0

پاکستانیوں، جاگو، دیکھو، تم کیسے لُٹ رہے ہو؟

چند روز پہلے کہ کسی محب وطن پاکستانی نے ایک طویل فہرست شائع کی جس میں ان پاکستانیوں کے ناموں اور ان کی دوبئی میں خریدی ہوئی جائدادوں کی تفصیل دی گئی تھی جنکی کل مالیت 11 ارب ڈالر بتائی گئی تھی۔۔ جب اس لسٹ کا مطالعہ کیا گیا تو اس سے پتہ چلا کہ کتنے سیاستدان، سرکاری اہلکار، عدلیہ، اور اسٹیبلشمنٹ کے افسران نے دوبئی میں جائدادیں خرید رکھی تھیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ قوم کو لُوٹ کر ملک سے باہر سرمایہ کاری کی جارہی ہے اور پھر باہر کے ملکوں میں جا کر وہاں کے سرمایہ داروں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا سرمایہ پاکستان لائیں۔فٹے منہ۔سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے نام اس لسٹ میں ہیں ان کی آمدنی کے ذرائع ایسے نہیں جن سے وہ بیرون ملک جائدادیں خرید سکیں۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ یہ پیسہ پاکستان سے چوری کیا گیا اور باہر بھیجا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لسٹ میں ظاہر کی ہوئی جائدادوں کے ظاہر ہونے پر پاکستانی حکومت کا کیا فرض بنتا ہے؟ جب ویکی لیکس سے لندن کے فلیٹوں کا پتہ چلا تھا تو نواز شریف پر مقدمات بنائے گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر ایک وڈیو میں عمران خان کی دو سال پرانی بات دکھائی گئی جس میں کپتان نے بتایا تھا کہ دوبئی میں، بیس ہزار پاکستانیوں نے جائدادیں خرید رکھی ہیں، جن کی مجموعی مالیت۴ء۱۰ ارب ڈالرتھی اور ہم نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر لیے تھے جس کے لیے ہم اپنی آزادی اور عزت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ طاقتور لوگ یہاں سے پیسہ چوری کرتے ہیں اور سارا باہر بھیج دیتے ہیں۔یہ پیسہ یہاں سے باہر جا رہا ہے۔میں دوبئی کی بات کر رہا ہوں، لندن، یوروپ یا امریکہ کی بات نہیں کر رہا۔ ایک کروڑ پاکستانی ملک سے باہر کام کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے پانچ لاکھ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستان کا زر مبادلہ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس کے لیے رول آف لاء ، قانون کی حکمرانی کا ماحول بنانا پڑے گا۔ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
اب دیکھیں کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں:
کرغزستان کی خبر ہے کہ وہاں کے شہری ہزاروں کی تعدادمیں جتھے بنا کر ان عمارات میں گئے جہاں پاکستانی طلباء رہتے تھے۔یہ ۱۳ مئی کا واقعہ ہے جس کو ایک پاکستانی نے میڈیا کو بتایا۔ وہ لوگ اپنی اس کرتوت کو ٹکِ ٹاک پر ریکارڈ کر رہے تھے تماش بینی کے لیے۔ان میں سے کچھ نے آ ٓہنی کنگھے پہن رکھے تھے جو منہ پر مار کر جبڑا توڑ دیتے تھے۔نہ مقامی حکومت نے ان کو روکا اور نہ ہی پاکستانی سفارت خانے سے کوئی مدد آئی۔اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیکل کالجز کی کمی ہے اس لیے کہ کسی بھی میڈیکل کالج بنانے کی اجازت تب ملتی ہے جب اس کے ساتھ ا ٹیچنگ ہسپتال منسلک ہو۔ اس لیے ملک کے موجودہ میڈیکل کالجز کی تعداد نہیں بڑھ رہی اور بے شمار طلباء میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں لے سکتے اور جن کو داخلہ ملتا ہے ان کو بھاری فیسیں دینی پڑتی ہیں۔ اس کا حل پاکستانی ضمیر فروشوں نے یہ نکالا کہ ہمسایہ ملک کرغزستان میں میڈیکل کالجز بنائے جہاں ٹیچنگ ہسپتال کی پابندی نہیں ہے۔ اور وہاں خوب بھاری رقمیں لے کرپاکستانی طلباء کوان میڈیکل سکولوں میں داخلے دلواتے ہیں ا س کاروبار میں کروڑوں کا لین دین ہوتا ہے۔ یہ کاروبار اتنا وسیع ہے کہ ہزاروں بھارتی اور بنگلہ دیشی طلباء بھی وہاں داخل ہیں۔پاکستانی طلباء اپنی مدد آپ کے اصول پر آئے۔ کچھ روز پہلے ، سنا ہے، کہ کچھ مقامی نوجوانوں کا باہر کے طلباء کے ساتھ جھگڑا ہوا اور پھیل گیا۔ان کرغز نوجوانوں نے بلا تفریق ہر غیر ملکی طالب علم پر حملے شروع کر دیے۔ ان کی رہائش گاہوں پر حملے کیے جن میں لڑکیوں کے ہوسٹل بھی محفوظ نہیں رہے۔کیئوں کو زخمی کیا اور کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نہ مقامی پولیس اور نہ سفارت خانے اس اذیت ناک غنڈہ گردی پر طلباء کی مدد کو آ ئے۔