جو زبان کا پکا ہے وہ مومن ہے باقی سب شعبدہ بازیاں ہیں۔ کسی بندے کی عقیدت میں اتنی دور مت نکل جائو کہ واپسی کا با عزت دروازہ بند ہو جائے ، بندہ بندہ ہی ہوتا ہے گناہوں غلطیوں آلائشوں میں لتھڑا ہوا، ابلیس کی چالبازیوں میں جکڑا ہوا۔ ماں کی یاد اچھی بات ہے پر کوئی ہسپتال سکول مدرسہ باپ کے نام بھی صدقہ کر جائو ،آج جہاں تو کھڑا ہے۔ یہ تیرے باپ کی دن رات کی محنت و مشقت کا صدقہ ہے۔ ضروری نہیں دراز قد ’’قد آور‘‘ بھی ہو اور دلکش ’’دلفریب ‘‘بھی ،دل پر حکمرانی ’’کردار‘‘ کر تا ہے اداکار نہیں۔ حسن اور شباب کو عمر کی تھکاوٹ نہیں دکھاوے کی بناوٹ بوڑھا کر دیتی ہے۔ میاں بیوی ایک دوجے کا لباس ہیں ،میاں بیوی میں ذاتی معاملات کوخداکے علاوہ کسی اورکے علم میں لانا رشتے کی کمزوری کی بنیاد اور سبب بنتا ہے ، دو میں تیسرا خدا شامل نہ کیا جائے تو تیسرا شیطان داخل ہوجاتا ہے۔ کم ظرف پر احسان کرو تو اس کے شر سے بھی بچو کہ کم ظرف اپنے محسن کو ڈنگ مارنے، حسد ،بہتان اور نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔کم ظرف نے سانپ کا دودھ پی رکھا ہے۔ جس نکاح کی نیت طلاق ہواس فعل کو خواہ حلالہ کا نام دو یا متعہ ، وہ نکاح نہیں بلکہ زنا ہے ،شرعی نکاح عمر بھر ساتھ رہنے کی نیت کا نام ہے۔ کسی بھی مذہبی کتاب کے مطالعہ سے پہلے قرآن پاک کا بغور مطالعہ ضروری ہے تا کہ گمراہی سے بچا جا سکے۔ تمہیں دکھ رنج پہنچانے والے کے لئے تمہارارب کافی ہے پھر تم کیوں غلاظت میں اپنے ہاتھ بدبودار کرتے ہو۔ پاکستانی ٹی وی ڈرامے لوگوں میں احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں۔مسلسل ڈرامے دیکھنے سے نہ اپنا گھر خوبصورت لگتا ہے اور نہ گھر والی۔ ڈراموں میں کھلم کھلا شراب نوشی دکھائی جاتی ہے اور ساتھ لکھ دیا جاتا ہے’’شراب پینا منع ہے‘‘کل کو فحش مناظر کے ساتھ لکھ دیا جائے گا’’زناحرام ہے‘‘۔پاکستانی معاشرہ کی تباہی میں میڈیا کاشرمناک کردار نسلوں کونگل رہا ہے۔ فارغ خواتین اور ریٹائر بزرگ وقت گزارنے کی بجائے اصلاحی و فلاحی کاموں کووقت دیں،وقت تیزی سے نکل رہاہے، بیماری معذوری موت سے پہلے اگلے جہان کے لئے بھی کچھ جوڑ لو۔چند ایک بیہودہ واقعات سے پاکستانی عورت مراد ہر گز نہیں ہے۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔گڈ ٹائم گزارنے والے دوست نہیں ’’کمپنی‘‘ ہوتے ہیں، نوسر باز ریاکار مفاد پرست کی صحبت تمہاری سوچ اور شخصیت کا پتہ دیتی ہے۔ہر اچھی بات قول نصیحت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب نہ کر دیا کرو کاپی پیسٹ سے پہلے تحقیق و مطالعہ کر لیا کرو ورنہ ثواب کی بجائے گناہ کر بیٹھو گے۔ اپنے خالق سے خالص تعلق مانگو، تعلق جڑ گیا تو بے فکر بے غم بے نیاز ہو جائو گے پھر چلتے پھرتے قیام و سجود ہوتے ہیں دنیا تماشہ لگنے لگتی ہے۔عورت کے چہرے پر تمام رنگ مرد کے دئیے ہیں چاہے خوشی کے ہوں یا غم کے۔اپنی ذات کے لئے سب ہی حساس ہوتے ہیں ، حساس وہ ہے جو دوسروں کی تکلیف محسوس کرنے کی حس رکھتا ہو۔بچپن کی غریبی تو نکالی جا سکتی ہے لیکن سوچ کی مفلسی ڈگریوں سے بھی نہیں نکالی جا سکتی۔ٹوٹا ہوا یقین اور گزرا ہوا بچپن لوٹ کر نہیں آتا۔بعض دکھ ایسے ہوتے ہیں جن پر معاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن دوبارہ تعلق نہیں جوڑا جا سکتا۔تم نے جو کھا پی پہن اوڑھ لیا بس وہی تمہارا ہے باقی تم پر مٹی ڈالنے والوں کا۔کسی کا دل اتنا نہ دکھائو کہ خدا کے سامنے وہ تمہارا نام لے کر رو دے۔زندگی ہے کہ منہ زور گھوڑے کی مانند دوڑے چلی جا رہی ہے اور انسان ہے کہ اس کے پاس اپنے ساتھ وقت گزارنے کی فرصت ہی نہیں،خالص چند گھڑیاں صرف اپنے ساتھ گزار کر دیکھو ،خود پر رحم نہ آئے تو کہنا۔ پردہ اور حیا دومختلف چیزیں ہیں۔ایک فاحشہ بھی منہ چھپا کر بازار جانے پر مجبور ہوتی ہے لیکن ‘‘حیا’’بہت عظیم اور بلند مقام ہے۔’’حیا اور وفا ‘‘عطائے خداوندی ہے۔حیادار اور وفادار مرد و خواتین عام لوگ نہیں ہوتے۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین کو بھی شرم اور ہوش آنا چاہئے جو اپنے بچوں کو قرآن یا ٹیوشن پڑھانے کے لئے غیر مردوں پر اعتبار کرتے ہیں ، اپنی نظروں سے اوجھل کرتے ہیں ، اپنے ہاتھوں سے بھیڑیوں کے حوالے کرتے ہیں۔جس مقام پر بے بسی دم توڑ جاتی ہے ،رضاکا سفر وہاں سے شروع ہوتا ہے۔استخاروں اور خوابوں میں خدا نہیں ، خدا کو ٹوٹے ہوئے دلوں میں تلاش کرو۔
0