سنا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندیاں لگانے کے کالے قوانین بنا رہی ہے۔ضرور بنائے۔ پاکستانیوں نے کونسا احتجاج کر دینا ہے۔ پرانا لطیفہ ہے کہ کسی ملازم نے اپنے مالک سے کہا، میری تنخواہ بڑھا دیں، ورنہ۔مالک نے پوچھا تو ورنہ کیا؟ بے چارے ملازم نے کہا، ورنہ پھر میں اسی تنخواہ پر کام کرونگا۔تو پاکستانی پھر بغیر سوشل میڈیا کے ہی جی لیں گے۔ اُف نہ کریں گے، دم ساد لیں گے، آنسو پی لیں گے۔ان کی تربیت ہی ایسی ہے۔ آ پ ان کی ماں ، بہن، بیٹی کو اٹھا کر لے جائیں،ان کے ساتھ زیادتی کریں، بے چارے چُپ رہیں گے، اور کہیں گے اللہ کی یہی مرضی تھی۔ایک افواہ یہ بھی اڑائی جا رہی ہے کہ مارشل لاء لگنے والا ہے۔ یہ بالکل غیر ضروری عمل ہے، کیونکہ ماشل لاء تو کتنی دیر سے لگا ہوا ہے بلکہ کہنا چاہیئے کہ کبھی ختم ہوا ہی نہیں۔ جب کبھی نام نہاد جمہوری حکومت آئی بھی تو ان کی مرضی کے مطابق ہر کام کرتی تھی۔مثلاً شریفوں اور زرداریوں کی حکومتیں۔ جیسا کہ اب ہے۔ ہاں البتہ، اگر عدلیہ نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو ماشل لاء بھی لگ سکتا ہے اور آئین بھی معطل ہو سکتا ہے۔پاکستانیوں نے نہ کبھی شکایت کی اور نہ اب کریں گے۔ میڈیا ماشل لاء کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملا دے گا۔ کہے گا دیکھو، اب پاکستان میں کتنا سکون ہے، دوکانداروں نے جالیاں لگا لی ہیں، اب کھجوروں پر مکھیوں والا کمبل نہیں ہوتا۔ لوگ بسوں، بینکوں وغیرہ میں قطار لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔لیکن مسئلہ ماشل لاء کا نہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کا ہے، جو مارشل لاء سے ختم کر دیے جاتے ہیں۔
کیا مارشل لاء لگانے والوں کو مہذب دنیا سے لعن طعن کا ذرا بھی ڈر نہیں؟ لیکن مہذب دنیا وہی کرتی ہے جو امریکہ اُسے کہتا ہے اور امریکہ وہی کرتا ہے جو اس کا مائی باپ اسے کہتا ہے۔زیادہ بات بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر مارشل لاء لگانے سے تحریک اور اس کے قائد عمران خان کاقلع قمع ہو سکتا ہے تو سو بسم اللہ۔ ہمارے دشمنوں کی سب سے بڑی خواہش ہی یہ ہے۔ یاد رہے جب مشرف بھائی نے مارشل لاء لگایا تھا تو تھوڑی دیر مغرب سے کچھ توہے توہے ہوئی تھی لیکن امریکہ بہادر نے سب کو چپ کروا دیا تھا ۔ پاکستان میں جو کچھ بھی ہو، پاکستانیوں کو الٹا لٹکا دیں، ان کا حقہ پانی بند کر دیں، ان کے بچوں کو تعلیم نہ دیں۔ ان کی عورتوں کو ہسپتال اور زچہ خانے نہ دیں ، ان کے ننھے بچوں کو دودھ اور مناسب غذا نہ ملے، مجال ہے کہ پاکستانی کبھی اف بھی کر جائیں۔ اللہ نے پتہ نہیں کس مٹی سے یہ لوگ بنائے ہیں؟
بھلا حاکموں کو سوشل میڈیا سے کیوں اتنا ڈر لگتا ہے؟ چند برس پہلے تک تو پاکستانی ٹی وی پر بھارتی فلمیں اور ڈرامے دیکھتے تھے۔جب سے ان کو انٹر نیٹ ملا ہے تو سب سے زیادہ مقبول پروگرام ٹِک ٹاک ہے اور وہٹس ایپ۔ ٹک ٹاک پر مذاحیہ خاکے ہوتے ہیں ، اور وہٹس ایپ پر دور دراز ملکوں میں بیٹھے عزیزوں سے تصویریں ملتی ہیں اور حال چال پوچھا جاتا ہے، سب سے بڑی بات کہ مفت میں گھنٹوں دنیا جہاں کی باتیں کی جا سکتی ہیں جن میں سب سے زیادہ ایک ہی سوال ہوتا ہے، ہور سنائو۔اب راقم کو سمجھ نہیں آتی کہ حکومت کو ان ویب سائٹس سے کیا خطرہ نظر آتا ہے؟پاکستانی زیادہ تر انٹر نیٹ سے جو فائدہ اٹھاتے ہیں وہ اپنے سمارٹ فون سے ہوتا ہے۔ اب اگر حکومت کو سمارٹ فون سے ڈر لگتا ہے تو بھائی ، ان پر اور بھاری ٹیکس لگا دیں، اس سے دوہرا فائدہ ہو گا۔ ایک مالیہ بڑھے گا اور دوسر ے عوام الناس لمبی ، بے معنی گفتگو سے پرہیز کرنا شروع کر دیں گے۔یہ کچھ کرنے سے عوام حکومت کے حق میں تو نہیں سوچیں گے، لیکن پہلے وہ کونسا حکومت کے حق میں سوچتے ہیں اور انہوں نے حکومت کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ جب حکومت نے ان کے ووٹ کی بے عزتی کی، تو عوام نے کونسا طوفان کھڑا کر دیا؟اب چند سر پھروں کی وڈیو سے حکومت گھبرا کر سوشل میڈیا پر پابندی لگائے گی تو اس میں اس کا بھی نقصان ہو گا۔ اور وہ اتنا زیادہ ہو گا کہ اسے ساری پابندیاں اٹھانی پڑیں گی۔سوچنے کی بات ہے کہ سوشل میڈیا ساری دنیا میں ہے لیکن کہیں بھی اس پر پابندیاں نہیں ہیں سوائے چند اسلامی ملکوں کے جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔اب ذرا دیکھیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کی نوعیت کیا ہے؟
ایک تازہ خبر کے مطابق پاکستان دنیا کا دسواں ملک ہے جہاں لوگ سب سے زیادہ وقت موبائل فون پر لگاتے ہیں۔ یہ بنتے ہیں 99ارب گھنٹے۔ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میںپاکستان کے 12.4کروڑ لوگ براڈ بینڈ کے صارف تھے۔پاکستانیوں نے سال میں ساڑھے تین ارب سے زیادہ ایپس استعمال کیں۔جیسے جیسے ڈیجیٹل لٹریسی بڑھ رہی ہے لوگ ہر طرح کی ایپس (Apps)استعمال کر رہے ہیں۔جن میں کھیل، کھانا منگوانا، سے لیکر مالی معلومات اور خدمات سے فائدہ اٹھانا شامل ہے۔ایپ کی صنعت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔گذشتہ برس ٹکِ ٹاک سب سے زیادہ دیکھے جانے والی ایپ تھی۔اس کو تین کروڑ اٹھارہ لاکھ لوگوں نے لیا۔ اس کے بعد کا نمبر وہٹس ایپ کا تھا جسے 2.34 کروڑ لوگوں نے استعمال کیا۔سر فہرست استعمال ہونے والی ایپس میں فیس بک، واہٹس ایپ، اور کیپ کٹ، شامل ہیں۔گیمز بھی بہت سے لوگ استعمال کرتے ہیں، جو غالباً نوجوان ہوں گے۔رپورٹ میںمزید بتایا گیا ہے کہ براڈ بینڈ کا استعمال بھی 51 فیصد سے بڑھ کر 53.6 فیصد ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ 4G کا آنا ہے۔
پاکستانی نہ شراب پیتے ہیں، نہ جوا کھیلتے ہیں اور نہ ہی ناچ گانے پر زیادہ وقت ضائع کرتے ہیں۔ جو تھوڑی بہت تفریح انہیں ملتی ہے وہ سوشل میڈیا پر ہی ملتی ہے، جس میں وہ سیاسی، غیر سیاسی ، سماجی اور غیر سماجی مزاح سے محظوظ ہو لیتے ہیں، جس سے حکومت کو متفکر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس طرح بات ہنسی مذاق میں نکل جاتی ہے۔اور لاوا دلوں میں پکتا نہیں رہتا۔عقلمندوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔سوشل میڈیا پر طنز و مز اح کے نشتر ہی اس کو مقبول عام کرتے ہیں، ورنہ مہنگائی کے اس زمانے میں آپ لوگوں کو کس طرح خوش کریں گے؟ ملاحظہ ہو مشتے از خروارے:
ایران کے صدر کے ہوائی سفر میں حادثہ پر: ’’قسمت کی بات ہے ورنہ ہیلی کاپٹر اور صدر ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘
’’ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ہیلی کاپٹر پر آزربایئجان گیا ہوا ہے باقی جو اللہ کو منظور ہے۔‘‘
ـ’’ یا اللہ ہمارے پاس بھی ہیلی کاپٹر ہے، ہمیں بھی کوئی خوش خبری سنا۔‘‘
’’کھسرا کار کی کھڑکی سے جھانک رہا ہے۔ اور ڈرائیور سوچ رہا ہے کہ ’قوم پریشان ہے یہ سڑک والے ہیں یا GHQ والے؟‘‘
’’ دوبئی میں موجود پاکستانیوں سے گذارش ہے کہ پوری بدمعاشی کے ساتھ پھرا کریں کیونکہ آدھا دوبئی تو ہمارا نکل آیا ہے‘‘۔
’’ہندوستان سے علیحدہ ہونے کے بعد ہمیں سوائے گائے کا گوشت کھانے کے اور کوئی آزادی نہیں ملی۔‘‘
’’ قاضی اور انصاف میں اتنا ہی فرق ہے جتنا راحت فتح علی اور چاہت فتح علی میں ہے۔‘‘
’’صرف عمران سے ملاقات پر پچاس ہزار فیس رکھ دو، اور لوگوں کو ملنے دو میرے خیال میں ایک ماہ میں خزانہ بھر جائے گا‘‘ خالد انعم
ــ’’مشہور فلم سٹار شبنم سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا ۔ ’آپ نے کافی عرصہ کے بعد پاکستان وزٹ کیا۔کیا آپ کو کوئی تبدیلی نظر آئیَ شبنم بولی: میں تو پاکستان کی ترقی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئی کہ کل تک جو شخص میری فلموں کے ٹکٹ بلیک میل کیا کرتا تھاآج پاکستان کاصدر ہے۔ اسے کہتے ہیں ترقی، مورکھو۔‘‘
’’مولا خوش رکھے اگر حالت اتنی ہی پتلی ہے کہ آپ کو کھسروں کے روپ میں آنا پڑ رہا ہے تو پھر واقعتاً ہی خان سے معافی مانگ لو۔‘‘
’’رئوف حسن پر حملہ کرنے والے خواجہ سرا نہیں بلکہ خواجہ سرا کے روپ میں لڑکے تھے۔ہمیں ایسے بدنام نہ کرو۔ آخر کون تھے یہ لوگ؟‘‘
’’اس سال آم کے درختوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے تا کہ لنگڑا آم پیدا نہ ہو۔‘‘ مریم صفدرنواز
’’ اس وقت بنگلہ دیش کے خزانے میں 112 ارب ڈالر پڑے ہیں اور پاکستان کے خزانے میں قومی ترانے اور ۹ مئی کے افسانے پڑے ہیں‘‘ انور مقصود
بلوچستان کے بارڈر پر:’’یہ راستہ اس لیے بند کیا گیا کہ چیک پوسٹ ہے۔یہ اس لیے بند کیا گیا ہے یہ ایف سی اورکسٹم والے دونوں ہیں۔ یہ بس والے سے جس میں مسافر کم ہو ں بیس ہزار لیتے ہیں۔ جو ذرا بھرا ہوتا ہے اس سے ایک لاکھ روپے لیتے ہیں ۔یہ ڈیزل والی گاڑی سے دو لاکھ لیتے ہیں۔ یہ دن میں دو تین کروڑ اکٹھا کر کے کرنل صاحب کو بھیج دیتے ہیں۔ اور کرنل صاحب کس کو دیتے ہیں، کس کو نہیں دیتے۔ ہماری پسنجر بس ہے یہ پورے بلوچستان میںسب کو پتہ ہے۔ ‘‘
یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس نے حمود الرحمنٰ کمیشن کی رپورٹ گھر گھر میں پہنچا دی اور یہ چھوٹا سا پیغام بھی:’’ کمیشن کے سامنے جو شواہد پیش کیے گئے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ، ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ فوج کے سینئر افسران میں اخلاقی گراوٹ 1958میں لگائے جانے والے مارشل لاء میں ان کی شمولیت کے بعد سے پیدا ہونی شروع ہوئی۔اور اس کے بعد یہ رحجانات دوبارہ سے ظہور پذیر ہوئے اور در حقیقت انہوں نے اس وقت شدت پکڑی جب دوبارہ مارشل لاء لگایا گیا۔‘‘
یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس کے ذریعہ خان صاحب کا پیغام اور تصویر لاکھوں پاکستانیوں تک پہنچتے رہے۔ مثلا ایک پیغام جس میں انہوں نے کہا: ’’مسلح افواج کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ جب بھی انہوں نے اس سے تجاوز کیا، اپنے ہی لوگوں کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔ ملک نے پاکستان کے ٹوٹنے سمیت بھاری قیمت ادا کی ہے۔بد قسمتی سے تاریخ سے سبق نہیں سیکھاگیا کیونکہ وہی غلطیاں دہرائی جار ہی ہیں جن کے تباہ کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔‘‘
بزرگوں کا کہنا ہے ، ’’نقل کفر، کفر نا باشد۔ ‘‘ یہ سب سوشل میڈیا سے لیے گئے فقرے ہیں۔اگر کسی کو بُرصے لگیں تو معافی۔
0