اندازہ ہے کہ تقریبا دس ہزار پاکستانی اورا س سے زیادہ بھارتی طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ابھی اس سوال کا جواب چاہیئے کہ مقامی آبادی کو ان طلباء پر کیوں غصہ تھا؟اور دوسرا اہم سوال کہ ان کالجز کے فارغ التحصیل طلباء کا پاکستان میں مستقبل کیا ہو گا؟ اگر کچھ نہیں تو اس عمل کو ابھی روک دینا چاہیئے۔کسی جاننے والے کا کہنا ہے کہ چین اور کچھ دوسرے ملکوں میں ہزاروں طالب علم میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن نہ وہ چین میں اور نہ پاکستان میں ڈاکٹر تسلیم کیے جاتے ہیں۔
اب ملاحظہ ہو پاکستانی سیاستدانوں اور طاقتور افراد کی ایک اور کرتوت:
چند روز پہلے ہزاروں کسانوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی جلوس نکالے کیونکہ حکومت نے گند م کی نئی فصل خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔جس سے ان کا لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہو رہا تھا۔ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت باہر سے گندم کی درآمد بند کرے جب کہ ملک میں وافر گندم پیدا ہو رہی ہے۔لاہور میں پولیس نے حسب حکم لاٹھی چارج کیا اور کئیوں کو گرفتار کر لیا۔ایک خبر کے مطابق، سن 2022 کے اواخر میں گندم کی قیمتیں بہت چڑھ گئی تھیں اس لیے اس وقت کی مخلوط حکومت نے گندم کی درآمد کی اجازت دے دی۔اس کے نتیجہ میں بہت سی گندم آگئی اور بازار میں اس کی قیمت گر گئی۔جب نئی فصل آ ئی تو حکومت نے بیس کے بجاے ۷ فیصدسے زیادہ فصل خریدنے سے انکار کر دیا۔اس کے نتیجہ میں نہ صرف کسانوں کا نقصان ہوتا ہے بلکہ وہ آئندہ گندم کی کاشت کم کرکے اور فصلوں پر محنت کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔پنجاب کے وزیر خوراک کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ عبوری حکومت کے فیصلہ سے ہوا جب وہ قریب الاختتام تھی ۔ اس کے سربراہ تھے انوار الحق کاکڑصاحب۔ان کو مشورہ دینے والے تھے پنجاب کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی۔ یہ دونوں حضرات اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ تھے۔ان لوگوں نے گندم کی درآمد کا فیصلہ تب کیا جب گندم کی بمپر فصل آنے والی تھی۔صدر کسان اتحاد نے کہا ہے کہ اس سکینڈل میں شامل تمام افراد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ایک اندازے کے مطابق، سوا ایک ملین ٹن گندم ضرورت سے زیادہ خریدی گئی، جس سے قومی خزانے کو زر مبادلہ کا نقصان ہوا۔
ایک خبر یہ بھی ہماری نظروں سے گذری کہ بہت سی گندم یوکرائن سے خریدی گئی ایک بلین ڈالر کے لگ بھگ۔ وہ بھی ٹھیک تھا لیکن کہتے ہیں کہ باہر سے آنے والی والی گندم میں کوڑا زیادہ تھا اور گندم کم۔ یہ تو متوقع ہونا چاہیئے تھا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے اسلحہ فروخت کرنے والوں نے ممکن ہے کچھ پرانا اور ناکارہ اسلحہ یو کرائین کو بھیجا ہو؟ سب کچھ ممکن ہے۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے غریب پاکستانیوں کے مشکل سے کمائے ہوئے ڈالر یو کرائین کو بھجوانے کے لیے اتنا تردد کیا؟ انہیں شرم بھی نہیں آئی۔کاکڑ اور نقوی تو اشارے کے غلام تھے۔ یہ سب سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے بھارتی اور یہودیوں کی کارستانی لگتی ہے جن کا سر براہ ڈونلڈ لو ہے۔لیکن ان کو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہو گا کہ انہیں بھی غالباً یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان اپنی گندم میں خود کفیل ہونے والا تھا اور اسے یوکرائن یا کسی اور ملک کی گندم کی ضرورت نہیں تھی۔
اب پاکستان کے سب سے بڑے سکینڈل کا سنئیے۔اس کا تعلق ملک میں بجلی کے بحران سے ہے، جس سے پاکستان اپنی آزادی کے دن سے دو چار ہے۔ پاکستان کی خوش نصیبی تھی یا کیا کہ منگلا اور تربیلا پر دو بڑے ڈیم بنے جن سے پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کم قیمت بجلی ملی۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹے ڈیم بنے جیسے نیلم جہلم ڈیم، راول ڈیم، وغیرہ۔ لیکن پاکستانیوں نے بہت جلد سیکھ لیا کہ بجلی کیسے آسانی سے چرائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کافی بجلی ترسیلی نظام کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے جسے line losses کا نام دیا جاتا ہے۔چنانچہ نہ صرف پاکستان کو مالی نقصان ہوا بلکہ اس کے ساتھ بجلی کی کمی بھی ہوئی۔ نوے کی دہائی میں حالات بہت بگڑ گئے اور عوام احتجاج پر اتر آئے۔ شاطر سیاستدانوں اور صنعت کاروں کو اس احتجاج میں آمدنی کے نئے ذرائع نظر آنے لگے۔ اور بجائے اس کے نئے اور بڑے آبی ڈیم بنانے کے، سورج اور ہوا کی چکیوں سے بجلی بنانے کے، حکومت نے تیل سے چلنے والے پاور پلانٹ لگوائے اور وہ بھی ایسی شرائط پر کہ پاکستان کو خواہ ضرورت ہو یا نہ، اسے پلانٹ کی کیپیسٹی پر ادائیگی کرنی پڑے گی اور وہ بھی زر مبادلہ میں۔اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ میں بتایا گیا کہ 1994میں جب پاور پلانٹ سے بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ بنا تو اس کو بہت پذیرائی ملی جس سے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کے امکانات بڑھے۔ لیکن اس کے ساتھ اس منصوبہ پر الزامات بھی لگائے گئے کہ انہوں نے ٹھیکے لینے میں ناجائز راستے اختیار کیے۔ان محققین کی تحقیق کا لب لباب تھا کہ پاکستان میں جیسے اور حکمت عملی بنتی ہے اسی طرح اس پاور کے شعبہ بھی صارفین کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ان کی سفارشات تھیں کہ بجلی سے متعلق قوانین کو مضبوط کیا جائے، سول سوسائٹی کے حقوق بڑھائے جائیں، واپڈا کی تشکیل نو ہو اور نجکاری پر زور نہ دیا جائے۔ان سفارشات کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہو گا ملک میں کم و بیش 42 آزاد برقی قوت کے پلانٹ (IPPs) ہیں جن سے ضرورت کے مطابق بجلی بنتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان آئی پی پی کے حصہ دار کون ہیں؟ وہ ہیں: عبدالرزاق دائود، میاں منشا، شریف خاندان، زرداری گروپ، جہانگیر ترین، سیف اللہ فیملی، اور سابق فوجی افسران اور ان کی فیملیز۔اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شرائط کیوں ایسی رکھی گئی تھیں اور ان سے کون مستفید ہو رہا ہے۔ یہ بدعنوان سیاستدانوں اور عسکری مفادات کاسب سے بڑا گٹھ جوڑ ہے جو ہر حکومت میں ایک دوسرے کے مفاد کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ کچھ اور سرکاری کمپنیاں بھی ہیں جن میں صرف کے الیکٹرک نجی کمپنی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بجلی بنانے والی زیادہ تر کمپنیاں گھاٹے کا سودا ہیں اور کثرت سے لائین لوسز کا باعث ہیں۔
اب آپ کو سمجھ آگئی ہو گی کہ کیوں پاکستانی حکومتیںآبی ذرائع سے، یا سورج اور ہوائی چکیوں سے بجلی بنانے کے حق میں نہیں رہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے آئی پی پی کا نقصان ہوتا ہے۔صرف عمران خان جب حکومت میں آیا تو اس نے آبی ڈیم بنانے پر کچھ شروعات کیں اور سولر بجلی کی سہولتوںکو فروغ دیا، جو ایک بڑی وجہ تھی کہ کیوں مخالف سیاستدانوں نے رجیم چینج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اب آپ یہ بھی سمجھ گئے ہونگے کہ شریف، زرداری اورفوجی یہ سب عمران خان کے خلاف کیوںہیں؟ اور اس کو حکومت میں کیوں نہیں آنے دیتے۔خواہ کچھ بھی ہو۔ان پاکستانیوں کا حصہ 78 فیصد ہے۔گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستانیوں نے چھ ہزار ارب روپے ادا کیے اور ابھی ان پر انتیس سو ارب کا قرضہ باقی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، یہ قرضہ آپ کے بچے اور پھر ان کے بچے ادا کریں گے۔بجلی ملے یا نہ ملے۔
پاکستان کی حکومتوں نے جو تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، اس کی ایک مثال ابھی سوشل میڈیا پر نظر آئی ۔ ایک 18گریڈ کے افسر سے پوچھا گیا کہ آپ نے کن مضمونوں میں بی اے کیا تو انہوں نے کہا ایک مضمون میتھامیٹک تھا۔ جب موصوف سے پوچھا گیا کہ میتھا میٹک کے ہجے بتا دیں تو وہ نہیں بتا سکے۔یہ حال ہے ہمارے ملک میں تعلیمی معیار کا۔یہ صاحب سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں ایساجواب ملنا کوئی اچنبہ کی بات نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں